محمد علی فلمی صنعت کا جگمگاتا ماہتاب

اﷲ نے انھیں پرکشش شخصیت مردانہ وجاہت اور خوبصورت آواز سے نوازا تھا۔


م ش خ March 19, 2016

اداکار محمد علی کا تذکرہ کس طرح اپنے ناتواں قلم سے کروں، وہ تو شائقین فلم کے دل کے نہاں خانوں میں بسے ہوئے ہیں۔ محمد علی مرحوم کی سحر انگیز شخصیت تو سراپا محبت تھی۔ علی بین الاقوامی شہرت کے حامل فنکار تھے جبھی تو فن کے ایوانوں کے شہزادے کہلائے۔ انھیں رب نے جو عزت و تکریم دی وہ بہت کم خوش نصیبوں کو ملتی ہے۔

ان کا تعلق متوسط گھرانے سے تھا۔ اﷲ نے انھیں پرکشش شخصیت مردانہ وجاہت اور خوبصورت آواز سے نوازا تھا۔ ان کی فلم ''سلاخیں'' دیکھنے کے بعد بھارت کے عظیم ہیرو دلیپ کمار نے کہا تھا کہ علی اگر بھارت میں ہوتے تو میرے سب سے بڑے حریف ہوتے۔ یہ بات اخبارات کے ریکارڈ پر ہے، جب وہ بھارت گئے تو وزیراعظم آنجہانی اندرا گاندھی نے ان کے اعزاز میں وزیراعظم ہاؤس میں عشائیہ دیا۔ یہ مرتبہ تو ہمارے سیاستدانوں کو بھی اس زمانے میں نہ ملا۔ فلم ''جانے انجانے'' کے لیے بنگلہ دیش گئے تو صدر بنگلہ دیش نے ایوان صدر میں انھیں ظہرانہ دیا اور انھیں صدارتی اعزاز دیا گیا۔

محمد علی بھارت کے شہر رام پور سے ہجرت کرکے سندھ کے شہر حیدرآباد آئے تھے۔ راقم کی ان سے بہت یاد اللہ تھی۔ آج کی نوجوان نسل کے لیے ان سے ملاقاتوں کا تذکرہ کیے دیتا ہوں۔ انھوں نے ایک تفصیلی ملاقات میں اپنی زندگی کے کئی پہلوؤں پر روشنی ڈالی تھی۔ ان کا قیام حیدرآباد کے علاقے ٹھنڈی سڑک پر سندھ یونیورسٹی کے موجودہ اولڈ کمپلیکس کے برابر والی دوسری گلی کے مکان میں تھا۔ ہجرت کے وقت محمد علی مرحوم کے والد سید مرشد علی مرحوم، ان کی نانی اماں، بھائی ارشاد علی مرحوم، اور دو بہنیں عصمت آپا اور رضیہ آپا تھیں۔

جب وہ تین سال کے تھے تو والدہ کا سایہ سر سے اٹھ گیا تھا، ان کی پرورش عصمت آپا نے کی۔ 1949 میں یہ اپنے والد کے ہمراہ ملتان چلے گئے اور ساتویں جماعت میں داخلہ لیا۔ 1955 میں انھوں نے گورنمنٹ کالج ایمرسن ملتان سے ایف اے کیا، پھر حیدرآباد آگئے اور کلیم آفس حیدرآباد میں بحیثیت کلرک 87 روپے ماہانہ پر ملازمت کرلی۔ کچھ عرصے کے بعد استعفیٰ دے کر بحیثیت آرٹسٹ حیدرآباد ریڈیو جوائن کرلیا۔ ان کے دو ڈرامے حیدرآباد ریڈیو سے ''آخری چٹان'' اور ''اندھیرا اجالا'' بہت مقبول ہوئے۔ ریڈیو پاکستان کراچی کے سینئر پروڈیوسر ایس ایم سلیم مرحوم نے انھیں کراچی جوائن کرنے کے لیے کہا۔ یہاں ان کے دو ڈرامے ''آوازیں'' اور ''دھڑکن'' بہت مقبول ہوئے۔

