کشف وکرامات اور بم دھماکے

حالات کی بہتری کے لیے دعائیں کی جاتی ہیں، لیکن حالات جوں کے توں ہیں۔


Naseem Anjum November 11, 2012
[email protected]

KARACHI: ایک وقت وہ تھا جب بم دھماکے نہیں ہوتے تھے، ہر شخص پرسکون اور خوف سے آزاد تھا، فکر تھی تو معاشی وگھریلو مسائل کی اور بس وہ آزادی سے پارک اور قہوہ خانوں میں بیٹھتا تھا، ساحلِ سمندر کی سیر کرتا اور چاندنی راتوں سے لطف اندوز ہوتا، رہی علم کی بات تو علم کے متلاشی دور دراز کے علاقوں کا سفر کرتے اور جہاں جہاں فیوض و برکات کے چشمے اُبلتے نظر آتے وہ فیض حاصل کرتے، خوب سیراب ہوتے، من کی پیاس بجھاتے اور روح کو غذا فراہم کرتے اور جب اللہ کا قرب نصیب ہو جاتا ہے گیان کی روشنی حاصل ہوجاتی ہے تب وہ اسی روشنی کی تقسیم کے لیے شہر شہر اورگا ؤں گاؤں سفر کرتے اور اللہ کے بندوں کو فائدہ پہنچاتے کہ زندگی کا مقصد یہی ہے۔

راہِ حق کے دیوانوں نے مخلوق خدا کی خدمت کے لیے اپنی زندگیاں وقف کردی تھیں انھی مستانوں میں ایک بڑا اہم نام حضرت لال شہباز قلندر کا بھی ہے جن سے بہت سی کرامات منسوب ہیں اور جنہوں نے دوسرے بزرگان دین کی طرح مختلف علوم کی بیش بہا دولت حاصل کی اور پھر اس کے ذریعے برائیوں کے خاتمے کے لیے کمر بستہ رہے۔

حضرت لال شہباز قلندر کا اصل نام سید عثمان تھا اور لقب لال شہباز قلندر۔ وہ 537ھ مروند (افغانستان) میں پیدا ہوئے اور 673ھ سیہون (سندھ) میں وفات پائی۔ برٹن ہسٹری آف سندھ کے مطابق آپ علم لسانیات اور صرف ونحو یعنی قواعد کے ماہرین میں شمار کیے جاتے ہیں۔

سہون حیدر آباد سندھ سے اٹھاسی میل کے فاصلے پر کیر تھر کی پہاڑیوں میں واقعہ ہے، بعض مورخین کے مطابق اس وقت سہون کا حاکم راجہ جیر جی تھا اور اسی کے اقتدار میں لال شہباز نے سہون کا رخ کیا اور اپنے خدمتگاروں کے ساتھ سہون کے اس علاقے میں رہائش اختیار کی جہاں ناچنے گانے والی رہا کرتی تھیں ۔اس بستی میں چند مسلمان گھرانوں کے علاوہ ہندوؤں کی آبادی تھی، مسلمانوں نے لال شہباز قلندر کے خدمتگاروں سے کہا کہ یہ محلہ آپ جیسے لوگوں کے رہنے کے قابل نہیں چونکہ یہاں ہر شب گناہوں کے بیچ بوئے جاتے ہیں، خدام نے تمام صورتحال سے اپنے پیر و مرشد کو آگاہ کیا۔ لیکن لال شہباز قلندر نے کہا کہ مسلمان ایک چراغ کی مانند ہے جہاں تاریکی دیکھے وہاں چلا جائے۔ ہم یہاں عارضی طور پر نہیں ، مستقلاً رہنے کے لیے آئے ہیں اور ادھر ہی ہماری قبر بنے گی۔

چند دن بعد اس بستی میں حیرت انگیز تبدیلی آئی کہ تماش بین گلی تک آتے لیکن گھبرا کر واپس لوٹ جاتے، گُل فروش انھیںآوازیں دیتے رہ جاتے اس طرح بازارِ حسن کی رونقیں جلد ہی ماند پڑ گئیں اس قسم کی صورتحال سے مایوس ہوکر یہ بازاری عورتیں پہلے لال شہباز سے ملیں اور جب مایوسی ہوئی تو سہون کے حاکم سے فریاد کی، اس نے مدد کا وعدہ کرلیا اور اپنے سپاہیوں کو درویشوں اور ان کے شیخ کو نکالنے کے لیے کہا لیکن سپاہی جب خیمے کی طرف بڑھے تو انھیںیوں محسوس ہوا کہ جیسے ان کے جسم کی پوری طاقت کسی نے چھین لی ہے۔ جب انھوں نے واپسی کے لیے قدم اٹھائے تو ان کی طاقت واپس آگئی، راجہ نے جب اپنے سپاہیوں کی زبانی یہ قصہ سنا تو حیران بھی ہوا اور پریشان بھی۔ ماہر نجوم کو طلب کیا گیا انھوں نے کہا کہ یہ وہی بزرگ معلوم ہوتے ہیں جن کے شاگرد کو آپ نے قید خانے میں اس لیے ڈلوا دیا ہے کہ اس پر الزام تھا کہ راج کماری اس مرید کے عشق میں گرفتار ہوگئی ہے اور یہی وہ نوجوان ہے جو کچھ دن پہلے سہون میں داخل ہوا تھا اور اس نے کہا تھا لوگو! میرا مرشد آرہا ہے میں اس کے استقبال کی تیاریاں کر رہا ہوں اور تم لوگ بھی اگر اپنی بھلائی چاہتے ہو تو اس کو خوش آمدید کہنے کے لیے تیار ہوجاؤ۔

