کوئی انہونی نہیں ہونے والی
فرد واحد کو فیصلوں کا اختیار نہیں دیا جا سکتا۔
اس وقت ملک بھر میں خوف اور تجسس کی ملی جلی فضا ہے۔
نجی محفلوں میں جائیں تو ایک ہی سوال پوچھا جاتا ہے' کیا پھر کوئی انہونی ہونے والی ہے۔ کہیں میرے عزیز ہم وطنوں کے الفاظ ایک بار پھر کانوں میں گونجنے والے ہیں؟ آرمی چیف اور چیف جسٹس آف پاکستان کے مختلف فورمز پر چند گھنٹوں کے وقفے سے سامنے آنے والے اظہار خیال کے بعد قیاس آرائیوں' افواہوں اور تجزیوں نے بہت سوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ ہر شخص سمجھتا ہے کہ ملک کے بڑوں میں کسی نہ کسی جگہ گڑ بڑ چل رہی ہے حالانکہ آرمی چیف نے سب اداروں کو اپنی حدود میں رہنے کی بات کی اور چیف جسٹس نے کہا کہ وہ دور گیا جب میزائل' ٹینک اور اسلحے کے ذخائر ملکی استحکام کی ضمانت سمجھے جاتے تھے۔
دونوں قابل احترام شخصیات نے جو کچھ کہا وہ بالکل ٹھیک تھا اور اس میں کوئی ایسی بات نہیں جس سے وسوسے جنم لے سکیں۔ ذرا سوچئے ، آرمی چیف کی اس بات کو کیسے غلط کہا جا سکتا ہے کہ تمام اداروں کو اپنی حدود میں رہنا چاہیے' یا فرد واحد کو فیصلوں کا اختیار نہیں دیا جا سکتا۔ان الفاظ میں ذومعنویت بھی نہیں ہے۔ اسی طرح چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی رائے بھی درست تھی۔ آج ملکی استحکام کی ضمانت مضبوط معیشت ہے۔ اسلحے کے ڈھیر سوویت یونین کو ٹوٹنے سے نہیں بچا سکے تھے اور میرا خیال ہے چیف جسٹس کا اشارہ بھی اسی طرف تھا۔ ویسے بھی یہ بات ثابت شدہ ہے کہ اسلحہ کسی ملک کو استحکام نہیں دے سکتا ہے، میرا خیال ہے کہ ساری گڑبڑ ٹائمنگ کی وجہ سے ہوئی۔ دونوں شخصیات چونکہ ایک ہی روز بولی تھیں، یار لوگ موقعے کی تلاش میں تھے، پھر میڈیا نے دانستہ یا نادانستہ ایسا تاثر پیدا کر دیا کہ جیسے دونوں نے ایک دوسرے کو جواب دیا ہے۔
یوں ملک میں ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا ہے اور جس کے جی میں جو آیا ، اس نے کہہ دیا۔ آرمی چیف کی طرف سے تو اس کے بعد کسی قسم کے خیالات سامنے نہیں آئے البتہ ان بیانات کے اگلے روز چیف جسٹس صاحب کے ریمارکس اور پھر دو تین بار ایسوسی ایشنوں سے ان کے خطاب سے یہ بھرپور تاثر پیدا ہوا کہ جیسے آرمی چیف کے اب تک کے واحد اظہار خیال کا مخاطب عدلیہ یا چیف جسٹس تھے۔ہمارے ہاں بال کی کھال اتارنے والوں کی کمی نہیں ہے،ان حضرات کی وجہ سے ہی سارا ماحول گرما گرمی کا شکار ہوا ورنہ حقیقت میں کچھ بھی نہیں تھا۔
آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی کے تحریری بیان کے بعد چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ریمارکس ہم نے دیکھ لیے۔ میڈیا کے کچھ اینکرز اور کالم نگاروں کا خیال کچھ اور ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ آرمی چیف کا مخاطب میڈیا تھا کیونکہ میڈیا کی تنقید کی وجہ سے فوج ناراض ہے اور اس کی خواہش ہے کہ میڈیا والے محتاط رویہ اپنائیں۔ میڈیا والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھی حکم دے رکھا ہے کہ ججوں پر تنقید نہ کی جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ میڈیا کو بھی اس سے پہلے کبھی اتنی آزادی نہیں ملی جتنی اسے اب میسر ہے۔ یہاں بھی بعض اوقات احتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے۔
ریٹنگ کی چڑیا پکڑنا آسان نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ سارا مسئلہ اصغر خان کیس کا فیصلہ آنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ سپریم کورٹ نے سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی کو سیاست دانوں میں رقوم تقسیم کرنے کا ذمے دار ٹھہرایا۔ میڈیا میں یہ فوری مطالبہ ہوا کہ انھیں سزا دی جائے۔ سپریم کورٹ نے رقوم دینے والوں کو قصوروار قرار دے دیا اور وصول کرنے والوں کا معاملہ حکومت پر چھوڑ دیا۔ اسد درانی نے خاص ردعمل نہیں دیا البتہ اسلم بیگ صاحب نے یہ فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا۔ ان کا ردعمل کچھ اس قسم کا ہے کہ جیسے انھوں نے کوئی قومی خدمت کا فریضہ انجام دیا تھا۔
