خوشی کی سیڑھی

2012ء میں پہلی باربین الاقوامی سطح پر سوال اٹھایاگیاکہ کیا ریاستوں کے مکینوں کو خوشی کے اعتبارسے دیکھاجاناچاہیے


راؤ منظر حیات March 19, 2016
[email protected]

ہماراملک،خوشی کے انڈکس(Happiness Index)میں92نمبرپرہے۔پچھلے سال صورتحال قدرے بہترتھی اورہم81نمبرپر تھے۔سوال یہ ہے کہ کیاہمیں واقعی سوچناچاہیے کہ آخرہم لوگ اتنے ناخوش کیوں ہیں۔کیایہ ایک صحیح سوال ہے یااس کی کوئی اہمیت نہیں۔ہرایک کاخیال مختلف ہوسکتاہے مگراپنی ذات میں سوال ایک چابی کی حیثیت رکھتاہے جس سے کسی بھی ملک کے اندرونی حالات کو پرکھا اوردیکھاجاسکتاہے۔ہم ہرایک سے جھوٹ بول سکتے ہیں اور بولتے ہیں،مگراپنے آپ سے جھوٹ بولناانتہائی مشکل کام ہے۔تقریباًناممکن۔

2012ء میں پہلی باربین الاقوامی سطح پر سوال اٹھایاگیاکہ کیا ریاستوں کے مکینوں کو خوشی کے اعتبارسے دیکھاجاناچاہیے۔جواب تلاش کرنے کے لیے بہت محنت کی گئی۔معروضی طریقے سے کسی بھی ملک کے شہریوں کی زندگی کے متعلق پیمانے ترتیب دیے گئے۔یہ کام کسی ایک شخص یاایک ملک نے نہیں کیا۔بلکہ اقوام متحدہ میں یہ بلندترین سطح پر کیاگیااور ہرملک کے ماہرین سے معاونت حاصل کی گئی۔ کچھ دن قبل2016ء کی رپورٹ روم سے جاری کی گئی۔

اس سے قبل تین سالانہ رپورٹس شایع کی جاچکی ہیں۔دنیاکے تمام ماہرین نے اجتماعی شعورسے کام لے کرخوشی کی سیڑھی بنائی ہے۔ سیڑھی کی دس دہلیزیں ہیں۔ہردہلیزکوایک نمبردیاگیا۔یعنی سیڑھی کو صفرسے لے کردس نمبرتک ترتیب دیاگیا۔تمام ممالک میں ہزاروں لوگوں سے ایک مرکزی سوال پوچھاگیا،کہ اُس ملک کے مرداورخواتین اپنے آپکوکتناخوش محسوس کرتے ہیں۔صفر کامطلب یہ تھاکہ لوگ انتہائی مشکل اور غمگین زندگی گزاررہے ہیں۔دس کامطلب صاف ظاہر ہے کہ وہ شخص زندگی کی ہرمسرت سے سرشارہے۔دنیامیں ڈنمارک، خوش قسمت قوم اورملک ہے جہاں لوگ سب سے زیادہ مطمئن ہیں۔

آٹھ ایسے بنیادی نکات اُٹھائے گئے جن میں لوگوں کو باریک بینی سے پرکھاگیا۔پہلاسوال تھاکہ اس ملک میں آدمی کی سالانہ آمدنی کتنی ہے۔اس سے ظاہرہوتاہے کہ وہ اپنے لیے کیاکچھ خریدسکتاہے اورکیا نہیں خریدسکتا۔ہمارے جیسے ملک میں اس نوعیت کاسوال بہت تکلیف دہ ہے۔ یہاں غربت کے سمندراورامارت کے چھوٹے چھوٹے جزیرے ہیں۔ پاکستان ایسے ممالک میں شامل ہے جہاں غریب اور امیرکے درمیان خوفناک فرق ہے اوریہ بڑھتاجارہاہے۔ یہاںایسے لوگ بھی ہیں،جن کے پالتوجانوراورپرندے غیرملکی غذاکھاتے ہیں۔

اگرآپ کومیری بات پریقین نہیں تولاہور،کراچی،اسلام آباداورپشاورکے کسی مہنگے اسٹورپرچلے جائیے۔پالتوبلیوںاورکتوں کے لیے پکے ہوئے کھانے کا مطالبہ کیجیے۔انتہائی خوبصورت ڈبوں میں بند،یورپ کی تیار شدہ غذا فراہم کردی جائے گی۔اس کے ڈبے کے باہریہ بھی درج ہوگاکہ آپکے جانورکوکتنے وٹامنز (Vitamins)اورپروٹین فراہم کیے جارہے ہیں۔ہمارے ملک میں ایک طبقہ اپنے پالتوجانوروں کے لیے اربوں روپے کا شاندار کھانا خریدتا ہے۔ صاحبان!ہمارے ملک میں کئی پاکستان ہیں اورکسی کا بھی دوسرے سے کوئی تعلق نہیں۔