راجہ جیرجی نے شیخ کو نکالنے کی بہت سی ترکیبیں کیں جو سب ناکام ہوگئیں، ایک شب نماز عشاء کے وقت اپنے خدمتگاروں کی موجودگی میں اپنے شاگرد کو مخاطب کیا، جو راجہ کی قید میں تھا۔

بودلہ! اب تم ہمارے پاس چلے آؤ، ہماری آنکھیں تمہیں دیکھنے کے لیے ترس گئی ہیں۔ ادھر شیخ نے بودلہ کو یاد کیا ادھر اس کا زخمی جسم زنجیروں سے آزاد ہوگیا اور یکایک زندان کا دروازہ کھلا، زخمی اور قید میں رہنے کی وجہ سے بودلہ کمزور ہوگیا تھا، لیکن آزادی کے بعد اسے اپنے بدن میں ایک نئی توانائی کا احساس ہوا، کمرے سے وہ باہر آگیا اور دوڑتا چلا گیا، لیکن جب جیل کی دیواروں تک پہنچا تو اس نے حیرت سے دیکھا، اچانک دیوار شق ہوگئی اور اس میں سے راستہ نکل آیا۔

بودلہ اسی راستے پر چلے آؤ، ہم تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔ دوسرے دن راجہ جی کے دربار میں شور مچ گیا، محافظ کہہ رہے تھے کہ''اس سنیاسی نے کس طرح آہنی دروازوں سے اپنے قیدی کو چھڑالیا؟'' یہ تھی حضرت لال شہباز قلندر پر اللہ کی مہربانیاں اور محبت کہ آپ کو کشف و کرامات ظاہر ہوگئی تھیں چونکہ ان دنوں دھماکے نہیں ہوتے تھے، لوگوں کو بے قصور نہیں مارا جاتا تھا، لوگ طلب علم کے لیے مشقت کرتے تھے، اللہ کی رضا اور تسکین دل کے لیے ایک دوسرے کے کام آتے تھے، لیکن آج صورتحال غضبناک ہوچکی ہے، ہر دوسرا شخص ظالم ہے اور اپنے ہی بھائی بند پر ظلم کر رہا ہے۔ بزرگانِ دین کی خدمات نے پورے معاشرے کو بدل ڈالا۔ لال شہباز قلندر کی معرفت اور اسرار کی بدولت سہون میں بھونچال آگیا تھا اور ناچنے گانے والی عورتیں رخصت ہوگئی تھیں، شیخ جی نے اپنے خدام کو ان کے مکانوں کو ڈھانے کے لیے کہا ابھی ایک مکان بھی منہدم نہیں ہوا تھا کہ ایک توانا شخص اور اس کے ساتھی گھوڑے دوڑاتے ہوئے آگئے پھر وہ توانا شخص نیچے اُترا اور بولا تم لوگ کس کی اجازت سے مکانوں کو ڈھا رہے ہو؟ خدمتگاروں نے اعتماد سے جواب دیا اپنے شیخ کے حکم سے۔

کون ہے تمہارا شیخ؟ اسی اثناء میں شیخ اپنے خیمے سے باہر نکل آئے۔ مسلح شخص آگے بڑھا اور لال شہباز قلندر کی شان میں گستاخی کرنے لگا، جواب میں انھوں نے اپنے عصا سے ضرب لگائی، ضرب لگتے ہی وہ زمین پر لوٹ لگانے لگا اس کی وحشتناک چیخوں سے پورا علاقہ گونج اُٹھا اور وہ تھوڑی ہی دیر میں سانسوں سے آزاد ہوگیا۔ اس واقعے کے بعد حاکم سہون سپاہیوں کا دستہ لے کر لال شہباز قلندر کے پاس غیض و غضب میں بھرا ہوا پہنچا اور پچھلے واقعات بتانے لگا۔ لال شہباز قلندر نے بے حد اطمینان سے کہا کہ ہم مسلمان کسی پر جبر نہیں کرتے، زنان بازاری یہاں سے خود گئیں، مکانات ناپاک تھے اسی لیے انھیںگرایا گیا، اور رہا راجپوت زمیندار کا قتل، تو ہم نے نہیں کیا، ہم نے چاہا کہ اس پاگل کو سمجھائیں وہ بھونکتا ہی رہا اور جب وہ کاٹنے کے لیے دوڑا تو بحکمِ خدا ہم نے اسے مار ڈالا اور وہ ادھر ہی دفن ہے۔ بہت دیر تک یہ بحث جاری رہی کہ کتّا دفن ہے یا زمیندار؟ آخر قبر کھودی گئی دیکھنے والے حیران رہ گئے کہ وہاں ایک کتّا دفن تھا۔

عبادت و ریاضت کی بدولت حضرت لال شہباز قلندر کی زبان میں اتنا اثر پیدا ہوا کہ مخلوقِ خدا کے لیے جو دعا کی، جو مانگا وہ ملا۔

ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتیں، اس لیے کہ ہم عام لوگ ہیں اور عام سے بھی وہ جو بُرے لوگ ہوتے ہیں، اسی لیے ہماری زبان کا اثر کہیں گم ہوگیا ہے۔ حالات کی بہتری کے لیے دعائیں کی جاتی ہیں، لیکن حالات جوں کے توں ہیں، سرحدوں کی حفاظت کرنے والے اپنے ہی ملک میں مشکوک اشخاص کی تلاش میں مختلف علاقوں کا آپریشن کر رہے ہیں، لاشیں اُٹھا رہے ہیں۔ رینجرز ہیڈکوارٹر پر خودکش حملہ معمولی بات نہیں ہے۔ مذکورہ حملے میں تین اہلکار شہید اور 21 زخمی ہوئے۔ اس طرح کے حالات آئے دن ظہور پذیر ہوتے ہیں، احتیاطی تدابیر ہر لمحے اور علاقے کے لیے ناگزیر ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں