کوئی درمیانی راستہ نہیں
یہاں پر میڈیا کو اس قدر زیادہ آزادی دیدی گئی جو دنیا میں کہیں اور نظر نہیں آتی۔
زیادہ تر ممالک میں پریس کو ایک حد سے زیادہ آزادی نہیں دی جاتی جب کہ بالعموم اخبار نویسوں کو ایک ایسا طبقہ قرار دیا جاتا ہے جن کے سر پر ہر وقت خطرے کی تلوار لٹکتی رہتی ہے۔ جنرل مشرف کی آزاد خیالی نے بہت سے گل بوٹے کھلا دیے اور پاکستان میں میڈیا بعض اوقات تہذیب اور تمدن کی حدود توڑنے لگا۔
یہاں پر میڈیا کو اس قدر زیادہ آزادی دیدی گئی جو دنیا میں کہیں اور نظر نہیں آتی۔ ایک طرف ہماری نوخیز جمہوریت تھی' دوسری طرف حکومت کا چوتھا ستون کہلوانے والی آزادی صحافت ۔ تاہم میڈیا کے ساتھ مشرف کا ہنی مون زیادہ دیر تک جاری نہ رہ سکا اور جن لوگوں نے میڈیا کی اس آزادی سے استفادہ کیا وہ مشرف کو بیچ منجدھار چھوڑ گئے جب ان کی اشد ضرورت تھی۔
اکیسویں صدی کے المیوں میں ایک یہ بھی تھا کہ میڈیا معروضیت کا شکار ہو گیا۔ تیسری دنیا کے زیادہ تر ممالک میں جہاں حکمرانی کے تقاضے بہت سخت ہوتے ہیں' وہاں میڈیا کی معروضیت کا فقدان قابل فہم ہے۔ لیکن 9/11 کے بعد ترقی یافتہ ممالک میں بھی بعض ایشوز پر میڈیا پر سنسر عائد ہوگیا اور اس کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی گئی۔
آمریت میں غیرجانبداری' شفافیت اور کسی تعصب کے بغیر جیسی اصلاحات استعمال تو کی جاتی ہیں لیکن ان کا مفہوم مختلف ہوتا ہے۔ وکی پیڈیا کے مطابق معروضیت مرکزی طور پر ایک فلسفیانہ نظریہ ہے جس کا تعلق حقیقت اور سچ کے ساتھ محض واجبی سا ہی ہے۔ عمومی طور پر معروضیت کا مفہوم ایسی خصوصیت ہے جو انفرادی تشریحات' احساسات اور تصورات سے ماورا بھی اپنی اصل کوالٹی کو برقرار رکھ سکے۔
قارئین اور ناظرین جو دیکھتے ہیں' پڑھتے ہیں یا سنتے ہیں انھی کی بنیاد پر ادراک کرتے ہیں اور واقعات کی تشکیل نو کرتے ہیں جب کہ ان کا باریک بینی سے جائزہ نہیں لیتے اور نہ ہی ان پر غور و تدبر کرتے ہیں۔ ٹی وی کی نشریات پر انحصار کرتے ہوئے ان کا تصور برحق بھی ہو سکتا ہے اور اس پر جھوٹ کا شائبہ بھی کیا جا سکتا ہے۔
تو کیا ان سارے متضاد تصورات کے ہوتے ہوئے ہم بااعتماد معروضیت کی توقع کر سکتے ہیں؟ تاہم خوش قسمتی کی بات ہے کہ نئے میڈیا کو سوشل میڈیا کی مدد بھی حاصل ہو گئی ہے جس سے میڈیا کی ٹیکنالوجی نئے جوابات بھی تلاش کر سکتی ہے۔ ایک آزاد تجزیاتی میڈیا غیر جانبدار مبصر کا کردار ادا کرتے ہوئے حسب ضرورت کسی کی تعریف بھی کر سکتا ہے اور جب ضرورت محسوس ہو تو تنقید بھی کر سکتا ہے۔ اسی کا نام معروضیت ہے۔
جنرل کیانی ایک غیرمعمولی چیف آف آرمی اسٹاف تھے، جنہوں نے آرمی میں کامیابی کے ساتھ اصلاحات نافذ کیں۔ ان کی توجہ تعلیم اور تربیت پر تھی۔ انھوں نے آرمی کو خالصتاً پیش ورانہ فورس بنا دیا اور اس پر مستزاد یہ کہ انھوں نے عام فوجی سپاہی کی بہتری کے لیے بہت اہم اقدامات کیے۔ میجر جنرل اور اس سے اوپر کے درجوں تک ان کی پروموشن خالصتاً میرٹ پر تھی جب کہ جنرل مشرف کی ترقی کی بنیاد یہ نہیں تھی۔
آج پاکستان آرمی ایک بہترین لڑاکا فورسکی حیثیت اختیار کر چکی ہے جب کہ تاریخ میں پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔ فوج کے تمام درجات اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ کسی قوم کی ترقی اور خوشحالی کے لیے جمہوریت سب سے بہتر نظام ہے۔ یہ درست ہے کہ کرپشن کے امکانات کو کلی طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک وقت کے انتہائی طاقتور سمجھے جانے والے جنرل کیانی کو اب ان کے چھوٹے بھائیوں کی کرپشن کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور آج ان کی شاندار پیشہ ورانہ کامیابیاں عوام کی نظروں سے اوجھل ہو چکی ہیں۔