مرزا صاحب چونکہ جنرل ضیاء الحق کی حادثاتی موت کے بعد آرمی چیف بنے تھے اس لیے وہ اب تک خود کو مقدس گائے ہی سمجھتے ہیں۔ موصوف کے خیال میں انھوں نے جمہوریت کی خدمت کی تھی جس کا انھیں صلہ ملنا چاہیے تھا۔ تب ملنے والا تمغہ جمہوریت شاید ان کے لیے کافی نہیں۔ اب جب ان پر تنقید ہوتی ہے تو بھڑک اٹھتے ہیں۔ مرزا صاحب نے یہاں تک کہا ہے کہ ان کا اگر ٹرائل کرنا ہے تو یہ اختیار صرف فوج کے پاس ہے۔ میری ناقص رائے ہے کہ آرمی چیف کا اظہار خیال بھی مرزا صاحب اور ان جیسے بعض دوسرے ریٹائرڈ فوجی افسروں کے دباؤ کا نتیجہ ہے۔
جنرل کیانی جب سے آرمی چیف بنے اور پھر انھیں مدت ملازمت میں توسیع ملی' فوج کو سیاست میں مداخلت سے باہر رکھنے میں کامیاب رہے۔ موجودہ حکومت کے وجود میں آنے اور مسلم لیگ (ن) کی طرف سے اس سے الگ ہونے کے بعد سے ان پر دباؤ تھا کہ وہ آگے بڑھیں اور اس حکومت کو گھر بھجوا دیں۔ آرمی چیف نے اس کی بھرپور مزاحمت کی اور سسٹم چلتا رہا۔
پارلیمنٹ موجود ہے اور چیف جسٹس نے پشاور ہائیکورٹ کے ایبٹ آباد سرکٹ بنچ کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اسی پارلیمنٹ کو سلام پیش کیا ہے۔ حکومت کے ساتھ سپریم کورٹ کی تناؤ کی صورت حال کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اس پارلیمنٹ سے جعلی ڈگری والے ارکان عدلیہ کے حکم پر فارغ ہوئے ہیں' دہری شہریت والوں کو استعفے بھی سپریم کورٹ کے حکم پر ہی دینا پڑے ہیں۔
ایک وزیراعظم کو توہین عدالت کیس میں سزا ہونے کے بعد گھر بھی جانا پڑا ہے۔ اس سب کے باوجود یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ سپریم کورٹ نے کوئی فیصلہ آئینی حدود سے باہر جا کر کیا ہے۔ ایوان صدر میں سیاست کے حوالے سے عدلیہ کے احکامات بے شک تناؤ کی کیفیت پیدا کرنے کا باعث بن رہے ہوں۔ اس کے باوجود سسٹم چل رہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا ہے کہ جمہوریت قائم رہنے کے لیے آئی ہے۔ بلوچستان حکومت اور کراچی میں امن وامان کے حوالے سے سپریم کورٹ کے عبوری حکم بھی صدر صاحب اور ان کی حکومت کے لیے پریشانی کا باعث ہوں گے لیکن سسٹم چل رہا ہے۔
اس ساری صورت حال میں وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کا یہ بیان نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ ''ہمیں دیکھنا ہو گا کہ کوئی ہمیں لڑا کر فائد ہ تو حاصل نہیں کرنا چاہتا۔ اسلم بیگ صاحب قانون کی بالادستی جتنی جلد تسلیم کر لیں اتنا بہتر ہو گا۔ ان کی وجہ سے مسائل نہیں بڑھنے چاہئیں۔ نواز شریف درست کہتے ہیں کہ ماضی میں سب سے غلطیاں ہوئیں۔
بعض جرنیلوں نے مارشل لاء لگایا' اعلیٰ عدلیہ کے ججوں نے پی سی او پر حلف اٹھایا' سیاست دانوں نے فوج کو حکومت کرنے کے لیے اپنا کندھا پیش کیا۔ یہ سب ماضی کے قصے ہیں۔ غلطیاں اب بھی ہوتی ہیں لیکن چھوٹی موٹی غلطیوں کو درگزر کر دینا چاہیے۔ چند سیاست دان اگر غلطی کریں تو ساری کمیونٹی کو ہدف تنقید بنانا مناسب نہیں۔ کوئی سابق جرنیل خود کو آئین اور قانون سے بالاتر کہتا ہے تو اس کی وجہ سے پوری فوج پر تنقید مناسب نہیں۔ کسی جج کے بارے میں کچھ نہ ہی کہوں تو مناسب ہے۔
ملکی نظام چلانے کے لیے جمہوریت ضروری ہے۔ آزاد عدلیہ اہم ہے اور سرحدوں کی حفاظت اور دہشت گردوں کے خلاف جنگ کے لیے مضبوط فوج بھی ناگزیر ہے۔ دباؤ سے پاک مگر ذمے دار میڈیا بھی لازمی ہے۔ سب اپنی حدود میں رہیں۔ فکر کی کوئی بات نہیں۔ اب انہونی نہیں ہو گیا۔