عورت دنیا کے دوزخ میں
یہ ایسی تلخ حقیقت ہے کہ آج بھی اس معاشرے میں لڑکیوں کی پیدائش کو برا سمجھا جاتا ہے
سب کہتے ہیں کہ جب میں دنیا میں آئی / ماں بہت روئی تھی/ پھر قسمت کی جلی لڑکی پیدا کی ہے نوازکی گھر والی نے/انھیں آوازوں کو سن سن کر روتے روتے/ ان گنت بوسے میرے گالوں کے/ لے کے کہا تھا ماں نے/تو کیوں آگئی پگلی کیا ہوجاتا اگر بھیج دیتی/ بھیا کو اپنے جس کا/ بڑا انتظار تھا اس ظالم دنیا کو/ یہ سن کر میں بلک بلک کر روئی/ تب سینے سے لگاکر بولی وہ/ میں تو تیرے ہی بھلے کو کہتی تھی/وہی رہتی جنت میں/کیوں آگئی جلنے کو اس دنیا کے دوزخ میں۔
یہ ایسی تلخ حقیقت ہے کہ آج بھی اس معاشرے میں لڑکیوں کی پیدائش کو برا سمجھا جاتا ہے، لڑکے کی پیدائش پر جو چہرے کی خوشی کے مارے حالت ہوتی ہے وہ خوشی لڑکی کی پیدائش پر عنقا ہوجاتی ہے۔ عورت معاشرے کی وہ اکائی ہے جس کے بغیر گزارا بھی نہیں مگر اس کی حالت انتہائی مخدوش بھی کردی ہے، کہیں کہیں تو عورت ہونا جرم بن گیا ہے ۔
اس لیے اگر کوئی عورت کے حقوق کی بات کرتا ہے تو اسے NGOs کا آدمی کہا جاتا ہے یا پھر اس کی بات کو اتنا رد کردیا جاتا ہے کہ کہنے والا بھی شرمندہ ہوجاتا ہے،اصل میں ہمارا معاشرہ دو انتہائی مختلف دنیاؤں کا باسی ہے اور دونوں سرے جوکہ دو انتہاؤں پر مشتمل ہیں ان کے کرتا دھرتا یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا ہی فرمان مستند ہے تو جدیدیت کے بانی یہ سمجھتے ہیں کہ اس معاشرے میں جب تک مغربی تہذیب کی طرح عورت کی عکاسی نہ ہو تو نہ یہ معاشرہ ترقی کرے گا بلکہ معاشرہ کھوکھلا ہی رہے گا۔
تحفظ حقوق نسواں کے حوالے سے پارلیمنٹ نے جو بل پاس کیا ہے تو اس میں بھی یہ صورت حال نظر آرہی ہے کیوں کہ اگر دیکھا جائے تو خواتین کے حقوق کا تحفظ بہت ضروری ہے جگہ جگہ خواتین کے حقوق کا استحصال نظر آتا ہے۔
بلکہ کہیں تو حقوق کے ساتھ ساتھ جان سے بھی ہاتھ دھونے پڑتے ہیں، کہیں کاروکاری کے نام پر توکہیں پسند کی شادی کے گناہ کی پاداش میں تو کہیں غیرت کے نام پر خواتین کو قتل کرنا، جائیداد سے بے دخل کرنا ایک معمول ہے اور یہ ہمیں دیہی اور پس ماندہ علاقوں میں زیادہ نظر آتا ہے لیکن شہروں میں بھی یہ صورت حال مختلف نہیں، وہاں بھی عورت ہونا ایک جرم سا لگتا ہے، کہیں دفتروں میں مردوں کی جانب سے ہراساں کیا جاتا ہے تو وہ صرف اپنی روزی کی وجہ سے برداشت کرتی نظر آتی ہیں توکہیں بس اسٹاپوں پر بری اور غلیظ نظروں کا سامنا دفتر اور فیکٹریوں میں کام کرنے والی خواتین تو سمجھوکسی عزت کے قابل ہی نہیں ہیں کبھی ان پر تیزاب پھینک دیا جاتا ہے ۔
کبھی جہیزکی کمی کی وجہ سے زندہ جلانے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا مگر مجرم شرمندہ بھی نہیں ہوتے یہ اس مملکت خداداد کی تصویر ہے جوکہ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا۔ جس کا آئین بھی اسلامی طرز حیات کی پاسداری کی دعوت دیتا ہے مگر اسلام کے نام نہاد ٹھیکیدار بھول جاتے ہیں کہ اسلام نے عورتوں کو جو حقوق دیے ہیں۔
وہ مغربی معاشرے نے نہیں دیے اسلام میں ملازمت کرنے، کاروبار کرنے اصلاح معاشرہ کے لیے اقدامات کرنے پر پابندی نہیں مگر کیونکہ عورت گھر کے اندر کے معاملات کی ذمے دار ہے اس لیے اسلام نے کچھ حدود و قیود لگا دی ہیں تاکہ عورت بے جا آزادی کا شکار ہوکر اپنے گھر اور بچوں کی تربیت سے غافل نہ ہوجائے ورنہ اسلام نے وراثت سے لے کر جائیداد میں حصہ لینے تک ہر چیز میں عورت کو برابر کا حصہ دار ٹھہرایا ہے۔
افسوس کا یہ مقام ہے کہ ہم اسلام کی اعتدال پسندانہ باتوں کو بھول انتہا پسندی کی طرف راغب ہو رہے ہیں کہیں کہا جا رہا ہے کہ یہ بل نامنظور اس سے طلاقوں کی شرح بڑھے گی تو کہیں اس بل کا تحفظ کرنے والے دلائل پر دلائل دے رہے ہیں مگر یہ ساری باتیں بعداز مرگ واویلا ہیں کیونکہ جب اس بل کی تدوین و ترتیب ہو رہی تھی تو اس وقت باہمی مشاورت سے جس میں علمائے کرام معاشرے کے اہل دانش، خواتین اور دوسرے لوگ شامل ہوتے تاکہ سب کی معروضہ خصوصیات کی موجودگی میں اس بل کو پاس کیا جاتا اب بل پاس ہونے کے بعد اس طرح کی باتیں عالم میں پاکستان کی تصویر کو دھندلا کرتی نظر آتی ہیں اور ایک روشن خیال پاکستان کا امیج متاثر ہوتا ہے ۔
حکمران بے سوچے سمجھے وہ طریقہ اختیار کرتے ہیں جس سے بجائے اچھا تاثر پڑنے کے اور مزید خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں بے شک اگر خاوند مسلسل عورت کو ستائے ظالمانہ کارروائی کرے تو عورت کو حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ اس کے سدباب کے لیے کوشش کرے مگر تھانے کچہری کے چکروں نے اس بات کو مشکوک بنا دیا ہے کہ وہاں عورت کا تحفظ ہوسکے گا یا پھر وہاں مزید بدنامی اور خواری مقدر بن جائے گی۔
ابھی ہمارے تھانے اور ادارے اتنی معتبر نہیں ہوئے کہ وہاں عورت کا جانا معمول کی بات سمجھی جائے کیونکہ تھانے میں عورت کی کس طرح کھنچائی ہوسکتی ہے یہ سب کے علم میں ہے۔ اس لیے پہلے تو معاشرے کے اداروں کو مضبوط اور قابل اعتماد بنایا جاتا اس کے بعد ایسے معاملات اٹھائے جاتے کہ ایک بات اور بھی ہے کہ عورت کو گھر میں مرد سے اتنا خطرہ نہیں جتنا عورت، عورت کی دشمن ہے خانگی جھگڑوں میں مرد کی زیادہ تر حرکات میں ذمے دار ایک عورت ہی نظر آتی ہے یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ خانگی زندگی میں زیادہ تر جھگڑا عورتوں کی وجہ سے ہی شروع ہوتا ہے۔
عورت ساس، نند، بھابی جیسے رشتوں میں انتہائی خونخوار نظر آتی ہے کہیں وہ ساس بن کر ظالم ہوتی ہے تو کہیں بہو بن کر اپنے گھر والوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ خانگی جھگڑوں میں مردوں کو اکسانے والی تشدد پر آمادہ کرنے والی خواتین کے خلاف بھی کوئی قانون پاس ہونا چاہیے۔
ہمارے جاننے والوں میں ایک خاتون نے صرف اس وجہ سے خودکشی کرلی تھی کہ اس عورت کا کوئی پرسان حال نہیں تھا جوکہ ساس کے لالچی منہ کو بند کرسکتا روز بروز بڑھتی ہوئی فرمائشیں پوری کرسکتا، گھر میں ساس نے طعنے دے دے کر جینا حرام کر دیا تھا شوہر بھی ماں کی باتوں پر آنکھیں بند کرکے ایمان لاتا تھا اور اس بنا پر دن رات خاتون کی تذلیل کرتا تھا آخر کار اس ذلت بھری زندگی سے تنگ آکر اس نے خودکشی کرلی۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ مرد تو دن بھر گھر سے باہر ہوتا ہے گھر میں رہنے والی خواتین ہی خواتین کو تنگ کرنے کے منصوبے پر عمل کراتی ہیں اس لیے خواتین کے تربیتی پروگرام ہونے چاہئیں تاکہ خانگی مسائل کم سے کم ہوں اور تھانے کچہری کی نوبت کم سے کم ہو۔