انھوں نے بتایا تھا کہ کراچی میکلوڈ روڈ کی ایک بلڈنگ میں میرے سگے چچا سید شرافت علی رہا کرتے تھے، میں نے ان کے ہاں رہائش اختیار کرلی۔ میں چچا کے گھر سے ریڈیو پاکستان پیدل جایا کرتا تھا۔ میری بھابی (بھائی ارشاد مرحوم کی بیوی ممتاز) کے کزن کے گھر کے سامنے قائداعظم محمد علی جناح کے ڈرائیور اداکار آزاد مرحوم ناظم آباد نمبر4 میں رہا کرتے تھے، میں ان کی چچا کی طرح عزت کرتا تھا۔ ان کی دوستی مصنف سلیم احمد سے بہت تھی۔ وہ اس زمانے میں فلم ''آگ اور خون'' لکھ رہے تھے۔ میں اس میں مہمان اداکار تھا۔ یہ میری پہلی فلم تھی جو ریلیز نہ ہوسکی، جس کا مجھے بہت دکھ تھا۔ زیڈ اے بخاری ریڈیو پاکستان سے وابستہ تھے، انھوں نے میری ملاقات فلم ساز فضل احمد کریم فضلی سے کرائی۔

انھوں نے مجھے اپنی فلم ''چراغ جلتا رہا'' میں متعارف کرایا۔ اس فلم کا افتتاح نشاط سینما میں محترمہ فاطمہ جناح نے کیا۔ یہ فلم 9 مارچ 1962 کو ریلیز ہوکر سپرہٹ ہوئی۔ اس فلم میں، میں نے ولن کا کردار ادا کیا تھا۔ بحیثیت ہیرو کے میری پہلی فلم ''شرارت'' تھی۔ ایک واقعہ سناتے ہوئے علی بھائی نے بتایا تھا کہ جب ندیم کی مزاحیہ فلم ''اناڑی'' سپرہٹ ہوئی تو ہر فلم ساز ان کو مزاحیہ فلم میں کاسٹ کرنا چاہتا تھا، میں شباب صاحب کی عزت بڑے بھائیوں کی طرح کرتا تھا، انھوں نے ایک فلم کا اسکرپٹ دیتے ہوئے کہا اسے پڑھو۔ وہ مزاحیہ کردار تھا۔

میں نے معذرت کرلی۔ اس زمانے میں اچھی فلم 12 لاکھ میں بنتی تھی، میں نے کہا یہ کردار کسی اور سے کروالیں۔ شباب کیرانوی مرحوم بڑے ہدایت کار اور مصنف تھے، ناراض ہوگئے اور کہا کہ اس فلم میں تم ہی کام کرو گے۔ یوں مجھے دل پر پتھر رکھ کر اس فلم میں کام کرنا پڑا اور یوں فلم ''آئینہ اور صورت'' ریلیز ہوئی اور پاکستان میں سپرہٹ ہوئی۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کچھ واقعات پر روشنی ڈالی۔ کہنے لگے فلم ''رواج'' سے شمع سینما کراچی کا افتتاح ہوا۔ شیریں سینما کراچی کا افتتاح میری فلم ''صنم'' سے ہوا۔ فلم ''صاعقہ'' میری وہ فلم تھی جو کیپری سینما میں ریلیز ہونے والی پہلی اردو فلم تھی جب کہ کیپری میں صرف انگریزی فلمیں ریلیز ہوتی تھیں۔

محمد علی محب وطن پاکستانی فنکار تھے اپنی پسندیدہ فلم کے حوالے سے بتایا تھا کہ 1965 کی جنگ کے حوالے سے بننے والی فلم ''مادر وطن'' مجھے بہت پسند تھی اور میں گلوکارہ نسیم بیگم کی دل سے عزت کرتا ہوں کہ ان کے گیت ''اے راہ حق کے شہیدوں، وفا کی تصویروں'' نے ہمارے دل ایمان سے بھر دیے تھے۔ محمد علی مرحوم کے کچھ واقعات پر روشنی ڈالتے ہوئے اداکارہ زینت بیگم مرحومہ نے بتایا تھا کہ مجھے پیسوں کی اشد ضرورت تھی، میں نے علی بھائی سے کہا کہ میں ایک فلم بنانا چاہتی ہوں، آپ میری مدد کریں۔ انھوں نے بلامعاوضہ میری فلم ''بن بادل برسات'' میں کام کیا۔

یہ اپنے وقت کی سپرہٹ فلم تھی۔ ہدایت کار ایم اے رشید مرحوم (ٹرپل ایم اے) کو ہم انکل کہتے تھے۔ انھوں نے ایک واقعہ سنایا کہ جب میں نے فلم ''تم سلامت رہو'' کا آغاز کیا تو کافی عرصے کے بعد محمد علی مرحوم اور وحید مراد مرحوم کو سائن کیا۔ میں نے رانی مرحومہ کو کاسٹ کیا، مگر وہ تب مصروف آرٹسٹ تھیں۔ اداکارہ آسیہ نے محمد علی سے درخواست کی کہ رانی بہت مصروف ہیں، آپ میری سفارش ایم اے رشید سے کردیں کہ وہ مجھے کاسٹ کرلیں۔ میں اسی شام ایورنیو اسٹوڈیو میں علی بھائی سے ملا اور کہا کہ رانی بہت مصروف ہیں، میں ان کی جگہ زیبا بھابی کو لے رہا ہوں، آپ انھیں بتادیں۔

علی بھائی نفیس انسان تھے، ہنستے ہوئے بولے کہ میری گزارش ہے رشید صاحب! آپ آسیہ کو کاسٹ کرلیں۔ آسیہ میری سمجھ میں نہیں آرہی تھیں کہانی کے حوالے سے، مگر ان کی درخواست پر آسیہ کو کاسٹ کرلیا۔ فلم ریلیز ہوئی اور سپرہٹ ہوئی۔ اداکار آزاد مرحوم ناظم آباد نمبر 4 میں رہتے تھے۔ ان کے پڑوسی سہیل احمد مرحوم نے راقم کو بتایا تھا کہ 1966 کی بات ہے۔ فلم ''تم ملے پیار ملا'' کی شوٹنگ کے حوالے سے محمد علی اور زیبا کراچی آئے تو ان کا نکاح آزاد مرحوم کے گھر پر ہوا۔

نکاح قاضی سید احتشام مرحوم نے پڑھایا۔ مہر کی رقم 37,500 مقرر ہوئی۔ محمد علی کی اصلاحی فلموں میں جو سپرہٹ تھیں ان میں ''انسان اور آدمی، انصاف اور قانون، گھرانہ، خاموش رہو، صاعقہ، اک گناہ اور سہی، ان داتا، آدمی، انتخاب، دوریاں، دشمن، حیدر علی، وحشی، ان داتا، صورت اور سیرت، سنگھرام، پھول میرے گلشن کا، سلاخیں'' قابل ذکر ہیں۔

فلم ''آسرا'' واحد فلم تھی جس میں ہیرو محمد علی پر کوئی گانا فلم بند نہیں ہوا۔ محمد علی اور زیبا کی آخری فلم ''محبت ہو تو ایسی ہو'' تھی۔ ''خاموش رہو'' پہلی سپرہٹ فلم، ہیڈ کانسٹیبل علی زیب کی پہلی فلم، شیر دی بچی بطور ہیرو پہلی پنجابی فلم، کنیز پہلی گولڈن جوبلی فلم، جان پہچان پہلی رنگین فلم۔ محمد علی اور زیبا نے 40 سال محبت بھرا پرخلوص دور گزارا۔ مختلف القابات پانے والے علی بھیا، بھورے میاں، اچھے میاں، منا، سب کو اداس کرکے 19 مارچ 2006 کو صبح 11 بجے 74 سال 11 ماہ کی عمر میں بروز اتوار کو اپنے رب کی طرف لوٹ گئے۔ ''دو ہنسوں کا جوڑا بچھڑ گیا'' ایک سنہری باب ختم ہوگیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں