ایک سرسبز باغ کی کہانی
بہت سال پہلے کی بات ہے کہ ہم ایک نئے علاقے میں شفٹ ہوئے
بہت سال پہلے کی بات ہے کہ ہم ایک نئے علاقے میں شفٹ ہوئے۔ اس گھر میں سبزے کا نام و نشان نہ تھا۔ راستے سونے اور منظر بے رنگ دکھائی دیتے۔ پرندوں کی چہچہاہٹ کا دور تک شائبہ نہ تھا۔ بھائی کا گھر قریب تھا۔ اس گھر کے سامنے ایک خالی پلاٹ ہوا کرتا تھا۔ جہاں محلے والے کچرا پھینکا کرتے۔ محلے کے بچے آئے دن بیمار رہتے۔
میری خواہش تھی کہ اس خالی پلاٹ میں ایک سرسبز و شاداب باغ لگانا چاہیے۔ جب کہ بھائی نے بتایا کہ محلے کے لوگ اس جگہ مسجد بنانا چاہتے ہیں، ہمارے علاقے میں کافی مساجد ہیں، جو سونی پڑی رہتیں۔ بہرکیف باغ لگانا ایک مشکل ترین کام تھا۔ بچوں کو باغ کی ضرورت تھی تا کہ انھیں معلوم ہو سکے کہ تتلیوں کے رنگ کیسے ہوتے ہیں، شہد کی مکھیاں پھولوں پر کیسے منڈلاتی ہیں، خوش رنگ پتیوں پر بھنورا رقص کس طرح کرتا ہے، پرندوں کی چہچہاہٹ میں کس قدر زندگی کی امنگ جھلکتی ہے۔
بچوں کو ان تمام مناظر کا علم نہیں تھا۔ وہ ٹیبلٹ پر گیمز کھیلتے یا موبائل ان کے ہاتھ میں ہوتا۔ اور گھروں سے ان کے رونے اور چیخنے کی آوازیں آتیں۔ لیکن سب سے پہلے میں نے اپنے گھر میں درخت لگائے۔ ایک پرسکون گلی میں ایک طرف تو درخت اور پودے لگا دیے۔ پڑوسی کے گھر کی دیوار کے ساتھ گملے رکھے تو اس نے خوب احتجاج کیا اور گملے ہٹوا دیے۔ اس کا خیال تھا کہ گملوں کو دیا جانے والا پانی ان کے گھر کی دیوار کو نقصان پہنچائے گا۔ لہٰذا دوسری طرف منظر بے رنگ ہی رہے۔
کچھ عرصے بعد بھائی کا گھر گملوں، بیلوں اور پھولوں سے سجنے لگا۔ دیواریں گلابی پھولوں والی بیل سے آراستہ ہو گئیں۔ اس کے بعد یہ سبزہ گھروں کے باہر نظر آنے لگا۔ محلے والوں نے مل جل کر خالی پلاٹ کو صاف کروایا۔ مالی رکھنے کے ساتھ پانی کی موٹر کا بھی انتظام کیا۔ چند مہینوں میں خشک زمین کی جگہ مخملیں سبز گھاس نے لے لی۔ باغ کے اردگرد سبز باڑھ لگ گئی۔ بوگن ویلیا کے رنگوں سے ماحول سج سا گیا۔ بچے جو گھر میں دبکے رہتے تھے اب کھلی فضا میں کھیلنے لگے۔ ان کے بے رنگ چہرے پھولوں کی طرح کھل اٹھے۔
کچھ دن پہلے کینیڈا میں مقیم میری دوست نے میری معلومات میں گراں قدر اضافہ کرتے ہوئے بتایا کہ اب وہاں لوگ خوشی یا کسی کامیابی کے موقع پر گلدستے کے بجائے، خوبصورت پودوں والے گملے لے جانے لگے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ تحفے میں لے جانے والے پھول مرجھا جاتے ہیں جب کہ پودا گھر کے مکینوں کو ان کی (تحفہ دینے والے کی) یاد دلاتا رہے گا۔
دنیا کی بہت سی مہذب قومیں پھول، پھل، جڑی بوٹیاں اور سبزیوں کی کاشت خود کرتی ہیں۔ وہ باغبانی و کھیتی باڑی کو روحانی عمل سمجھتے ہیں۔ خودانحصاری کا احساس ان کی نسلوں میں خوب پھلتا و پھولتا ہے۔ ان کے گھر، محلے و راستے سبزے سے سرشار دکھائی دیتے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو زمین سے قربت کا سلیقہ سکھاتے ہیں۔
یہ تعلق انسان کو ذہنی و جسمانی تحرک عطا کرتا ہے۔ صبر و برداشت پیدا کرتا ہے۔ زمین سے یہ رابطہ نہ فقط وجدانی صلاحیت عطا کرتا ہے بلکہ فیصلے کی قوت میں بھی بہتری آتی ہے۔ لیکن ہماری نظر میں زمین ایک ملکیت اور محض جائیداد کے طور پر سمجھی جاتی ہے۔
اس سوچ و رویے سے تسلط، غلبہ اور حق تلفی جیسے منفی نظریوں کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں شاپنگ پلازہ، فلیٹس، ریسٹورنٹس، مالز اور قیمتی اشیا کا کاروبار عروج پر ہے۔ حتیٰ کہ رشتے، ناتے، دوستیاں و تعلق بھی کاروباری سوچ کے زمرے میں آنے لگے ہیں۔ جب کہ باغات، نرسریز اور کھلی فضا ہمیں کم میسر ہے۔ فطری مقامات، جنگلات اور تفریحی مراکز کمرشلزم کا شکار ہو چکے ہیں۔ سیر و سیاحت کا رجحان بھی بہت کم دکھائی دیتا ہے۔
لوگ اپنی طاقت سے بے خبر ہیں۔ انھیں اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ وہ زندگی کے مختلف شعبوں میں کئی تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔ جب بھی ہم کوئی تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اس کی مثال قائم کرنی پڑتی ہے۔ لفظ تبدیلی نہیں لے کر آتے۔ تبدیلی عمل کی طاقت سے آتی ہے۔ ایک اچھا عمل، دوسرے اچھے عمل کا محرک بنتا ہے۔ ہم اپنے گھروں، محلوں و شاہراہوں کو خود صاف رکھ سکتے ہیں۔ جس طرح اس محلے میں لوگوں نے تمام تر کام خود کیے۔ کوئی زمانہ تھا کہ علاقے کی سڑکیں ٹوٹی پھوٹی تھیں۔ ڈرینج کا صحیح نظام نہ تھا۔ تمام لوگ مل کر باہم شکایتیں متعلقہ شعبوں تک پہنچاتے۔ بااثر لوگوں نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا۔ محلے کی فعال تنظیمی سرگرمیوں اور یکجہتی نے کئی مشکل کام آسان بنا دیے۔
اس رویے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ خودانحصاری میں ان تمام مسائل کا حل موجود ہے۔ بشرطیکہ ذاتی ذمے داری کا احساس بھی ساتھ شامل ہو۔ ایشیا کے کئی ملک ایسے ہیں، جو پرانی اشیا کو ری سائیکل (اشیا کی تعمیر نو) کرتے ہیں۔ زندگی کے معاملات کو خود دیکھنا، حل نکالنا اور مثبت انداز فکر سے ایک نئے تناظر میں ان کا مشاہدہ کرنا ایک منطقی رویہ ہے۔ سوچ کا یہ منطقی انداز ایشیا کی قدیم تہذیبوں کا قیمتی ورثہ رہا ہے۔ جس میں زمین کی قربت اور فطرت کا مشاہدہ اولیت رکھتا ہے۔
وقت کا صحیح استعمال اور ان لمحوں کو تعمیری انداز سے گزارنا زندگی گزارنے کا فن ہے۔ فرصت سے کئی الجھاؤ اور معاشرتی تضاد جنم لیتے ہیں۔ فطرت کے حوالے سے مختلف کالمز میں آپ سے فطرت کے مختلف حوالوں سے بات ہوتی رہی ہے۔ یہ انداز فکر، قطعی غیر عملی سوچ پر مبنی نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ زندگی میں ایک درخت ضرور لگائیں اور اگر ہوسکے تو کسی مستحق بچے کی تعلیم کے اخراجات اٹھائیں تو معاشرے میں واضح تبدیلی محسوس ہونے لگے گی۔ وہ درخت جیسے جیسے بڑھے گا آپ اپنے اندر ویسی تازگی اور چھاؤں محسوس کرنے لگیں گے۔
میں نے باغ لگانے کا جو خواب دیکھا تھا۔ وہ خواب کسی نہ کسی طرح تکمیل کے راستے تلاش کرتا رہا۔ لہٰذا اس خواب کو تعبیر بہت سے لوگوں نے مل کر عطا کی۔ دکھ اس بات کا ہے کہ ہم خواب دیکھنے کا ہنر بھی کھو چکے ہیں۔