نسلی امتیاز سے مذہبی امتیاز تک
نسلی امتیازکے حوالے سے دنیا بھر کو مساوات کا درس دینے والا امریکا سرفہرست ہے
نسلی و قومی امتیاز کے تصورات دنیا بھر میں پائے جاتے ہیں۔ لوگوں کی اکثریت اپنی قوم، نسل، مذہب اور نظریے کو دوسروں سے برتر سمجھتی ہے، لیکن معاملہ تب بگڑتا ہے جب خود کو برتر سمجھنے والے دوسروں کو کم تر خیال کرتے ہوئے ان کو ذہنی و جسمانی اذیتوں سے دوچار کرنے لگیں۔ یہ رویے نفرتوں، لڑائی جھگڑوں اور خون خرابے کا سبب بنتے ہیں۔ 21 مارچ کو دنیا بھرمیں نسلی امتیاز کے خاتمے کا عالمی دن قرار دیا جاتا ہے۔ یہ دن 21 مارچ 1960 کو جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کے قوانین کے خلاف احتجاج کے دوران پولیس کی فائرنگ سے مرنے والے 60 افراد کی یاد میں منایا جاتا ہے۔
پہلی بار نسلی امتیاز کے خاتمے کا عالمی دن 1966 میں منایا گیا۔ اس دن دنیا بھر میں نسلی امتیاز کے خلاف شعور اجاگر کرنے کے لیے تقریبات منعقد کی جاتی ہیں، جن کا مقصد عالمی سطح پر رنگ و نسل کے امتیاز کو پس پشت ڈال کر سماجی اور مذہبی رواداری کو فروغ دینا ہے۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی دنیا بھر میں اس حوالے سے منعقد کی گئیںمختلف تقاریب میں نسلی امتیاز برتنے کی مذمت کی گئی ہے، لیکن برسوں سے مختلف فورمز پر نسلی امتیاز کی مذمتوں کے باوجود اس کا خاتمہ ممکن نہیں ہوسکا۔ آج بھی دنیا کے مختلف خطوں میں لوگوں کو رنگ و نسل کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔
اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ نسلی امتیازکے حوالے سے دنیا بھر کو مساوات کا درس دینے والا امریکا سرفہرست ہے، جہاں نسلی امتیاز معاشرے میں بری طرح سرائیت کرگیا ہے۔ سفید فام امریکی ہمیشہ سے نسلی امتیاز میں مبتلا رہے ہیں۔ نسلی امتیاز کے اسی غرور نے امریکا میں انسانی غلامی کی داغ بیل ڈالی۔ سیاہ فام امریکیوں نے کم وبیش ساڑھے تین سو سال غلامی کی زندگی گزاری ہے۔ غلاموں کی طرح ان کی خریدو فروخت کی جاتی اور ان پر ظلم وستم کی انتہا کی جاتی رہی۔سیاہ فاموں نے انیسویں صدی میں غلامی کے خاتمے کی تحریک شروع کی۔ اس تحریک کے بطن سے خوفناک خانہ جنگی نے جنم لیا، جس کے نتیجے میں امریکا میں سیاہ فاموں کے لیے بھی ملکی شہریت اور انسانی حقوق تسلیم کیے گئے، لیکن اس کے باوجود بھی سفید فام سیاہ فاموں کو امریکی شہری تسلیم کرلینے سے برابر کا درجہ دینے کو تیار نہیں تھے۔
1960 کی دہائی میں شہری حقوق کے حصول کے لیے ایک بار پھر تحریک شروع ہوئی، جس کے نتیجے میں سیاہ فاموں کو بڑی حد تک حقوق حاصل ہوئے، لیکن آج بھی سفید فاموں کے دل ودماغ میں نسلی امتیاز کا غرور بہ دستور سمایا ہوا ہے، جس کا اظہار مختلف واقعات سے ہوتا رہتا ہے۔ آج بھی سیاہ فام امریکی باشندے نسلی امتیاز کا شکار ہیں۔ نسلی امتیازکی بنیاد پر ہی اکثروبیشتر سفید فام سیاہ فاموں کو قتل کردیتے ہیں۔ گزشتہ سال بھی نسلی امتیاز کی بنیاد پر سفید فام پولیس اہلکار نے سیاہ فام کوگولی مارکر قتل کردیا تھا، جس کے بعد امریکا میں پرتشدد مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔
نسلی امتیاز نے بھارت کو بھی بری طرح اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ بھارت میں لوگ ذات کے اعتبار سے برہمن، کھشتری، ویش اور شودر چار درجوں میں تقسیم ہیں، جن میں سے ہر ایک کی الگ حیثیت ہے۔ بھارت میں چھوٹی ذات سے تعلق رکھنے والے 35 سے 40 کروڑافراد کو آج کے جدید دور میں بھی نسلی امتیازکا سامنا ہے۔ ایسے افراد کو بھارت میں اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کا حق حاصل نہیں ہے اور یہ لوگ معاشرے میں اپنے بنیادی مقام کو حاصل کر نے سے بھی محروم ہیں۔