ٹی وی چینلز پر زیادہ سے زیادہ ناظرین کی توجہ کھینچنے کے لیے جو سنسنی خیزی پھیلائی جاتی ہے اس سے سماجی اور قومی ڈھانچے کو نقصان پہنچتا ہے۔ اگر میڈیا بالغ نظری کا مظاہرہ نہیں کرتا یا اس کا ایجنڈا مخصوص مفادات پر انحصار کرتا ہے تو اس سے قومی یکجہتی پر بہت مضر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اس حوالے سے وہ صحافی یقیناً بہت خوش قسمت ہیں جو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بننے کے باوجود زندہ ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض اوقات میڈیا کا رویہ جارحانہ ہوتا ہے بالخصوص جب اس جارحیت کا ہدف اسٹیبلشمنٹ ہو بلکہ بعض حالتوں میں پورے ملک کو اس کی لپیٹ میں لینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حقائق کو مسخ کرنے کا کام میڈیا کی بالغ نظری کے منافی ہے۔ میڈیا کا اصل کام بدعنوانی کی کڑی نگرانی کرنے کا ہے نہ کہ بدعنوانی کو چھپانے کی کوشش کرنا۔ یہی وجہ ہے کہ اب عوام کو حقائق کی تلاش کے لیے ایک سے زیادہ میڈیا کے ذرایع پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان میں پہلے ہی بہت تقسیم در تقسیم نظر آتی ہے بالخصوص نسلی اور مذہبی تقسیم۔ لہٰذا ہمارے دشمنوں کے لیے یہ بہت آسان ہے کہ وہ غلط حقائق کے ذریعے حالات کو بگاڑنے کی کوشش کریں۔ ہمارے دشمن ہماری فوج کو بھی فرقہ وارانہ اور نسلی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں جب کہ بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی را مہاجروں کو مشتعل کرنے کے لیے خصوصی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہمیں دیکھنا چاہیے کہ اس قسم کی سازشوں کے پیچھے کس کا ہاتھ کارفرما ہے۔ واضح رہے جھوٹی مسکراہٹوں کے پیچھے شاطرانہ چالیں چھپی ہوتی ہیں۔
جہاں تک میڈیا کی ملک میں جاری کرپشن پر نگرانی کی ذمے داری کا تعلق ہے وہ بھی حقائق کو معروضی طریقے سے پیش کرنے سے مطابقت نہیں رکھتی۔ رابرٹ فسک کہتا ہے ''کہ صحافیوں کو سو فیصد معروضیت کا پابند نہیں کیا جا سکتا کیونکہ صحافت کا اصل کام اقتدار اور مقتدر حلقوں پر نگاہ رکھنا ہے'' ایسی صورت میں خالص معروضیت کا کوئی تصور ہی نہیں کیا جا سکتا بالخصوص جب نادیدہ طاقتیں ایڈیٹروں کو مجبور کریں کہ وہ کونسی خبروں اور نظریات کو صفحہ اول یا ادارتی صفحات پر شایع کریں اور کن خبروں اور نظریات کو نظر انداز کر دیں۔
یہ فیصلے نہ صرف ان کے سیاسی تعصب یا مفادات کو ظاہر کرتے ہیں بلکہ ان کی ملک دشمنی کے محرکات کا بھی آشکار کرتے ہیں۔ ایسے ایڈیٹر جو سختی سے ایسے اصول اور ضوابط نافذ کر دیں کہ حقائق کے منافی کوئی چیز شایع نہیں ہو گی وہ پاکستان میں زوال پذیر ہیں۔
پاکستان میں میڈیا نے معروضیت کو ترک کیا ہے اور وہ جس قسم کی نشریات جاری کرتے ہیں ان میں حقائق کا عنصر بہت کم ہوتا ہے۔ سنسنی خیزی آج کا معیار بن چکی ہے۔ زیادہ تر مفاد پرستی کا دور دورہ ہے لہٰذا اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ میڈیا میں معروضیت اور ذمے دارانہ خبروں کا احیاء کیا جائے۔ معروضیت کے زوال نے صورت حال کو سیاہ اور سفید میں تقسیم کر دیا ہے جس میں درمیانی راستے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