جو چاہیں سو آپ کرے ہیں
مشرف صاحب دل کے ٹکڑے کرکے چل دیے۔ جاتے جاتے یہ تو بتاتے ہم جئیں تو کس کے لیے
ISLAMABAD:
مشرف صاحب دل کے ٹکڑے کرکے چل دیے۔ جاتے جاتے یہ تو بتاتے ہم جئیں تو کس کے لیے۔ جب چاہا دل توڑ دیا اور جب چاہا تو قانون توڑ دیا۔ آپ کی داستان بھی عجب ہے۔ آپ نے متحدہ کو وہ پروان چڑھایا جتنا ضیا الحق نے ایک مذہبی و سیاسی جماعت و ہم نواؤں کو پروان چڑھایا۔ کمال کیا جنرل ضیا الحق کی آغوش میں پھلنے پھولنے والوں نے اور جمال کیا جن کے پیچھے آج کل کمال صاحب لگے ہوئے ہیں۔
خیر صاحب کتنے سادہ تھے کہ وطن آگئے۔ وہ سمجھے کہ وہ بہت مقبول ہیں۔ ادھر چوہدری صاحب چیف جسٹس تھے، جو ان کے ڈسے ہوئے تھے اور میاں صاحب تھے جو اپنی گرفت اقتدار پر مضبوط کرچلے تھے۔ آپ کوئی ایرے غیرے نتھو تھوڑی تھے۔ میاں صاحب نے ان کی آڑ لے کے بہت بڑا پیغام دینے کی کوشش کی کہ اب کی بار جو بھی ایسی حرکت کرے گا اس کا انجام وہی ہوگا جو جنرل مشرف کا ہوگا۔ جس طرح ایوب کے ساتھ جنرل یحییٰ نے کیا یا جس طرح اسلم بیگ دوسرے جہاز میں تھے۔ تو مشرف صاحب اور کیانی صاحب میں جو کھنچاؤ تھا وہ تب عیاں ہوا، جب مشرف صاحب نے حال ہی میں کسی جگہ بالآخر کہہ دیا کہ کیانی صاحب کی سست رفتاری نے طالبان میں اور جان ڈالی اور جنرل راحیل آج جو دنیا میں مقبول ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ ایکشن میں رہتے ہیں۔
یہ آپ مشرف صاحب ہی تھے جن کے بارے میں بے نظیر نے کہا ہے کہ جب صاحب میجر جنرل تھے آپ بریفنگ میں یہ کہہ بیٹھے کہ ہم کو سری نگر پر حملہ کردینا چاہیے۔ اور یہ تو میں نے اپنے کانوں سے کسی پریس کانفرنس میں سنا تھا کہ مشرف نے کہا کہ کور کمانڈر سب تیار تھے مگر جنرل جہانگیر کرامت نے جرأت نہ کی۔
آپ کے ایڈونچروں کی ایک داستان ہے، وہ کارگل کا ایڈونچر ہو یا 12 اکتوبر کا یا 3 نومبر کا۔ بالآخر کیا کرتے کمانڈو جو تھے۔
لیکن میاں صاحب بھی کتنے سادہ تھے۔ جنرل مشرف پر مثال قائم کرنے چلے تھے ۔ عدالتیں حرکت میں آگئیں تو ادارے بھی حرکت میں آگئے۔ بات اتنی دور تک چلی گئی کہ ڈی چوک پر محاصرہ جاری رہا۔ مرد و زن ایک ساتھ، ساتھ میں تھے طاہرالقادری، ادھر تھے عمران خان جمع ڈی جے میوزک کے ساتھ۔ مانیں نہ مانیں میاں، آصف زرداری نے ساتھ نبھایا جس کی ایک لحاظ سے سزا وہ ابھی تک بھگت رہے ہیں۔ کاش کہ ذوالفقار علی بھٹو شیخ مجیب کے ساتھ اس وقت کھڑے ہوجاتے نہ کہ جنرل یحییٰ کے ساتھ تو آج پاکستان ایک مثالی پاکستان ہوتا۔ سیکولر پاکستان۔ جناح کے خوابوں والا پاکستان۔ میں یہاں یہ بات بھی کہتا چلوں کہ یقیناً حقیقتیں اتنی سادہ بھی نہیں جس طرح میں نے اپنی سیاہی سے اوپر بیان کی ہیں۔
واپس آتے ہیں اس بات پر، مسلم لیگ ن کی جمہوریت کی گراریاں بیٹھ گئیں، لینے کے دینے پڑ گئے۔ میں اس جگہ قانون و آئین کو اس کے فلسفے میں بیٹھ کر پاکستان کے آئین اور سیاست و شب خوں کسی تاریخ میں بیٹھ کر یہ چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ مسلم لیگ ن کے حکمرانوں آپ اتنا آگے تک نہ جائیے کہ ان کے پاس اتنا بڑا مینڈیٹ نہیں ہے۔ مگر وہ پچھلی بار چوٹ کھانے کے بعد بھی جمہوریت کے نشے میں چور تھے۔
بالآخر ہوش سنبھالا۔ کہاں بیٹھتا تھا جنرل ٹکا خان ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ برابری کرکے۔ تب تھا یہ زمانہ خود بے نظیر کے وقت تک اور اب تو یہ حال ہے کہ میاں صاحب جیپ میں بیٹھتے ہیں تو اس کی کمان جنرل راحیل کے پاس ہوتی ہے۔
جنرل راحیل نے فوج کی عزت میں اضافہ کیا۔ جمہوریت ادارے دیتی ہے لیکن وقت کے ساتھ۔
کل کا فیصلہ جس سے جنرل مشرف کے باہر جانے کا کسی اصول پر نہیں بلکہ پالیسی پر فیصلہ تھا۔ بظاہر تو یہ لگتا ہے کہ جیسے جنرل مشرف آئین و قانون سے بڑے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہی کہا گیا کہ ''آگے بڑھو'' لیکن آج حکمرانوں کی غلطی کی وجہ سے سول و ملٹری توازن اور اس طرف چلا گیا۔
اس میں قصور اس طرف کا نہیں بلکہ ہمارے سول اقتداری دھڑے کی نالائقیاں ہیں۔ اچھی حکمرانی کی نیلامیاں ہیں۔ اقربا پروری کی انتہا ہے اور خاص کرکے سندھ میں جس طرح سے زرداری صاحب نے حکومت چلائی ہے اس کے بارے میں اب تو نثار مورائی بتائیں گے۔ جمالی صاحب نے پولیس کے ادارے کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا۔ فریال ٹالپر نے اپنے ذاتی ملازم کو وزیر داخلہ لگا دیا۔ سندھ کا محکمہ تعلیم ہو یا کون سا ادارہ ہے جہاں کالی بھیڑوں کا راج نہیں اور یہ سب جمہوریت کے نام پر ہو رہا ہے۔ اور اب لوگ بھول گئے ارباب رحیم اور قائم علی شاہ میں فرق محسوس کرنا۔ اور اس بار قضاآئے گی تو ہمیشہ کی طرح کوئی بھی راستے پر آکے ان کے لیے نعرے نہیں لگائے گا۔
اور جب اس طرح ہے تو کورٹ کیسے ان کے ساتھ ہوگی اور کب ماضی میں ان کے ساتھ تھی، اس لمحے جب قضا آتی ہے ۔ اس لیے مٹی پاؤ۔ مشرف کو جانے دو اور آگے بڑھو۔ نہ جمہوریت کے نام پر اقربا پروری ہونے دیں گے نہ ہی پاکستانی کے نام پر جمہوریت کے خلاف کچھ ہونے دیں گے۔