اگر ہم اپنے معاشرے کی بات کریں تو یہاں بھی مختلف ذاتوں اور اقوام کو گھٹیا سمجھنے کا تصور موجود ہے۔ جاگیر دار، وڈیرے اور زمیندار ملازمین کے ساتھ غلاموں کا سا سلوک کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں رنگ کی بنیاد پر بھی امتیاز رکھا جاتا ہے۔ زبان، صوبے اور علاقے کی بنیاد پر بھی ہمارے ہاں خاصا تعصب پایا جاتا ہے۔اسلام امتیازکی ان تمام شکلوں کی سختی سے مذمت کرتا ہے اور تمام انسانوں کو برابر قرار دیتا ہے۔
دوسری جانب نسلی امتیاز مذہبی امتیاز میں ڈھلتا جا رہا ہے اور دنیا بھر میں مذہب کی بنیاد پر لوگوں سے غیر منصفانہ رویہ روا رکھا جارہا ہے۔گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ دنیا کے تمام خطوں میں مذہب کی بنیاد پر سماجی نفرت اور پابندیوں نے نئی بلندیوں کو چھوا ہے۔ حکومتوں اور مخالف عقیدے کے لوگوں کے ہاتھوں مختلف مذاہب کے ماننے والے لوگوں کے خلاف تشدد اور امتیاز میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس حوالے سے مسلمان سرفہرست ہیں، جن کو دنیا بھر میں سب سے زیادہ مذہبی امتیاز کا سامنا ہے۔ اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف گزشتہ ڈیڑھ عشرے میں مسلم ممالک میں بین الاقوامی مداخلت سے ہونے والی جنگوں اور خانہ جنگیوں میں اب تک 40 لاکھ مسلمان اپنی جان کی بازی ہارچکے ہیں۔
میا نمار، فلسطین، کشمیر، عراق، افغانستان اور دیگر خطوں میں مسلمان بد ستور مذہبی امتیاز کا شکار ہیں۔ 2001 کے بعد امریکا کی جانب سے شروع کی جانے والی ''وار آن ٹیر رازم'' میں قتل کیے جانے والے 40 لاکھ مسلمانوں کے حوالے سے امریکا کے ہی ادارے نیشنل کاؤنٹر ٹیر رازم سینٹر کے مطابق 82 سے 97 فیصد نشانہ بننے والے افراد عام شہری ہیں، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسے نشانہ بننے والے افراد صرف مذہبی امتیاز کا ہی شکار ہوئے ہیں۔
صرف مذہب کی بنیاد پر میانمار میں مسلمانوں کو زندگی کے بنیادی حقوق سے محروم کردیا گیا ہے۔ ان کو نہ صرف طرح طرح کے مظالم کا نشانہ بنایا جاتا ہے، بلکہ ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کو قتل بھی کیا گیا ہے۔ فلسطین میں بھی مسلمانوں پر مظالم کی صورتحال کچھ مختلف نہیں ہے۔ قابض اسرائیل نے فلسطینیوں کو ان کی بستیوں سے بے دخل کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے اور اسرائیل کی جانب سے آئے روز بے گناہ فلسطینیوں پر ظلم و ستم کی نئی تاریخ رقم کی جاتی ہے۔
کشمیر میں بھی بھارتی افواج صرف آزادی کے مطالبے کی پاداش میں ہزاروں بے گناہ مسلمان افراد کی جانیں لے چکی ہے اور خواتین کی عصمت دری اور نوجوانوں کی گرفتاریوں کا تسلسل بھی جاری ہے۔ مذہبی امتیاز کی بھیانک صورت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت میں دکھائی دیتی ہے، جہاں صرف مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں کے لیے عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے اور بھارت میں موجود لگ بھگ 30 کروڑ مسلمانوں کی آبادی عدم تحفظ کا شکار ہے۔ مسلمانوں کو اپنے مذہبی رسم ورواج کیمطابق زندگی گزارنے کی اجازت نہیں۔ گائے کا گوشت کھانے پر مسلمانوں کو تشدد آمیز صورتحال کا سامنا ہے۔
گزشتہ دنوں صرف گائے خریدنے کے جرم میں دو مسلمانوں کو قتل کردیا گیا، اس سے پہلے گائے کا گوشت صرف فریج میں رکھنے کے شبہ میں دو مسلمانوں کو قتل کردیا گیا تھا۔ بھارت میں اس قسم کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ یورپ میں بھی مسلمانوں کو بدترین مذہبی امتیاز کا سامنا ہے۔ متعدد ممالک میں اسلام پر پابندی لگادی گئی ہے۔ نماز روزے، حجاب اور داڑھی کی وجہ سے مسلمانوں کو مختلف طریقوں سے تنگ کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے یورپ میں داخلے اور مساجد پر پابندی لگانے کی باتیں کی جاتی ہیں اور نعوذباللہ قرآن مجید اور نبی علیہ السلام کی توہین کی جاتی ہے۔ یہ صرف مذہب کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔امریکا اور دیگر ممالک عراق و افغانستان سمیت متعدد مسلم ممالک میں مسلمانوں کا قتل عام کرنے میں مشغول ہیں، لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