شفقت امانت علی خان صاحب کن کن غلطیوں کی معافی مانگیں گے

جس جذبے کے ساتھ شفقت امانت علی نے قومی ترانہ پیش کیا اس سے کئی گنا بہتر ہمارے وطن کا کوئی بھی بچہ پڑھ سکتا تھا۔


میرشاہد حسین March 21, 2016
یہ شاید آپ کے لیے معمولی بات ہوگی لیکن یاد رکھیں جو قومیں اپنا قومی ترانہ بھول جائیں انہیں عوام تو شاید معاف بھی کردے لیکن تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔

ورلڈ کپ میں مسلسل ناکامیوں کے بعد ہفتہ 19 مارچ کو قومی ٹیم کے پاس ایک اور موقع تھا کہ وہ بھارت کو شکست سے دوچار کرنے کے بعد یہ داغ دھو ڈالیں کہ پاکستان کبھی میگا ایونٹ میں روائتی حریف کو شکست سے دوچار نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ تھی کہ یہ میچ محض میچ نہیں رہا تھا بلکہ اِس میچ نے جنگ کا رتبہ حاصل کرلیا تھا، جسے کرکٹ کے میدان میں کھیلا جانا تھا۔ دونوں ہی طرف عوام کے جذبات عروج پر تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کھیل جذبات سے نہیں بلکہ اپنی صلاحیتوں سے جیتے جاتے ہیں لیکن جذبات کی اہمیت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

1965ء کی جنگ ہم نے اسی جذبہ کے تحت جیتی جب ہمارے پاس جنگ کے لیے سامان بھی ناکافی تھا۔ پی ٹی وی پر جس طرح عین موقع پر ملی نغمے لکھے، پڑھے اور گائے گئے وہ آج بھی عوام کے جذبات کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔

کھیل کے میدان میں اسی جذبہ کو مہمیز دینے کے لیے قومی ترانہ پڑھا جاتا ہے۔ اس ورلڈکپ کے لیے پاکستان کی طرف سے شفقت امانت علی کو یہ اعزاز سونپا گیا اور دوسری طرف بھارت نے امیتھابھ بچن کو یہ اعزاز دیا کہ وہ میدان میں آئیں اور قومی ترانہ پڑھیں۔

اگر آپ نے یہ تقریب دیکھی اور سنی ہو تو یقیناً آپ نے بھی یہ بات محسوس کی ہوگی کہ کھیل شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوچکا تھا۔ جس جذبہ اور انداز میں پاکستان کا قومی ترانہ شفقت امانت علی نے پیش کیا شاید اس سے کئی گنا بہتر ہمارے وطن کا کوئی بھی بچہ بہت بہتر انداز میں پڑھ سکتا تھا۔ جذبہ اگر دل میں ہو تو چہرے پر بھی صاف دکھائی دیتا ہے لیکن بدقسمتی سے ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ انہوں نے جس بھونڈے انداز میں قومی ترانہ پڑھا، پھر اس میں بھی الفاظ کی ادائیگی اس طرح سے کی جیسے کسی اور ملک کا قومی ترانہ پڑھنے کے لیے بلا لیا گیا ہو۔

https://twitter.com/iauqibsalam/status/711827489543196672

دوسری طرف امیتابھ بچن کا جذبہ دیکھیں جنہوں نے قومی ترانہ پڑھنے کے لیے کلکتہ سے یہاں آنے تک کا سفری خرچ و رہائش 30 لاکھ روپیہ نہ صرف خود برداشت کیا بلکہ کہا یہ جارہا ہے کہ انہوں نے 4 کروڑ روپیہ بھی قومی ترانہ پڑھنے کے اعزاز کے طور پر ادا کیا۔ پھر ان کے پڑھنے کا انداز دیکھیں کہ الفاظ زبان سے نہیں بلکہ دل سے ادا ہو رہے تھے۔

https://twitter.com/AyishaBaloch/status/711823051789377536

اِس تقریب کے بعد جذبہ تو ہار چکا تھا پھر میچ ہارنے کا کیا غم کریں۔ شفقت امانت علی نے سوشل میڈیا پر اس بات پر معذرت بھی کرلی لیکن مجھے یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ معذرت کس کس بات پر قبول کی جائے؟ یہ تو ایسا ہی ہوا کہ جیسے کوئی اپنی ماں کا نام بھی بھول جائے۔ جس قومی ترانے کو پڑھتے اور سنتے ہوئے ہم جوان ہوئے، جو اسکول کی اسمبلیوں میں روز پڑھا جاتا رہا، اسے ہی ہم بھول گئے۔ ویسے اُن کی معذرت کس قدر بھونڈی ہے، آئیے آپ بھی دیکھیے۔



لیکن کیا کریں جب وطن کی عزت پر پیسہ حاوی آجائے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ کتنے بے ضمیر پاکستانی ہیں جنہوں نے ملک کی شہریت پر دوسرے ملکوں کی شہریت کو ترجیح دے رکھی ہے۔ کتنے بے ضمیر ایسے ہیں جو بھارت جا کر اپنی ماں کی محبت اور پیار کو بھول جاتے ہیں اور انہیں وہاں کی محبت اپنی ماں سے بھی زیادہ محسوس ہونے لگتی ہے۔ کتنے بے ضمیر ہیں جنہوں نے بھارت سے مدد کے لیے پکار کر اپنی ماں کی عزت بیچی ہے۔ ہمارے فنکار روز بھارت جانے کے لیے مرے جارہے ہیں۔ بھارت کی ثقافت اور کلچر ہمارے قوم کے جذبہ کو سرد کرچکا ہے لیکن میں ابھی بھی اپنی قوم سے مایوس نہیں کہ یہاں آج بھی جنید جمشید جیسے لوگ موجود ہیں کہ جن کے دل سے دل دل پاکستان نکلتا ہے۔ کیا ہوا جو ایم ایم عالم جیسے لوگ اس دنیا سے رخصت ہوگئے جنہوں نے بنگالی ہونے کے باوجود پاکستان میں رہنا پسند کیا۔ کیا ہوا جو مہندی حسن جیسے لوگ اس دنیا سے رخصت ہوگئے جنہوں نے باوجود بھارت کی مالی پیشکش کے باوجود اپنی ماں پاکستان کی گود میں مرنا پسند کیا لیکن علاج کے لیے بھارت نہیں گئے۔

یہ شاید آپ کے لیے معمولی بات ہوگی لیکن یاد رکھیں جو قومیں اپنا قومی ترانہ بھول جائیں انہیں عوام تو شاید معاف بھی کردے لیکن تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔

شفقت صاحب صرف آپ کے لیے ایک بار پھر ترانہ پیش کررہا ہوں، تاکہ اگلی بار جب کوئی بے وقوف آپ کو یہ موقع دے تو آپ اُس وقت قوم کو مایوس نہیں کریں گے۔

پاک سر زمین شاد باد
کشور حسین شاد باد
تو نشانِ عزم عالی شان
ارض پاکستان
مرکز یقین شاد باد

پاک سر زمین کا نظام
قوتِ اخوتِ عوام
قوم، ملک، سلطنت
پائندہ، تابندہ باد
شاد باد منزل مراد

پرچم ستارہ و ہلال
رہبر ترقی و کمال
ترجمان ماضی، شان حال
جان استقبال
سایہ خدائے ذوالجلال



[poll id="1026"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں