ایم کیو ایم کا مسئلہ
پاکستان میں دو سیاسی جماعتیں ایسی ہیں جن کا تنظیمی سیٹ اپ بڑا مضبوط اور مربوط ہے
KARACHI:
پاکستان میں دو سیاسی جماعتیں ایسی ہیں جن کا تنظیمی سیٹ اپ بڑا مضبوط اور مربوط ہے، اس میں پہلی سیاسی پارٹی جماعت اسلامی ہے، جس کا تنظیمی ڈھانچہ آج بھی ان کے وجود کو قائم رکھے ہوئے ہے، ورنہ بظاہر اس جماعت کی مقبولیت زیادہ نمایاں نہیں، کم از کم کراچی میں تو ووٹرز سے محروم ہی لگتی ہے، حالانکہ انھوں نے اپنی جماعت میں شفاف کردار کو اب بھی باقی رکھا ہوا ہے، ان کے یہاں احتسابی نظام بھی ہے، جس کا ثبوت سید منور حسن کی جگہ نئے امیر کے طور پر سراج الحق منتخب ہوئے۔ اسی تنظیمی ڈھانچہ سے ملتا جلتا ڈھانچہ ایم کیو ایم کا بھی ہے۔
ایم کیو ایم میں زیادہ تر جماعت اسلامی کے نظریہ کے لوگ شامل ہوئے، ان میں بیشتر وہ ہیں جو مشرقی پاکستان سے وابستہ رہے، یہ تنظیمی ڈھانچہ کسی طور پر کسی کارکن کو سیاسی جمہوری آزادی نہیں دیتا بلکہ ایک ہر کارکن ایک روبوٹ کی طرح کام کرتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایم کیو ایم کے کارکن بڑی محنت اور جانفشانی سے اپنے فرائض انجام دیتے رہے، ان میں جوش بھی ہے اور اپنی تنظیم کی پاسداری بھی اور سب سے زیادہ یہ کہ ایم کیو ایم کے کارکنوں نے جو بے لوث اور خلوص نیت کے ساتھ اپنے قائد الطاف حسین کا بھر پور ساتھ دیا اور قائد تحریک الطاف حسین نے بھی تنظیم میں ڈسپلن کو بہت اہمیت دی، چھوٹے اور بڑے کارکن کا کوئی تصور نہیں تھا، لوگوں نے جتنی محبت اور حمایت الطاف حسین کو دی اتنی حمایت صرف ذوالفقار علی بھٹو کو ملی ہے۔
فرق یہ ہے الطاف حسین کو مہاجروں کی حمایت تھی اور ہے لیکن ذوالفقار علی بھٹو کو پورے پاکستان کے ہر طبقہ کے لوگوں نے حمایت دی۔ یہی وجہ ہے انھوں نے پاکستان جوہری قوت میں بدل دیا۔ ادھر ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے انتہائی جذبہ اور خلوص سے مہاجروں کی قیادت کی لیکن جب سے وہ لندن گئے اور وہاں کے ہی ہو کر رہ گئے اور انھوں نے وہاں بھی رابطہ کمیٹی بنا دی جب کہ کراچی میں رابطہ کمیٹی بنائی جب کہ ایک رابطہ کمیٹی جو کراچی میں تھی وہی کافی تھی۔ قائد کا کام قیادت کرنا ہوتا ہے، ساری ویٹو پاور اسی کے پاس ہوتی ہے، اس لیے لندن رابطہ کمیٹی نے قائد تحریک الطاف حسین کو Guide نہیں Misguide کیا۔
اس طرح پورے پاکستان کی ایم کیو ایم پاکستان کے رابطہ کمیٹی کے ہاتھ سے نکل گئی، وہ ایک روبوٹ کمیٹی E ROBOT COMMITTEE بن کر رہ گئی۔ کسی سیکٹر آفس میں رابطہ کمیٹی کا عمل دخل نہیں تھا، یہ بھی نقصان دہ رہا، اس پارٹی کے ہر کارکن نے اپنی پارٹی کی ہر بات پر من وعن عمل کیا، خواہ متفق تھے یا نہیں۔ وہ تو یہ جانتے تھے کہ ہم سے جو کام لیا جا رہا ہے وہ تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے لیا جا رہا ہے۔
لندن رابطہ کمیٹی نے ایم کیو ایم کی طاقت سے صرف دو کام لیے، ایک فنڈنگ کا دوسرا ہڑتال کا۔ اسی وجہ سے قائد تحریک الطاف حسین جب سے لندن گئے، وہ ایم کیو ایم کے بنیادی حقوق کے لیے کچھ نہ کر سکے، نہ مہاجروں کا کوئی بینک بنا، نہ انھیں قرضے ملے، نہ انھیں ملازمتیں ملیں، نہ شہر میں ترقی کا کوئی کام ہوا، سوائے اس کام کے جو میئر سید مصطفیٰ کمال کے زمانے میں ہوا، اس کا کریڈٹ جنرل مشرف کو بھی جاتا ہے، مگر آج تک کراچی میں کسی جگہ جنرل پرویز مشرف کی تصویر بھی نہیں لگی۔
یہی وجہ ہے جب سید مصطفیٰ کمال، جن کے بارے میں، میں نے ان کو ایک کالم میں مستقبل کا وزیراعظم کہا ہے، جس طرح ایران کے احمدی نژاد میئر سے کرسی صدارت تک پہنچ گئے، وہ اپنی محنت اور جانفشانی سے مقبول ہوئے، اسی طرح سید مصطفیٰ کمال نے بھی کراچی میں جس خلوص اور جانفشانی سے ترقیاتی کام کیے، اس شہر میں سڑکوں کا جال، پلوں کی تعمیر، انڈر پاس، سیوریج لائن کے کام میں ان کی عقلمندی، ان کا جذبہ، دن و رات کی محنت کا بڑا دخل ہے۔ یہ سب کچھ انھوں نے ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم سے کیا۔ آج اگر ایم کیو ایم سے ان کے کارناموں کا پوچھا جائے تو ہر ایک مصطفیٰ کمال کے کارنامے ہی بتاتا ہے۔
کسی نے بابر غوری، فاروق ستار، رؤف صدیقی کے کارنامے نہیں بتائے۔ حالانکہ فاروق ستار ایم کیو ایم میں قائد تحریک کے بعد سب سے زیادہ مقبول شخصیت ہیں، جو کام آج مصطفیٰ کمال نے کیا، اگر فاروق ستار کرتے تو کراچی فاروق ستار کے نام سے گونج اٹھتا لیکن انھوں نے مصلحت پسندی سے کام لیا ۔
آج بھی اگر کراچی کی رابطہ کمیٹی لندن کی رابطہ کمیٹی سے لاتعلقی اختیار کر لے تو ایم کیو ایم کی مقبولیت بہت بڑھ جائے گی اور ممکن ہے مصطفیٰ کمال، انیس قائم خانی، ڈاکٹر صغیر جیسے تمام وہ لوگ جو اس وقت مصطفیٰ کمال کے ساتھ جوق در جوق شامل ہونا چاہتے وہ بھی فاروق ستار کی قیادت کو قبول کر لیں۔ قائد تحریک الطاف حسین تو ایم کیو ایم کے بانی ہیں، اس لیے ان کا کوئی بدل نہیں ہو سکتا، لیکن اس وقت ایم کیو ایم کی ساکھ بہت خراب ہو رہی ہے، اس کو بچانا بہت ضروری ہے۔
ہمیں اندازہ ہے ایم کیو ایم میں دیگر صاحبان یقیناً کوئی ایسا حل ڈھونڈ رہے ہوں گے کہ اس کڑے وقت میں ایم کیو ایم کو کیسے بچایا جائے اور یہ فیصلہ بھی کریں کہ کراچی کی ترقی میں بھرپور حصہ لیں۔ مصطفیٰ کمال نے ٹرانسپورٹ کے ملائشیا سے معاہدے کیے تھے جس کے نتیجے میں گرین بس چلنی تھی، ٹریفک کا نظام بہتر ہونا تھا، کاش بلدیاتی نظام کا سلسلہ نہ ٹوٹتا تو آج یہ شہر کراچی کسی گاؤں کا منظر نہ پیش کرتا۔ ہمیں مہاجروں کے وقار کا خیال کرنا ہے، ان کی علمی ادبی حیثیت کو بحال کرنا ہے، ایم کیو ایم جو فنڈ بھی اس شہر سے حاصل کرے، اسے اسی شہر کے معاملات پر خرچ کرنا چاہیے۔
ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کراچی احتساب کمیٹی تشکیل دے اور جس جس نے ایم کیو ایم کے نام پر مال و زر کمایا، پٹرول پمپ بنائے، شادی ہال، پلازے بنائے، اندروں و بیرون ملک اثاثے بنائے، ان سب کو احتساب کے دائرے میں لایا جائے۔ اگر یہ کام موجودہ کراچی کی رابطہ کمیٹی نے نہ کیا تو یقیناً سید مصطفیٰ کمال کامیاب ہوں گے اور انھیں عوام کی پذیر ائی بھی ملے گی۔ کیونکہ وہ ایسے سیاستدان ہیں جنھوں نے اہل کراچی کی خدمت کی، جس کا اعتراف شہر کا بچہ بچہ کرتا ہے۔ ان کے ہاتھ بھی صاف ہیں۔ اب ہمیں اپنی منزل کا تعین کرنا ہے، اس لیے میرا مشورہ ہے کہ ایم کیو ایم کو روایتی سیاسی جماعت بنا دیا جائے، اس کا نام پاکستان متحدہ پارٹی رکھ دیا جائے۔