ایک سے دس تک
نمبرز جب ایجاد ہوئے توکسی کو معلوم نہیں تھا کہ ان کا مقصد اور مفہوم اس قدر دلچسپ بھی ہوگا۔
نمبرز جب ایجاد ہوئے توکسی کو معلوم نہیں تھا کہ ان کا مقصد اور مفہوم اس قدر دلچسپ بھی ہوگا۔ یہ تو انسان نے اپنے فہم وذکا کے تحت اشیاء کو شمارکرنا اور وزن کرنا سیکھا اور پھر انھیں منضبط کرکے ضابطوں اور اصولوں میں پابند کرکے ایک ترتیب دے دی اور اس کی اشکال مقرر کردیں، ہر زبان کے نمبرز ایک اشکال الگ ہیں ۔ اس کا تعلق صوتی اظہار سے ہے اور وہ ''حرفوں'' سے بنی ہے۔ ہم حروف تہجی کہتے ہیں۔ انگریز ALPHABETS اور دوسرے تیسرے چوتھے کچھ اور کہتے ہوں گے کہ قوائد کی رو سے یہ درست ہے۔
پر فی زمانہ ان نمبروں کا معاملہ کچھ اور ہوگیا ہے کہیں اسے Number Game کہا جا رہا ہے، کہیں اسے Rating، اب جیسا استعمال وہی نام۔ پاکستان میں پارٹیاں بھی نمبر ایک سے کافی نمبر تک ہیں ہم زیادہ تر چار پانچ نمبر تک کی پارٹیوں کو جانتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ اکثر ایک نمبر والی پارٹی ''دو نمبر'' ہوجاتی ہے گنتی کے اعتبار سے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ تھی ہی ''دو نمبر''۔ یہ ''دو نمبری'' معاملات ساری ہی پارٹیوں میں پائے جاتے ہیں یعنی ان کے اعداد و شمار کے اعتبار سے نمبر بدلتے رہتے ہیں اور ہمیں یہ غلط فہمی ہوتی رہتی ہے کہ عوام نے پارٹی کو مسترد یا قبول کرلیا ہے لہٰذا نمبر بدل گیا ہے۔
جی نہیں عوام سے تو اس کا بہت زیادہ تعلق ہے ہی نہیں۔ جو اقتدار میں ہوتا ہے وہ مہارت کا مظاہرہ کرتا ہے اور اگر کامیاب ہوجائے تو دو نمبر پر دوبارہ اقتدار حاصل ہوجاتا ہے ورنہ وہ پھر دو نمبری ہوجاتا ہے اور اس کی جگہ کوئی دوسرا پھر دو نمبری اقتدار حاصل کرنے کو ایک نمبر سے دو نمبری انداز میں کام شروع کرتا ہے۔ ان نمبروں کے ہیر پھیر میں عوام کے عینک کے نمبر بدلتے رہتے ہیں اور وہ وعدہ کرکے صنم تم نہیں آئے۔ گاتے رہتے ہیں اور پانچ سال تک ''صنم'' کا انتظار کرتے رہتے ہیں اور شکوہ کرتے رہتے ہیں ''پیار کے خوب وعدے نبھائے؟'' اور یہ سمجھ اب تک عوام کو نہیں آئی ہے کہ پیار لیڈروں کو عوام سے نہیں Seat سے ہوتا ہے اور وہ کرتے رہتے ہیں۔
مرحوم طالب المولیٰ کی سیٹ پر ''طالب المولیٰ'' نے الیکشن لڑا مٹیاری سے جیت گئے ایک بات بہت کمال کی انھوں نے وہاں کی تھی کہ لوگ خوا مخواہ کھڑے ہوگئے ہماری مخالفت میں ورنہ ہم تو جانتے ہیں کہ مٹیاری کے لوگ ہم سے بہت محبت کرتے ہیں اور یہ سیٹ ہماری ہے۔ بات تو ٹھیک ہے ''سر سائیں جو، ووٹ بھٹو جو'' ابھی تک تو حُر بھی اس سحر سے نہیں نکل پائے تو ''مٹیاری'' کا کیا تذکرہ! مگر اس سے یہ معلوم ہوا کہ جیتنے والے کو یہ تکلیف بھی کرنا گوارا نہ تھا کہ الیکشن میں باقاعدہ الیکشن ہو جاتا بلکہ بلامقابلہ کا بلّہ مل جاتاکچھ تو خرچہ ہوا ہوگا وہ بھی نہ ہوتا۔ کام تو مٹیاری میں پہلے کیا ہوئے اور اب کیا ہوں گے یہ مٹیاری والوں اور ''سائیں'' کا معاملہ ہے۔
