بے ثمر درخت
کسی کا قول ہے کہ جدوجہد کے بغیر فلاح و بہبود کا نام لینا حماقت ہے
لاہور:
کسی کا قول ہے کہ جدوجہد کے بغیر فلاح و بہبود کا نام لینا حماقت ہے، یعنی سب سے پہلے یہ کہ کوشش کی جائے، کیونکہ اس کے بغیر اگر کچھ مل جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یا تو انسان آزمائش کے مرحلے میں ہے یا رب العزت کی رحمت ہے، لیکن بنا کوشش کے مل جانے پر زیادہ پھولنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ یہ بھی امتحان کی ایک کڑی ہے۔
زندگی میں اکثر ایسے لوگ ملتے ہیں جو کسی نہ کسی سلسلے کے، کسی بزرگ یا پیر صاحب کے عقیدت مند ہوتے ہیں، ان سے مختصراً انٹرویو کریں تو کم و بیش سب کی باتیں ایک ہی طرح کی ہوتی ہیں۔ مثلاً بابا جی کی وجہ سے میرا کام بن گیا، کاروبار ڈوبتے ڈوبتے بچ گیا... بیٹا مل گیا، نصیب کھل گئے... بچی کی شادی ہو گئی، فلاں فلاں۔ عام طور پر لوگ اسی طرح کی خواہشات رکھتے ہیں، ان سب کے کام ان کی نظر میں ہوتے نظر آتے ہیں لیکن ان کی راہ میں کوئی نہ کوئی رکاوٹ حائل ہوتی ہے، مثلاً دیورانی تعویذ کرواتی ہے... نند بڑی چڑیل ہے... ساس ڈائن ہے... پارٹنر پیسے ہڑپ کر گیا، وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ان کے پیر یا بابوں کی وجہ سے رکاوٹی پتھر ایسا ہٹتا ہے کہ نہ پوچھیے۔ اور پھر بابوں کی عقیدت مندی میں اضافہ بڑھ جاتا ہے۔
اس میں کمال ان محترم پیروں، فقیروں کی شعلہ بیانی کا بھی ہوتا ہے جس سے ان کے معتقد ان کے گرویدہ ہوتے چلے جاتے ہیں۔کہیں پڑھا تھا خاصا دلچسپ لگا۔ یہ 1979ء کا واقعہ ہے۔ کویت میں ایک پاکستانی افسر تعلقات عامہ تھے۔ کمپنی ڈائریکٹر نے گھریلو کام کاج کے لیے ایک خاتون جس کا تعلق سری لنکا سے تھا، ان کے لیے بھجوائی تو دوسرے ہی دن اسے واپس بھیج دیا گیا کیونکہ وہ لڑکی نہ عربی جانتی تھی اور نہ ہی انگریزی سے واقفیت تھی۔ افسر صاحب اس کے دستاویزات لے کر متعلقہ آفس گئے تو بتایا گیا کہ فی الحال سری لنکا کا سفارت خانہ نہیں ہے اور برطانوی سفارت خانہ سری لنکا کے باشندوں کے معاملات دیکھتا ہے۔
برٹش کونسل والوں نے ان صاحب کو مسٹر ولسن سے ملوایا، وہ بہت بااخلاق تھے اور پاکستان کی مقامی زبانوں سے بھی واقفیت رکھتے تھے۔ انھوں نے نہایت محبت سے ان کے تمام معاملات سنے اور انھیں کافی پلوائی، پھر پوچھنے لگے کہ کہاں کے رہنے والے ہیں؟ افسر نے بتایا کہ ان کا تعلق فرنٹیر سے ہے۔
پوچھا گیا کہ کون سی جگہ؟ جواب دیا کہ نوشہرہ۔ مسٹر ولسن بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ میں آپ کے گاؤں عیسیٰ خیل میں چار سال تک پیش امام رہا ہوں اور چار سال تک گاؤں والوں کا نمک کھایا۔ افسر صاحب یہ سن کر سناٹے میں رہ گئے، دونوں حضرات کے درمیان بے تکلفی خاصی ہو چکی تھی لہٰذا باتوں کے در کھلتے گئے۔ مسٹر ولسن نے بتایا کہ وہ ابھی تک عیسائی ہی ہیں اور اہل کتاب ہیں۔ افسر حیران تھا کہ ایک اہل کتاب عیسائی مسلمانوں کا پیش امام کیسے ہو سکتا ہے۔ بہت اصرار پر انھیں بتایا گیا کہ لندن کے مضافات میں ایک مرکز ہے جہاں بیرونی مذاہب کی تعلیم دی جاتی ہے وہاں سے فارغ ہونے کے بعد انھیں مختلف علاقوں میں بھیج دیا جاتا ہے۔
ہم سب بہت کچھ جانتے ہیں، سمجھتے ہیں، لیکن خاموش رہتے ہیں، اسے غیر اہم سمجھ کر نظرانداز کر دیتے ہیں لیکن جسے ہم نظرانداز کر دیتے ہیں، بعد میں وہی ایک بڑا فتنہ بن کر سامنے آتا ہے۔ ماضی گواہ ہے کہ ایسا پہلے بھی ہو چکا ہے۔
ہمارے رب نے بڑی وضاحت کے ساتھ آخری کتاب قرآن پاک میں سب کچھ بیان کر کے ایک مکمل اچھی زندگی گزارنے کا پیکیج ہمیں دے دیا ہے۔ کیا کسی بھی مذہب میں جھوٹ، غیبت، برائی، چوری، کرپشن، فراڈ، ناپ تول میں توازن، عورتوں کی عزت، بیوی و شوہر کے فرائض، بچوں کے حقوق کے بارے میں تفصیل ہے۔ کس مسئلے کو لیں اور کسے چھوڑ دیں۔ لیکن بے اعتقادی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ کئی بار بے اختیار ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔ آپ فیس بک پر جائیے آپ کو پیر و مرشد کے ایسے ایسے نمونے ملیں گے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔
لیکن ہم انسان ہیں کہ الجھتے چلے جاتے ہیں۔ دراصل ہم اوپر والے کی رحمت پر تو یقین رکھتے ہیں لیکن اس میں بھی شرائط عائد کر دیتے ہیں، آپ قائل کر کے دیکھ لیں کہ دراصل انسان کے بگڑے کام اوپر والا بناتا ہے تو دوسری جانب سے جواب ملتا ہے وہ تو ہے، انھیں کون نہیں مانتا لیکن وسیلہ تو بنایا جاتا ہے ناں۔ سارا زور اس وسیلے پر آ کر ختم ہو جاتا ہے۔
اب یہ وسیلہ ظاہری طور پر کیا نظر آ رہا ہے لیکن اس کا باطن کیا ہے، جیسے مسٹر ولسن کے واقعے کے بعد ہوا کہ گاؤں کے تمام بزرگوں کو اکٹھا کر کے سوچا گیا کہ ان چار سال کی نمازوں کا کیا کریں کہ جو انھوں نے ایک دوسری کتاب کے ماننے والے کی امامت میں ادا کیں۔ یہ تو مسٹر ولسن کی کوئی بھلائی تھی یا اس پاکستانی افسر کی نیکی یا اس گاؤں کے کسی نیک شخص کی دعا کہ جس نے ان تمام لوگوں پر اس بھید کو کھول کر انھیں اپنی نمازیں لوٹانے اور رب العزت سے معافی مانگنے کا موقع دیا۔ لیکن کیا ہر بار ایسا ہو سکتا ہے۔
ظاہر ہے کہ ایسا ہر بار نہیں ہوتا لیکن ہم اپنی مادی خواہشات کے چکر میں الجھتے الجھتے اس مرکز سے ہٹ جاتے ہیں اور پیروں اور عاملین کے چکر میں گھر جاتے ہیں۔تعلیم انسان کو سنوارتی ہے لیکن یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جدید اطوار اختیار کرتے کرتے ہم کیمسٹری، فزکس، کمپیوٹر اور الجبرا، جیومیٹری میں تو ماسٹر بن جاتے ہیں لیکن اس دوران اپنے آپ کو اتنا ماسٹر سمجھنے لگتے ہیں کہ خودبخود تیوریوں کے بلوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ کم علم سے بات کرنا باعث شرمندگی سمجھتے ہیں اور اس مینار پر چڑھتے چڑھتے اخلاقیات کا سبق بھول جاتے ہیں۔ اس سبق کو بھولتے ہی ہم وہ سب بھی بھول جاتے ہیں جو انسانیت، رحم دلی، مساوات اور نیکی کے پودوں کو پروان چڑھانے میں مدد کرتا ہے...کیونکہ دوسروں کی مدد کرنا عبادت ہے۔ بے ثمر درخت نہ بنیے۔ برکت راہی کا ایک شعر ہے ؎
میں اک بوڑھا شجر اور بے ثمر تھا
مجھے کل اس لیے کاٹا گیا ہے
اگر کوئی کام رکا ہوا ہے تو سوچیے کہ اپنے عزیز دوستوں سے اس کے حل کے لیے مشورہ کریں، سچے دل سے نماز قائم کریں دعا مانگیں۔ لیکن عمل کے ساتھ یہ سمجھیے کہ آیا جس کے لیے ہم کوشش کر رہے ہیں کیا ہم واقعی اس کے اہل ہیں۔ دیکھیے نتیجہ ضرور نکلتا ہے جلد یا بدیر۔ لیکن بابوں کے چکر میں نہ الجھیے کہ اس میں دقت ہے پریشانی ہے۔