جو چال ہم چلے

عام تاثر یہ ہے کہ موجودہ حکومت محض کاغذی گھوڑے دوڑا کر اپنا وقت اور آئینی مدت پوری کررہی ہے۔


نجمہ عالم March 24, 2016
[email protected]

عام تاثر یہ ہے کہ موجودہ حکومت محض کاغذی گھوڑے دوڑا کر اپنا وقت اور آئینی مدت پوری کررہی ہے۔ ایک کے بعد ایک کاغذی کارروائی بڑی دھوم دھام سے سامنے آتی ہے۔

ہفتہ پندرہ دن ذرایع ابلاغ کسی بھی سوچ بچار سے فارغ ہوکر اس نئی صورتحال پر 24 گھنٹے اپنے چینلز کا پیٹ بھرتے ہیں، اخبارات میں بڑی بڑی سرخیاں اور تمام قلم کار اسی موضوع پر مختلف پہلوؤں سے اپنے اپنے نقطہ نظر کے مطابق دانشمندانہ اظہار خیال کرتے ہیں، وقت کے ساتھ ساتھ بات کی شدت میں کمی آنا شروع ہوجاتی ہے۔

تمام ذرایع ابلاغ، قلم کار، دانشور اور تجزیہ کار پھر حکومتی کارکردگی کی طرف متوجہ ہونے لگتے ہیں تو حکومتی اداروں میں ایک بار پھر ہلچل نظر آتی ہے اور نان ایشوز کو ملک و قوم کا سب سے اہم ایشو بنا کر پھر کوئی شوشا چھوڑ دیا جاتا ہے، تمام صاحبان علم و دانش پھر اسی موضوع کے پیچھے قلم و عقل لے کر پڑجاتے ہیں۔ یوں ایک ایسی جماعت جو بلاپیشگی منصوبہ بندی (پیپر ورک) اقتدار میں آئی، آرام سے اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے، بیس کروڑ عوام چند سو افراد کی دانشمندانہ کارکردگی کے آگے سر جھکائے بے بسی کا مرقع بنے ہوئے ہیں۔

حکومتی ترجمان اور وزراء حکومت کسی بھی مسئلے پر کبھی ایک رائے نہیں ہوپاتے، ایک صاحب کچھ فرمائیں گے دوسرے کچھ اور پھر حکومتی ترجمان ان کے بیانات سے ہٹ کر کچھ اور ہی ترجمانی فرمائیں گے، یوں لگ بھگ تین سال کا عرصہ مکمل ہوا اور باقی عرصہ بھی مکمل ہوجائے گا۔ قوم دم بخود ہے کہ آخر ہو کیا رہا ہے۔

موجودہ حکومت کے ابتدائی دور کے اخبارات اٹھائیے، واضح اور غیر واضح انداز میں مختلف اخبارات میں کئی تحریریں مل جائیں گی جن میں حکمراں جماعت اور پی ٹی آئی کے عظیم الشان جلسوں کے کامیاب انعقاد پر خدشات کا اظہار کیا گیا ہے کہ ملک میں دہشتگردی کی شدت اور تمام روشن خیال سیاسی جماعتوں کو جلسے تو دور کارنر میٹنگ تک کی اجازت نہیں بلکہ ان کے دفاتر پر بم حملے، کارکنان کا اغوا، ووٹرز کو دھمکیاں دی جارہی ہیں، تو آخر ان دو پارٹیوں کے پاس آخر کیا ایسی چیز ہے کہ انھیں کھلے بندوں جلسے کرنے اور انتخابی مہم چلانے سے نہیں روکا جا رہا؟

سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور سے قبل تک طالبان کے ساتھ مذاکرات اور برادرانہ تعلقات کی بازگشت سنائی دی جاتی رہی، ملک بھر میں امن وامان کی صورتحال دگر گوں رہی مگر طالبان کا دفتر ملک میں قائم کرنے پر اصرار ہوتا رہا۔ خدا جنرل راحیل شریف کو عمر خضر اور مزید ہمت و حوصلہ عطا فرمائے کہ انھیں نئے عزم و حوصلے کے ساتھ دہشتگردوں کا قلع قمع کرنے کی توفیق عطا فرمائی، وگرنہ تو عوامی مینڈیٹ لکھنے والی حکومت کچھ کرنے کو تیار نہ تھی۔ چلیں یہ محاذ تو جنرل صاحب نے خود سنبھال لیا مگر دیگر شعبے جہاں بدعنوانی، لوٹ کھسوٹ عروج پر تھی اس پر بار بار حکومت کو متوجہ کیا گیا، خود فوج کی جانب سے گڈ گورننس اختیار کرنے کا اشارہ ہوا۔ فوجی قیادت کے اپنے مشن ضرب عضب کی کامیابی کے لیے عوام اور حکومت سے تعاون کرنے کی استدعا کی تو حکمرانوں کو کچھ احساس ہوا کہ کم ازکم بیانات اور منصوبہ بندی کی حد تک تو کچھ کرنا چاہیے۔