پیپلزپارٹی دو نمبر ہوگئی کیونکہ مسلم لیگ دو نمبر سے بڑھ گئی اور پہلے نمبر پر چلی گئی۔ووٹوں سے نہیں ''مہارت'' سے یہ ہم نہیں کھلاڑی بادشاہ اور ان کے ساتھ کہتے ہیں۔
نفع نقصان ان کے سر ہے۔ اب جب پیپلزپارٹی دو نمبر ہوگئی تو کپتان کی پارٹی نے حساب کتاب لگایا تو وہ دو نمبر ہوگئی اور پیپلز پارٹی نہ صرف یہ کہ دو نمبری سے محروم ہوگئی بلکہ تین نمبر پر آگئی اور ایم کیو ایم جو اچھی خاصی تین نمبری تھی، آصف زرداری کے دور میں چار نمبر ہوگئی۔ کوشش تو بہت کر رہے ہیں ''ایک نمبر سے دس نمبر تک'' والے کہ اس کا نمبر اور بھی نیچے چلا جائے لہٰذا اس مقصد کے تحت ایک نمبر سے لے کر دس نمبر تک اکثر ''چار نمبر'' کے خلاف ''اتحاد'' بناتے رہتے ہیں۔
ہونا وونا تو کچھ نہیں ہے سوائے بدمزگی کے۔ کیونکہ سندھ کے یہ نمبروں کے مالک پارٹی والے یہ نہیں سوچتے کہ پنجاب کتنا ترقی کر رہا ہے۔ کس وجہ سے کہ وہاں کچھ حکومت مخالف سیاستدانوں کے علاوہ کسی کو تکلیف نہیں ہوتی۔ (ہم یہ نہیں کہتے کہ کیوں تکلیف صحیح ہوسکتی ہے) کہ پنجاب کا یہ ہوگیا، پنجاب کا وہ ہوگیا۔
سرزمین پر حقیقت یہ ہے کہ پنجاب کے کچھ شہر اور خصوصاً لاہور بہت بہتر ہوگئے۔ سندھ میں تو کراچی کو مصطفیٰ کمال کی میئرشپ کی سزا کے طور پر''گٹرکراچی'' بنا دیا گیا۔کراچی کے عوام سے ''یہ دو نمبری'' کیوں؟ وہ ٹیکس بھی دیں، ریونیو بھی جنریٹ کریں اور انھیں ملے کیا، اس کے جواب میں ہر جماعت کا جواب الگ الگ اور نمبر بھی الگ الگ ہوں گے۔ لوگوں کو کراچی سے نہیں کراچی کی سیاست سے دلچسپی ہے۔
سارا ٹیلنٹ صوبے کا ہے زبان چاہے کوئی ہو اور قدر ٹیلنٹ کی ہونی چاہیے۔ جو قومیں دو نمبر کے راستوں سے کچھ بھی حاصل کرتی ہیں وہ ان کے پاس ٹھہرتا نہیں ہے کیونکہ اس کے لیے ٹیلنٹ چاہیے ہوتا ہے اور میرٹ اور ٹیلنٹ میں دنیا بھر میں جہاں بھی دو نمبری کی جاتی ہے وہ معاشرے ناکام ہوجاتے ہیں۔
سندھ کا موجودہ حال یہی ہے۔ کہاں سے خرابی شروع کی گئی تھی نمبر گیم شروع کیا گیا تھا آج نتائج سامنے ہیں اور نظر آرہے ہیں۔ ''گٹر گراچی'' حیدر آباد Gutter۔ یہ بات یہاں رکے گی نہیں بلکہ رکی نہیں ہے نوابشاہ اور سکھر میرپورخاص کا بھی یہی حال ہے پہلے سے تو سندھ میں اب اور کون سے بڑے بڑے شہر بچے ہیں جو دو نمبری کا شکار نہیں ہوئے۔ کہاں گئے ترقیاتی بجٹ کون سے اکاؤنٹ میں یہ بجٹ جا کر جمع ہوگئے۔ کاغذوں پر کشتیاں چل رہی ہیں، ترقیاتی منصوبوں کی، ہیں کہاں یہ منصوبے، پنجاب میں تو نظر آرہے ہیں اور شور و غوغا بھی ہے کہ سندھ کو نظراندازکیا جا رہا ہے۔
کون نظرانداز کر رہا ہے۔ KPK میں ترقی کیسے ہو رہی ہے، وہ تو پنجاب نہیں ہے ناں، وہ KPK ہے۔ ان کے پاس کیا گُر ہے کہ وہ ترقی کے راستے پر جا رہے ہیں۔ وہاں دو نمبری کام یا ہو نہیں رہے یا بہت کم ہو رہے ہیں۔ یہ تو بعد میں معلوم ہوگا۔ ہم تو اپنا سوچ رہے ہیں کہ سندھ سے جمہوریت کا سفر شروع ہوا اور پچھلے دور میں ''جمہوریت ہی دو نمبر'' ہوگئی۔ سابق صدور آرام سے باعزت بری ہوگئے۔ پرویز مشرف کو تو ہونا ہی تھا کیونکہ ان کی حمایت تو خود بلوچستان میں موجود اور طاقتور ہے۔ اور بگٹی فیکٹر نہیں چلنے والا کہ لوگوں نے اب اس کا نمبر بدل دیا ہے۔ اب کوئی اور فیکٹر وہاں ہے اور وہ Promote ہوگا۔ اب اس کا وقت ہے۔
ہر جگہ نمبر بدل رہے ہیں۔ ہم کسی کے ''بیگماتی معاملات'' پر تبصرہ نہیں کریں گے مگر نمبر وہاں بھی دو تھا۔ اور محسوس یہ ہوا کہ دونوں ایک دوسرے کو دو نمبر قرار دے رہے ہیں دبے لفظوں میں۔خدا کرے ہم غلط ہوں اگر ایسا ہے تو ہم معذرت خواہ ہیں۔ تھر میں دو نمبری ادویات، غذا کے مسائل، سماجی تنظیمیں دستر خوان لگا رہی ہیں۔
فوج علاج کر رہی ہے لوگوں کا، سندھ کی حکومت کہہ رہی ہے یہ میڈیا کی دو نمبری ہے۔ اگر بھوک سے لوگ مر رہے ہیں تو بڑے لوگ کیوں نہیں مر رہے ہیں بچے ہی کیوں مر رہے ہیں۔ یہ ماؤں کا قصور ہے؟ وہ صحت مند بچے پیدا نہیں کرتیں اور الزام ''سائیں کی سرکار'' پر آجاتا ہے اور یہ بھی کہ وہاں بچے بہت پیدا ہوتے ہیں۔
دنیا کی کسی حکومت نے آج تک اس قسم کے دو نمبری بیان دیے ہیں یا ایسے رویے کا مظاہرہ کیا ہے جو سندھ حکومت ایک علاقے کے سلسلے میں کر رہی ہے کیونکہ وہ پیپلز پارٹی کا شاید مکمل ووٹ بینک نہیں ہے وہاں کے لوگ ''اربابوں'' کے ساتھ ہیں۔ تو کیا سندھ کے عوام نہیں ہیں وہ لوگ؟ سندھ کے عوام ہونے کے لیے پارٹی کا ووٹر ہونا ضروری ہے؟ اور پارٹی بھی وہ جو خود اپنی بقا کی جنگ لڑ بھی نہیں رہی بلکہ شکست کے دہانے پر ہے اور اسے مکمل شکست ہونے والی ہے۔ سندھ میں بھی اسے کچھ نمبروں نے بچا رکھا ہے اور یہ نمبر نہ جانے کب ادھر ادھر ہوجائیں۔ سندھ میں ایسا ہوتا رہا ہے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ممتاز بھٹو صاحب کو ہی دیکھ لیجیے۔ دیگ کا ایک چاول، دیگ کا حال بتا دیتا ہے اگر ایک نمبر چاول ہے دو نمبر نہیں۔