دیر اور اندھیر
وہ دن اب دور نہیں جب بالاآخر قانون فطرت یعنی حق اور سچ غالب آ کر رہے گا
KARACHI:
وہ عمر میں مجھ سے بڑے تھے' دوران ملازمت اہم عہدوں پر متمکن رہے' ماتحتوں ہی نہیں اپنے سے بڑے افسروں میں بھی عزت و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے' سائل ان کی ہمدردی و شفقت کے معترف رہتے' وہ دوستوں عزیزوں میں بیحد مقبول تھے 'دیانت امانت اصول پسندی ان کی شخصیت کا جزو ہونے کی وجہ سے کوئی ان پر انگلی اٹھانے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔
شاید انھی وجوہات کی بنا پر میں انھیں کوئی رشتہ نہ ہونے کے باوجود ''بھائی صاحب'' کہہ کر بلاتا تھا ان کا ایک اسٹائل تھا' جس کی وجہ سے لوگ انھیں یاد رکھتے اور ان کی سروس سے ریٹائرمنٹ کے باوجود احترام کرتے تھے اکثر حیران بھی ہوتے کہ اس ''کرسی کو سلام'' دور کے باوجود ایسا کیوں ہے۔ لیکن چودہ سال مطمئن اور پرسکون ریٹائرمنٹ کی زندگی گزارنے کے بعد ان دنوں وہ کچھ اپ سیٹ سے تھے۔
میں نے ان کے مزاج میں بے چینی کا نوٹس کئی روز پہلے لے لیا تھا لیکن بے تکلفی کے باوجود میں نے ان سے کچھ کریدنا مناسب نہ سمجھا تھا پھر میں نے ایک روز پوچھ ہی لیا کہ ان کی خاموشی اور کسی حد تک Restlessness کس بنا پر تھی۔ وہ کمرے سے اٹھ کر چلے گئے اور واپس آ کر ایک فائل میرے سامنے رکھ دی ''اسے اطمینان سے پڑھ کر کل مجھ سے اس پر بات کرو۔ تم یہ فائل اپنے ساتھ لے جا سکتے ہو'' دھیمی آواز سے یہ بات کر کے بھائی صاحب نے مجھے بیرونی دروازے تک چھوڑ کر الوداع کہا اور میں فائل لے کر اپنے گھر کی طرف روانہ ہوا 'میں نے فائل کا مطالعہ کیا۔ جو سمجھ میں آیا وہ یوں تھا۔
فائل دو حصوں پر مشتمل تھی پہلے حصے میں کچھ سرکاری نوٹنگ تھی بیس سال قبل تحریر شدہ ایک Note تھا جو بصورت تجویز لکھا گیا تھا جس کے نیچے ان سمیت پانچ افراد کے دستخط تھے۔ یہ نوٹ یعنی تجویز اعلیٰ اتھارٹی کے پاس بغرض منظوری بھجوائی جاتی تھی ۔مذکورہ تجویز کے دیگر دستخط کنندگان میں سے ایک افسر وہ تھا جس کے دفتر کی وہ فائل تھی اور اسی نے وہ فائل Note کی منظوری کے لیے اوپر بھجوانی تھی۔
تجویز کوئی حکم نہیں تھی' افسر مجاز اسے رد بھی کر سکتا تھا اور اس پر کوئی Query لگا کر واپس بھی بھیج سکتا تھا لیکن ہوا یہ کہ جس افسر کے دفتر سے تجویز Initiate ہوئی تھی اس آفس کے کسی کلرک نے وہ تجویز جو ''بغرض منظوری مجاز اتھارٹی'' دی گئی تھی اسے خود منظور کر کے کارروائی اپنی ہی سطح پر مکمل کر دی۔
یہ معاملہ 20 سال پرانا تھا اس کیس پر تجویز دینے والے افسران میں سے وہ افسر جو اس برانچ کا انچارج اور متعلقہ فائل کا Custodian تھا اور جس کے کلرک نے افسر مجاز بن کر پروپوزل کی منظوری دینے کا جرم کیا اس سے باز پرس نہ کیا جانا اور مجاز اتھارٹی کی منظوری کے بغیر کیس پروسیس کر دیا جانا باعث حیرت جب کہ بھائی صاحب سے 20 سال بعد جواب طلب کرنا قانون و ضابطے کی دھجیاں اڑانے کے مترادف تھا۔