دوسرااہم سوال اُٹھایاگیاکہ کسی بھی ملک میں انسان کی صحت مندانہ زندگی کتنی طویل ہے۔یورپ چلے جائیے۔ آپکوسوسال کے مرداورخواتین ہرطرف نظرآئینگے۔خالص غذا اوربہترین علاج کی سہولیات نے انھیںطویل عمری کاتحفہ دیاہے۔مگرہمارے ملک میں معاملات بالکل اورطرح کے ہیں۔جن لوگوں کے پاس وسائل ہیں،وہ اسپرین کی گولی تک غیرملک کی استعمال کرتے ہیں۔تمام دوائیاں یورپ یا امریکا سے آتی ہیں۔پاکستانی دوائی کے نزدیک تک نہیں جاتے۔

ان کے نزدیک مقامی فیکٹریوں میں تیارکردہ دوائیاں انتہائی ابتردرجہ کی ہیں۔قیاس بالکل درست ہے۔مگراس ملک کی نناوے فیصدآبادی،یہاں کی مقامی دوائیاں استعمال کرنے پرمجبورہے۔نتیجہ یہ نکل رہاہے ہمارے ایک مخصوص طبقہ کی عمربڑھ چکی ہے۔ان کی طبعی زندگی قدرتی طورپرطویل ہوچکی ہے۔خیرمرناتوانھوں نے بھی ہے۔جلدیابدیر،باری تو ان کی بھی آنی ہے۔عام آدمی کی صحت کے متعلق آپ اگر ہیپاٹائٹس سی کوایک پیمانہ بنالیںتواندازہ ہوجائیگاکہ کروڑوں لوگ اس ہولناک بیماری کاشکارہیں اوران کی زندگی انتہائی کم ہوچکی ہے۔صحت مندزندگی کے متعلق بھی ہمارے اندر طبقاتی معاملات شدت سے موجودہیں۔

تیسراسوال تھاکہ مشکل یامصیبت کے وقت کیاآپکے اردگردکسی بھی طرح کی سپورٹ موجودہے یا نہیں۔اس سوال کومزیدآسان بنایاجاسکتاہے۔کہ کیاآپ کے قریب کوئی ایسانظام موجودہے جوآپکی مشکل کواپنی مشکل سمجھ لے۔آپکی مددکرے اورآپکواس مصیبت میں سے نکال لے۔جواب آپ خودتلاش کیجیے۔تیس چالیس پہلے اورآج کے جواب میں فرق نظرآئیگا۔خاندانی قدریں جس شدت بلکہ حدت کے ساتھ تغیرپذیرہیں،وہ بذات خودایک سوال ہے۔

کبھی کبھی ایسے معلوم ہوتاہے کہ ہرانسان اکیلے پن کی طرف جارہاہے۔ درجنوں لوگوں کوجانتاہوں،جنہوں نے اپنے سماجی فرائض انتہائی ایمانداری سے پورے کیے۔اپنی زندگی کے درمیانی اور آخری زینہ میں مکمل طورپرتنہارہ گئے۔سماجی روایات کوٹوٹتے پھوٹتے دیکھنے کاعمل میری عمرکے ہرانسان نے پیہم دیکھاہے اورشائددیکھ رہاہے۔تمناہے کہ آپ اس بدقسمت اکیلے پن کاشکانہ ہوں جوکروڑوں لوگوں کواپنی قید میں لے چکاہے۔مگراس سے مفرنہیں ہے۔کسی کوبھی نہیں۔

اگلاسوال یہ تھاکہ زندگی میں کیاآپ وہ کرپائے، جو واقعی کرنا چاہتے تھے۔یہ ایک انتہائی مشکل سوال ہے۔ مگر بہت آسان بھی ہے۔کیاآپ نے زندگی میں وہ کچھ کیا، جو آپکے اندرکی آوازہے۔اردگرددیکھیے۔آپکوحیران کن حقائق نظرآئینگے۔ہمارے نظام میں تعلیم دراصل نوکری حاصل کرنے کاایک ذریعہ ہے۔یاشائدروزگارحاصل کرنے کا۔ یہ ایساگھمبیرالمیہ ہے جوتقریباًہرانسان سے اس کی بنیادی مسرت چھیننے کی اہلیت رکھتاہے۔پہلی بات تویہ کہ نظام میں اپنی زندگی کے بنیادی فیصلے کرنے کااختیاربہت کم ہے۔

تعلیم کورہنے دیجیے۔اکثروالدین کی خواہش ہوتی ہے کہ انکابچہ یا بچی ڈاکٹر یا انجینئربنے۔مگربچوں سے انکافطری رجحان پوچھنے کارویہ ناہونے کے برابرہے۔ہمارے ملک میں خواتین زندگی کے بنیادی فیصلے کرنے کی جسارت نہیں رکھتیں۔ان کی اکثریت، پوری زندگی اپنے اردگردکے قریب لوگوں کوناراض نہ کرنے کی جستجومیں گرزتی ہے۔کہاں شادی کرنی ہے۔یہ فیصلہ بھی کرنے کااختیاران کے پاس موجودنہیں ہے۔اس کے علاوہ عملی طورپرخواتین کوان کی زندگی میں اپنی خوشی کے مطابق فیصلہ کرنے کااختیارکم سے کم ہے۔آپ حقوق نسواںکے قانون کواس تناظرمیں دیکھیے۔آپکوپتہ چل جائیگا کہ ان کے حقوق کوختم کرنے کے لیے دین کوایک ہتھیارکے طور پراستعمال کیاجارہاہے۔

پانچواں سوال یہ تھاکہ آپ میں سے ہرایک اپنی جائز آمدنی میں سے خیرات کتنی کرتاہے۔سوال بہت پیچیدہ ہے۔ جائزآمدنی کالفظ بہت غورطلب ہے۔مطلب یہ ہواکہ اگر آپ ناجائزذرایع سے امیرہوئے ہیں اور بہت زیادہ خیرات کررہے ہیں۔غریبوں کی مددکررہے ہیں تودراصل وہ اپنی ہیت میں ہرگزہرگز سوال کے زمرہ میں نہیں آتی۔ اگر ایک شخص حلال طریقے سے مہینہ میں دس ہزارروپے کماتاہے اوراس میں سے"سوروپے"کسی کی مددکے لیے صَرف کر دیتا ہے۔

تو اس "سوروپے"کی اہمیت ان کروڑوں روپوں سے زیادہ ہے، جو کسی نے لوٹ مارسے حاصل کیے ہیں اور پھراس میں عام لوگوں کے لیے خرچ کررہاہے۔اس سوال کا جواب ہرایک کے پاس اپناہے۔دراصل اس سوال میں ایک ایسانکتہ پوشیدہ ہے جوبراہِ راست آپکی اندرونی نیکی سے منسلک ہے۔ایک رکشہ ڈرائیوراگردن میں صرف چار سو روپے کماتاہے مگررات کوگھرجاتے ہوئے کسی معذور کو بغیر کرایہ لیے اس کی منزل پرپہنچادیتاہے،تواسکا یہ جذبہ انتہائی قابل قدرہے۔مجھے یہ لکھتے ہوئے خوشی ہورہی ہے کہ ہمارے ملک میں متوسط طبقہ اس نیک کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہاہے۔ناجائزذرایع سے مددکرنے والے اس فہرست میں شامل نہیں۔

اگلاسوال حکومتی اورنجی شعبہ میں کرپشن کے متعلق ہے۔کیالوگوں کویقین ہے کہ وہ جائزکام، کسی بھی سطح پر، بغیر مٹھی گرم کیے ہوئے کرواسکتے ہیں یا نہیں۔آپکاکیاخیال ہے کہ اس میں ہم کہاں کھڑے ہوئے ہیں۔کرپشن وہ اژدہا ہے جس نے ہمارے معاشرے کے ہرحصہ پردانت گاڑے ہوئے ہیں۔

کوئی بھی شعبہ مستثنیٰ نہیں۔کوئی بھی آدمی، پٹواری،تھانیدار،ایکسائزانسپکٹراوراس سطح کے سرکاری عمال سے بغیررشوت کے کام نہیں کراسکتا۔اوپرسے نیچے تک ایک جیساحال ہے۔کرپشن کوروکنے کے لیے ہمارے پاس کوئی موثرحکمتِ عملی موجودنہیں ہے۔جب یہ کام فوج یااس کے ذیلی ادارے کرتے ہیں،توہرشخص گھبراجاتاہے۔اس حمام میں سب لوگ بغیرکپڑوں کے موج کررہے ہیں۔اگرکوئی خوش قسمتی سے ایماندارہے،تواس کی زندگی بربادکردی جاتی ہے۔ اس نظام میں ذہنی اورمالی طورپرکرپٹ پھل پھول رہا ہے۔ ایمانداراورسفیدپوش لوگ تقریباًروپوش ہوچکے ہیں۔

آخری دوسوالات،ان مثبت اورمنفی جذبات کے متعلق ہیں جوہرشخص پرمندرجہ بالاعناصرکی بدولت اثراندازہوتے ہیں۔کتنی باردل سے ہنستاہے،مسکراتاہے،غصہ میں رہتا ہے یاذہنی دباؤکاشکارہے۔عجیب بات ہے کہ کئی لوگ بڑے طویل عرصے سے دل سے خوش ہوکرمسکرائے نہیں۔ قہقہے نہیں لگاتے۔یہاں توبے جان سی جعلی مسکراہٹ ہے اورسطحی قسم کی خوشی کے اظہارہیں۔

ہرشخص ایک عجیب سے تناؤکے شکنجہ میں ہے۔منفی رجحان اور جذبے، خاردار جھاڑیوں کی طرح انفرادی اوراجتماعی طورپرپنپ رہے ہیں۔اب توخیریہ ایک جنگل بن چکاہے۔بہت گھنا۔ تاریک جنگل۔ہرشخص کو سوال اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے کہ صفرسے لے کردس تک کی دہلیزپروہ خودکہاں کھڑا ہوا ہے۔ہرایک کاجواب مختلف ہوگا۔ہمارے جیسے ملک میں خوشی کی سیڑھی میں ہرزینہ تکلیف اورجبرکاہروہ راستہ ہے،جسکوعبورکرنابہت مشکل ہوچکاہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں