برسلز لہولہوہے
برسلزمیں حالیہ بم دھماکے اور جانی نقصان غیرمعمولی اہمیت کاحامل ہے
ISLAMABAD:
برسلزمیں حالیہ بم دھماکے اور جانی نقصان غیرمعمولی اہمیت کاحامل ہے،اس لیے نہیں کہ برسلزمیں نیٹوکا ہیڈکواٹر ہے۔ اس کاایک انتہائی اہم پہلواوربھی ہے۔ یورپ میں مسلمانوں کی سب سے زیادہ تعداد بلجیئم میں آبادہے۔ برسلز دارالحکومت بھی ہے لیکن مسلمانوں اورمساجدسے بھراہوا ہے۔ پورے ملک میں مسلمانوں کوکسی قسم کے ریاستی جبر،ظلم یاامتیازی سلوک کاسامنا نہیں۔بلجیئم کی چھ فیصدآبادی اہل اسلام پرمشتمل ہے۔ان کاتعلق ترکی، ایران، پاکستان، فلسطین، مراکش، البانیہ اورمصرسے ہے۔فیلائس دسیتو (Felice Dassetto)کی کتاب کے مطابق چند سالوں میں یہ آبادی ملک کے دس فیصدسے زائد ہوجائیگی۔برسلزمیں اس وقت تین لاکھ سے زائد مسلمان ہیں۔
شائدآپکے لیے یہ حیران کن بات ہوکہ بلجیئم کی ملکی سیاست میں اسلامی سیاسی جماعتیں موجودہیں۔ان کا ایجنڈہ بالکل شفاف ہے۔"اسلام پارٹی"نے 2014ء کے الیکشن میں بھرپورحصہ لیا۔ان کے نکات صرف تین تھے۔اسکولوں میں حلال کھانے کی فراہمی،مسلم تہواروں پرقومی سطح پرچھٹیوں کے اقدامات اورایک ایساقانون جس میں مسلمان خواتین ہرجگہ حجاب پہن سکیں۔ "اسلام پارٹی"نے پوری قوت کے ساتھ الیکشن میں حصہ لیا۔کسی مقامی یامرکزی حکومت کی طرف سے ان کے اظہارکے حق پرکسی قسم کی قدغن نہیں لگائی گئی۔
ایک ایساملک جس میں کسی بھی مذہب پرکسی قسم کی کوئی پابندی نہیں۔جہاں مسلمان سیاسی،سماجی،معاشی اورمعاشرتی طورپربہت تیزی سے مضبوط ہورہے ہیں۔داعش کی جانب سے خودکش دھماکوں سے تیس بے گناہ شہریوں کوقتل کرناسمجھ سے باہرہے۔برسلزکے حالیہ الیکشن میں دومسلمان امیدوار بھاری اکثریت سے جیتے ہیں۔
لوشین جیدگ (Lhocine Jeddig) اور ریٹوؤن آہروش (Redouane Ahrouch) دونوں مسلمان ہیں۔آہروش نے اس سے قبل 1999ء میں بھی چناؤمیں حصہ لیاتھا۔انھوں نے اسی سال "نور"نام کی اسلامی پارٹی بھی تشکیل دی تھی۔اس پارٹی نے چالیس نکات پرمبنی ایک اعلامیہ بھی جاری کیاتھا۔
اس میں سود کے بغیر بینکاری نظام،عدلیہ میں اسلامی قوانین کی ترویج، سزائے موت کادوبارہ اجراء،سگریٹ اورشراب پر پابندی، عورتوںاورمردوں کوعلیحدہ علیحدہ بیٹھنے کاقانون اورجواں عمری (Teenage)کی شادی کوفروغ شامل تھا۔کسی بھی شخص نے مسلمانوں کی اس بنیادپرمخالفت نہیں کی کہ وہ بلجیئم کی روایات کو بدلنے کی کوشش کررہے ہیں۔نکات کی زبانی طورپرمتحارب سیاسی گروہوں نے مخالفت ضرورکی مگراس میں کسی قسم کا تشدد یا زبردستی کاعنصرنہیں تھا۔عرض کرنے کامقصدیہ ہے کہ پورے بلجیئم میں مسلمان تیزی سے پھل پھول رہے ہیں۔اب ایک انتہائی نازک موڑکی جانب آتاہوں۔
بلجیئم میں "(Belgian Salefist Group)بھی موجود ہے۔ان کے رہنما "ابوعمران"انتہائی مشکل باتیں کہتے ہیں۔بلجیئم میں خلافت قائم کرناچاہتے ہیں۔یہ بھی فرماتے ہیں کہ خدامقامی گوروں کو غارت کرے اوران کے ملک(بلجیئم)کوبربادکرے۔یہ تمام فرمودات ایک ایسے ملک کے متعلق ہیں،جس میں خودقیام پذیرہیں۔کسی نے بھی انھیں ملک دشمن،وطن فروش یا غدارنہیں کہا۔ان کواس وقت مقدمات کاسامنا کرنا پڑاجب انھوں نے بلجیئمسے جنگجوبھرتی کرنے شروع کردیے اورانھیںشام اور عراق بھجواناشروع کردیا۔
مغربی ممالک کے معاشرے اکثریتی مسلمان ملکوں سے یکسرمختلف ہیں۔ان میں آزادی رائے،انسانی حقوق، انصاف کی بلاخوف فراہمی اورمعاشرے کے پسے ہوئے طبقوں کواستحکام دیناموجودہے۔آپ ہائیڈ پارک لندن میںجو چاہے،تقریرکرسکتے ہیں۔آپ کسی بھی حکومت،سیاسی شخصیت یاگروہ کے متعلق اپنی بات کہہ سکتے ہیں۔بات کرنے کے حق کوریاستی تحفظ حاصل ہے۔
بدقسمتی سے مسلمان ممالک میں صورتحال گھڑیال کے پنڈولیم کی مانندہے۔کسی بھی حکمران کے متعلق تنقیدکوریاست کی مخالفت کے برابر گرداناجاتاہے۔ترکی کی مثال لیجیے،جہاں ایک موثر جمہوریت موجود ہے۔ مگروہاں آپ ترکی کے صدریاوزیراعظم پرجائزتنقید بھی نہیں کرسکتے۔اخبارات کے دفاتر، نیوز ایجنسیاں اوربے باک صحافی اکثرحکومتی عتاب کاشکاررہتے ہیں۔سعودی عرب،ایران،مراکش یادبئی میں توخیرحکومت سے اختلاف کاسوچابھی نہیں جاسکتا۔ان مسلم ممالک کی جیلیںاورعقوبت خانے اختلاف رائے کرنے والوں سے بھرے ہوئے ہیں۔
قطعاً عرض نہیں کررہاکہ مغربی ممالک میں ہرچیزٹھیک ہے اورمسلمان ممالک میں ہر عنصر خراب ہے۔ میرا استدلال صرف یہ ہے کہ توازن اور غیرمتعصب ذہن سے حقائق کوجاننااورپرکھنابہت ضروری ہے۔نیویارک میں تحقیق کرنے کے لیے ایک فورم ہے جسکا نام گیٹ اسٹون انسٹیٹیوٹ (Gatestone Institute)ہے۔ان میں ایک محقق سورین کیرن (Soeren Kern) ہیں۔انھوں نے بلجیئم کے حالات پربہت جانداراورعمدہ تحقیق کی ہے۔ان کے مطابق مغرب میں مقیم مسلمان ان معاشروں سے وہ تعلیمی اورسماجی فوائدحاصل نہیں کرسکے جودوسرے گروہ تیزی سے کررہے ہیں۔
عجیب ساسچ یہ بھی ہے کہ ہم انتہائی غیرمطمئن اور جذباتی سے لوگ ہیں۔دوسال قبل آسٹریلیاجانے کااتفاق ہوا۔ایک پاکستانی مسلمان تاجرنے اپنے گھر پر مدعو کیا۔ پاکستان کمیونٹی کے تیس چالیس لو گ بھی موجودتھے۔ان سے بھرپورتبادلہ خیال ہوا۔ چندپاکستانی لوگوں کی باتیں بہت حیران کن تھیں۔
ایک صاحب فرمانے لگے کہ آسٹریلیا میں خلافت قائم کرنے کی کوشش کرناچاہتے ہیں۔دریافت کیاتومعلوم ہواکہ وہ چالیس سال سے وہاں رہ رہے ہیں۔اپناپوراخاندان بلکہ گاؤں تک آسٹریلیامیں لے جاچکے ہیں۔ پورے نظام سے بھرپورفائدہ اُٹھارہے تھے۔ سوال کیاکہ حضرت آسٹریلیا تو ایک سیکولریالادین یاکافرمعاشرہ ہے۔یہاں توہرمذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ موجودہیں۔آپ یہ شوق اپنے آبائی ملک میں کیوں پورانھیں فرماتے۔جواب قابل غوربلکہ قابل توجہ تھا۔کہنے لگے کہ آسٹریلیاکاعدالتی نظام بہت بہتر ہے۔
اگریہاں گرفتارہوگئے توانھیں یقیناانصاف مل جائیگا۔ مگر خدانخواستہ اگراپنے آبائی ملک میں اس جرم میں پکڑے گئے تو انھیں انصاف ملنے کی قطعاًامیدنہیں۔میرے لیے یہ جواب حیران کن تھا۔ نشست میں ایک صاحب فرمانے لگے کہ آسٹریلیاآئے ہوئے نوبرس ہوچکے ہیں۔یہاں ٹیکسی چلاتے ہیں۔بقول انکے، آج تک مغربی لباس یعنی کوٹ پتلون زیب تن نہیں کیا۔ہمیشہ کُرتاشلوارپہنتے ہیں۔
بڑی ہمت کرکے پوچھاکہ جناب کیا مقامی سواریاں آپکے لباس کی بنیاد پر آپ سے کوئی امتیازی سلوک تونہیں کرتیں۔ فرمانے لگے کہ اس ملک میں لباس،جلداورعقائدکی بنیاد پر کوئی امتیازی سلوک نہیں۔مگرتھوڑی ہی دیرمیں یہ بھی کہنے لگے کہ یہ ہماراآبائی ملک تونہیں جہاں ہرچیزپرشخصی اوربنیادی اختلاف ہے۔ ساری رات سوچتارہاکہ یہ لوگ آسٹریلیا آکر خوشحال ہوچکے ہیں۔اپنے خاندانوں کی کفالت انتہائی عمدہ طریقے سے کررہے ہیں۔مگر ان ملکوں کے نظام کواپنی خواہشات کے مطابق بدلناچاہتے ہیں۔یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ آبائی ملکوں میں اس جسارت کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتے۔کیاحقیقت میں یہ دوعملی یامنافقت نہیں!
حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی مسلمان ملک میں بھرپور آزادی اظہار،معاشرتی یامعاشی انصاف موجودنہیں ہے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے؟کیایہ اَمرغیرمعمولی نہیں کہ مسلم ممالک سے عام شہری ان تمام مغربی ممالک میں ہجرت کرکے جاناچاہتے ہیں جواکثریت کے نزدیک کافر یا لادین معاشرے ہیں۔ آپ جائزطریقۂ کارکوتوخیررہنے دیجیے۔
کنٹینروں، بکسوں اورکمزورکشتیوںمیںزندگی خطرے میں ڈال کرہرقیمت پران ملکوں میں پہنچناچاہتے ہیں،جہاں وہ چندبرس میں جائز طریقے سے دولتمند ہوکر اپنے عزیز واقارب میں ممتازمقام بناتے ہیں۔مگرپھربھی ان ممالک کی مخالفت کرتے ہیں۔ میری سمجھ سے باہرہے کہ ایسا کیوں ہے۔برسلزکے دھماکوں کی طرف واپس چلتا ہوں۔ ائیر پورٹ پردہشت گردانتہائی اطمینان سے آئے۔ان کی تصاویر ہرچینل اورہراخبارپردکھائی جاچکی ہیں۔ خودکش جیکٹوں اور دھماکا خیزموادسے ائیرپورٹ پر قیامت برپا کر گئے۔
مقتولین میں"پیرو" (Peru)کی ایک خاتون بھی موجود تھیں۔اس کی جڑواں بچیاں دھماکے سے دومنٹ پہلے ائیر پورٹ کے دوسرے حصے میں اتفاقاًچلی گئیں۔معصوم بچیوں کوقطعاًمعلوم نہیں تھاکہ وہ آخری باراپنی ماں کودیکھ رہی ہیں۔ ٹھیک دومنٹ بعد، والدہ بم دھماکے میں جل کرکوئلہ ہوچکی تھی۔گیارہ ہلاکتیں توفوری تھیں۔زخمیوں کی تعداد رجنوں میں تھی۔بالکل اس طرح ٹیوب ٹرین میں خودکش حملہ بھی قیامت ڈھا گیا۔ درجنوں لوگ لقمہ اَجل بن گئے۔
مرنے والوں کاکیاجرم تھا۔کسی کومعلوم نہیں۔خودمارنے والے کو بھی پتہ نہیں کہ وہ کیوں یہ قتل عام کررہاہے۔کئی دنوں سے بین الاقوامی میڈیاپرچوبیس گھنٹے اس ہولناک واردات اوراسکاردِعمل دکھایاجارہاہے۔یہ بات سامنے آئی ہے کہ برسلز اوراس کے ملحقہ علاقے میں اکثر مذہبی حضرات کومشرقِ وسطیٰ کے ایک ملک میں تعلیم دی گئی ہے۔وہ اس ملک سے ایک خاص سوچ لے کرواپس آئے ہیں۔
تمام مغربی ممالک میں مسلمان اپنے آبائی ملکوں سے زیادہ محفوظ ہیں۔ جائزطریقے سے دولت کے انبارلگارہے ہیں۔اپنی آمدنی سے نسلوں کی غربت کو دور کررہے ہیں۔ان ملکوں میں اگرچنددہشت گرد بلاامتیازقتل عام کرتے ہیں تو کیا یہ واقعی ان مسلمان شہریوں کی خدمت ہے جوان ممالک میں قیام پذیر ہیں۔اگر مغربی ریاستیں اپنے مسلمان شہریوں کو نکالنا شروع کردیں تووہ کہاں جائینگے۔سوچنے کی بات ہے کہ برسلز میں دہشت گردوں نے دین اورمسلمانوںکی کونسی خدمت سرانجام دی ہے؟