دراصل بھائی صاحب کی ساری سروس اصول ضابطہ اور قانون کی پاسداری کرتے گزری تھی اس لیے انھیں جوابدہی پر حیرت بھی تھی اور افسوس بھی ہوا۔ چند ہفتے گزرے تو کہنے لگے ''دیکھو اس بے بنیاد انکوائری کا جس سے میرا کوئی تعلق نہیں جواب بھی دے چکا ہوں لیکن انکوائری ابھی تک داخل دفتر نہیں کی گئی'' اس پر میں نے ہنس کر کہا ''بھائی صاحب یاد کریں اپنی افسری کے زمانے کو بہت سے مقدمات اور انکوائریوں کا سامنا کرنے والے جو سالہا سال تک آپ کے رو برو پیش ہوتے رہے 'کیا وہ نہیں سوچتے ہوں گے کہ کب جان خلاصی ہو گی آپ تو چند مہینوں ہی میں ایسی انکوائری سے تنگ پڑ گئے ۔
جس سے آپ کا تعلق ہی نہیں عین ممکن ہے اس کا مقصد قدرت کے نزدیک آپ کو کسی ایسی غلطی یا لغزش سے پاک کرنا ہو جو آپ سے نادانستہ سرزد ہو گئی ہو اور آپ کو یاد تک نہ ہو'' اس پر بھائی صاحب سوچ میں پڑ گئے اور کچھ دیر کی خاموشی کے بعد بولے کہ تم ٹھیک کہتے ہو جب کوئی افسر یا جج کرسی پر ہوتا ہے تو بالکل نہیں سوچتا کہ اس کے پاس پیش ہونے والا سائل جائز طور پر گرفت میں آیا ہوا ہے اور بے قصور ہے یا قصور وار جب کہ سائل کی مصیبت کے دن مہینوں اور مہینے سالوں تک طوالت پکڑتے چلے جاتے ہیں جس کا احساس افسر یا جج کو رتی بھر نہیں ہوتا اور پھر عرصہ گزرنے کے بعد سائل کی بیگناہی ثابت ہو جاتی ہے لیکن اب سائل کے گومگو اور سولی پر لٹکے رہنے والے دن اسے کوئی نہیں لوٹا سکتا۔
بوجہ مصروفیات دو ماہ تک بھائی صاحب سے ملاقات نہ ہوئی جونہی ان کی پریشانی کا خیال آیا خیریت معلوم کرنے ان کے گھر جا پہنچا' چائے پینے تک نہ میں نے ان کی پریشانی کی بابت بات کی نہ انھوں نے کوئی ذکر کیا مجھ سے نہ رہا گیا پوچھ ہی لیا کہ اس انکوائری کا کیا بنا انھوں نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا ٹل گئی۔ میں نے پھر تشویش کا اظہار کیا تو کہنے لگے وہ تو داخل دفتر ہو گئی مزید کریدا تو بولے وہ غلط فہمی تھی یا نالائقی کا نتیجہ یا پھر بدنیتی ہاں ایک امکان یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہاتھیوں کی لڑائی میں چھوٹے جانور بھی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔
میں نے وضاحت چاہی تو کہنے لگے ہمارے ملک میں بے شمار لوگ ناکردہ گناہوں کا خمیازہ بھگت رہے ہیں جب کہ بدکردار کرپٹ اور غلط کار موجیں مارتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ بھائی صاحب نے مزید کہا کہ گزشتہ چند مہینوں میں انھوں نے اپنی ملازمت کے عرصہ میں' اس سے پہلے ادوار اور بعد میں ملازمت اور سیاست کرنے والوں کی کارکردگی اور کردار ہر دو پر تحقیق کی ہے اور اس نتیجے پر پہنچے کہ گزشتہ دنوں جناب چیف جسٹس کی یہ ابزرویشن سچ ہے کہ معاشرے میں سچ جھوٹ اور حلال و حرام کی تمیز اٹھ چکی ہے جب کہ با اصولوں پر کڑا وقت آتا رہا ہے اور کرپٹ جی حضوریوں نے رفعتیں پائی ہیں لیکن وہ دن اب دور نہیں جب بالاآخر قانون فطرت یعنی حق اور سچ غالب آ کر رہے گا دیر ہو سکتی ہے اندھیر نا ممکن ہے۔