بڑے بڑے منصوبوں کا اعلان، لوڈ شیڈنگ سے نجات، میٹرو بس، اورنج لائن، کسان پیکیج، تعلیمی انقلاب، پڑھا لکھا پنجاب... اور سارا نزلہ سندھ حکومت پر گرا کہ پنجاب تو اتنی تیزی سے ترقی کررہا ہے کہ بس کچھ دن کی بات ہے لندن، پیرس اور واشنگٹن سب بھولی بسری داستان ہوجائیں گے، مگر حکومت سندھ نے تو لٹیا ہی ڈبودی ہے، ہر شعبہ بدعنوانی کا گڑ بنا ہوا ہے۔ رینجرز جو گزشتہ 26، 27 سال سے کراچی کا امن و امان بحال کرنے کے لیے یہاں مقیم ہے اس نے بھی نئے عزم کے ساتھ اپنی کارکردگی کا ازسرنو جائزہ لیا۔ نیب کی بھی دوڑیں لگ گئیں۔

ہر روز کسی نہ کسی ادارے کی شامت، کسی کے کارکنان لائن حاضر تو کسی کی فائلیں قبضے میں۔ کتنے ہی افراد بیرون ملک فرار ہوگئے، کتنوں کو خود اداروں نے فرار کرادیا، غرض یہ کہ عجیب صورتحال رینجرز پولیس کی کارکردگی پر معترض، عدلیہ نے بھی سندھ پولیس کی کارکردگی کو ناقص قرار دے دیا، جس کے لیے ہمارے کئی لکھاریوں اور تجزیہ کاروں نے یہ فرمایا کہ سندھ پولیس کی نااہلی کے ذکر سے دراصل درپردہ حکومت سندھ کی نااہلی کی نشاندہی مقصود ہے۔

کچھ لوگوں بلکہ خود حکومت سندھ نے بھی شور مچایا کہ کیا باقی صوبے دودھ کے دھلے ہیں اور وہاں تمام حالات قابل ستائش ہیں۔ جو کارروائی رینجرز سندھ میں کر رہی ہے وہی دوسرے بالخصوص پنجاب میں کیوں نہیں؟ نیب نے محض ارادہ ظاہر کیا تو پنجاب میں کھلبلی مچ گئی، اعلیٰ شخصیات، وزرا، ارکان اسمبلی کے بیانات ریکارڈ پر ہیں کہ پنجاب میں ''سب کچھ ٹھیک ہے، رینجرز یا نیب کی کارروائی کی کیا ضرورت ہے؟''

حکومت عوام کو احمق بناکر اپنا وقت مکمل کر رہی ہے اور اس کے لیے ایک کے بعد ایک سیاسی، اقتصادی یا معاشرتی شوشا چھوڑتی رہی ہے۔ ایک مثال ایان علی کے منی لانڈرنگ کا شور رفتہ رفتہ سکوت چھا گیا، اڑتے اڑتے کوئی خبر اس سلسلے میں آجاتی ہے۔

سیاسی سطح پر بھی ایک سیاسی جماعت کو اس کے گناہوں کی پاداش میں کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے ایک سے ایک اعلیٰ منصوبہ بنایا گیا، کارکنان کو بلاجواز پکڑنا، لاپتہ کرنا اور پھر کچھ عرصے بعد ان کی تشدد زدہ لاشیں دریافت ہونا، قیادت اور ذمے داروں پر الزامات عائد کرنا مگر ضمنی اور بلدیاتی انتخابات میں کامیابی نے جب یہ ثابت کردیا کہ اس اسکرپٹ سے تو مقبولیت میں کمی نہیں آ رہی تو دوسرا ڈرامہ رچایا گیا جو آج کل کھڑکی توڑ ہفتہ نہیں بلکہ ہفتہ پہ ہفتہ منا رہا ہے، شاید اس طرح مطلوبہ مقاصد حاصل ہوجائیں۔

کوئی بھی ذی ہوش حکومت ملاؤں سے بلاوجہ پنگا لینے سے دور ہی رہنا چاہتی ہے، مگر موجودہ حکومت نے ''آبیل مجھے مار'' کے مصداق تحفظ حقوق نسواں بل اپنی راجدھانی یعنی تخت لاہور (پنجاب اسمبلی) سے منظور کرا کے یہ دعوت بھی دے ڈالی، اس بل میں حقوق نسواں میں کوئی اضافہ ہوا یا نہیں اور نہ ہی یہ حقوق نسواں بل ہے بلکہ ''تحفظ حقوق نسواں''ہے مگر ہمارے ملاؤں اور اسلام کے ٹھیکیداروں کو اس میں سب کچھ خلاف شریعت اور خلاف آئین نظر آرہا ہے، لہٰذا کوئی بھی اپنے گھر کی خواتین کو ان کے (جائز اور شرعی) حقوق تک دینے پر آمادہ نہیں۔

اب 30 مذہبی جماعتوں نے حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ 27 مارچ تک یہ قانون واپس لے لیا جائے وگرنہ ہم اس کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کریں گے (گویا حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے) اور یہ تو طے ہے کہ جب ہماری مذہبی جماعتیں متحد ہوجائیں تو پھر 1977 کی نو ستاروں والی تحریک کی طرح ہر صورت کامیاب ہی رہتی ہے، جس کے نتیجے میں ملک میں جمہوریت لپیٹ دی جاتی ہے اور آمریت غیر معینہ مدت تک قائم رہتی ہے۔ رہ گیا تحفظ حقوق نسواں بل، اس پر اظہار خیال کی گنجائش 19 مارچ کے اخبار (ایکسپریس) میں وسعت اللہ خان صاحب کے کالم ''کچھ لو کچھ دو ہی اصل آئین ہے'' کے بعد کہاں رہ جاتی ہے؟ ان احتجاجی افراد کا کردار بھی اسی کالم میں واضح ہوجاتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں