ٹوئنٹی20 ورلڈ کپ میں قومی ٹیم کا سفر تمام

صرف کھلاڑی نہیں، سب کا احتساب ہونا چاہیے


Mian Asghar Saleemi March 27, 2016
صرف کھلاڑی نہیں، سب کا احتساب ہونا چاہیے۔ فوٹو: فائل

MULTAN: کہتے ہیں کہ کسی ملک کی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کی کارکردگی میں کوئی تسلسل نہ تھا، اگر بیٹسمین ایک میچ میں اچھی پرفارمنس دکھاتا تو اگلے دس، پندرہ میچوں میں بری طرح ناکام ہو جاتا، جب اسکواڈ سے باہر ہونے لگتا تو ایک بار پھر اچھی اننگز کھیل کر مزید کچھ عرصے کے لئے ٹیم میں جگہ پکی کر لیتا۔

ٹیم کی اس خامی اور پلیئرز کی چالاکی پر قابو پانے کے لئے اس ملک کے کرکٹ بورڈ نے انتہائی مہنگے معاوضے پرکوچ کی خدمات حاصل کیں، نئے کوچ نے ٹیم کے ساتھ طویل نشست کا اہتمام کیا، انٹرنیشنل کرکٹ میں اپنے کارناموں کا خوب تذکرہ کیا، میٹنگ کے فوری بعد بیٹ ہاتھ میں تھاما اور بیٹنگ کے لئے وکٹ پرپہنچ گیا، تمام کھلاڑی بہت خوش تھے کہ اب ہمیں بیٹنگ کرنی آ ہی جائے گی، بولر آیا، اس نے گیند کی اور کچھ ہی لمحوں میں کوچ کی وکٹیں ہوا میں اڑتی دکھائی دیں، کوچ ساری صورتحال بھانپ گیا، شرمندہ ہونے کی بجائے فوری کہا میں آپ کو بتانا چاہتا تھا کہ آپ نے اس طرح بیٹنگ نہیں کرنی جس طرح میں نے کی، یہ لطیفہ نما کہانی میرے ایک دوست نے ٹوئنٹی20 ورلڈ کپ میں قومی ٹیم کی پے در پے شرمناک ناکامیوں کے بعد سنائی۔

میں نے اس کی باتوں پر غور کیا تو مجھے یہ کسی اور ملک کی نہیں بلکہ اپنی قومی کرکٹ ٹیم کی کہانی دکھائی دی اور یہ بات بھی سچ ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے وقار یونس کو 16 لاکھ روپے سے بھی زائد ماہانہ معاوضے پر ٹیم کا ہیڈ کوچ بنایا، یہ صاحب جب سے کوچ بنے ہیں، عالمی مقابلوں میں مایوسیاں اور ناکامیاں گرین شرٹس کا مقدر بن گئی ہیں، بھارت میں جاری ٹوئنٹی20 ورلڈ کپ کے لئے جس غیر پروفیشنل انداز میں تیاریاں کیں گئیں، سلیکشن کمیٹی کے سربراہ ہارون رشید کے ساتھ مشاورت سے جس ٹیم کا انتخاب کیا گیا، وہ کرکٹ کی الف ب جاننے والوں کی بھی سمجھ سے بالا تر ہے۔

برصغیر کی وکٹوں پر سپنرز کی بجائے ایسے فاسٹ بولروں پر انحصار کیا گیاجو بوکھلاہٹ کا شکار نظر آئے، ورلڈ کپ کے آسٹریلیا کے خلاف شیڈول میچ کو ہی لے لیں، شاہین کینگروز کو بولنگ کرتے ہوئے اتنے خوف زدہ تھے کہ بولرز کو سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کہ وہ کریں تو کیا کریں، سٹیون سمتھ نے وہاب ریاض کی ایک گیندکئی فٹ دور جا کر کھیلی، اگر اس موقع پر وہاب بال سیدھی وکٹوں پر کراتے تو وہ بڑی آسانی کے ساتھ سمتھ کو بولڈ کر سکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہ کیا، بلکہ سمتھ کا پیچھا کیا اور انہیں آف سٹمپ کے مزید باہر بال کرائی، جسے بیٹسمین نے آف سائیڈ کی بجائے بڑے اطمینان سے لیگ سائیڈ پر فِلک کر دیا۔

مقابلوں کے دوران ہی چیئرمین پی سی بی بیان دیتے رہے کہ موجودہ ٹیم سے سیمی فائنل تک رسائی کی امید نہیں کی جا سکتی جبکہ کپتان اور کوچ بھی ایونٹ کے بعد ذمہ داریوں سے سبکدوشی اختیار کرنے کی باتیں کرتے رہے، بھارتی ٹیم کے کپتان مہندرا سنگھ دھونی نے 19 مارچ کو کولکتہ کے ایڈن گارڈن سٹیڈیم میں قومی ٹیم کو دھول چٹانے کے بعد بڑے فخریہ انداز میں بیان دیا تھا کہ یہ تو وہ پاکستانی ٹیم ہی نہیں ہے جس سے ہم ماضی میں مقابلے کرتے آئے تھے، ایک اور بھارتی کھلاڑی کے مطابق پاکستان گزشتہ 10 برسوں میں ایک بھی اعلی پائے کا کھلاڑی تلاش نہیں کر سکا، جب پاکستانی ٹیم کی اپنی کارکردگی ہی ناقص ہو گی تو غیروں کو تو اس طرح کی باتیں کرنے کا موقع ملے گا۔

25 مارچ کو آسٹریلیا کے ہاتھوں رسوائی اورعالمی کپ سے باہر ہونے کے بعد اب غیر تو درکنار اپنے بھی قومی ٹیم کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔ سابق ٹیسٹ کرکٹرز اور کرکٹ شائقین میں جہاں غم وغصہ کی فضا پائی جا رہی ہے وہاں سوشل میڈیا پر بھی ایک طوفان مچا ہوا ہے، ایک شائق کے مطابق اب یہ سب کے دیکھنے کے لیے واضح ہے کہ ہم سمیع کی پیس کا کیا کریں، عرفان کے قد یا وہاب کے باؤنسروں کا کیا کریں، اگر وہ وکٹیں نہیں لے سکتے؟ سب کچھ ہو جانے کے بعد بھی کچھ نہیں بدلے گا، کچھ ذمہ دار لوگوں کے پی سی بی کے اندر ہی مختلف شعبوں میں تبادلے ہوں گے، اور یہ قوم سب کچھ بھول جائے گی۔

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ کھلاڑی قوموں میں محبت بانٹتے اور روٹھے دلوں کو آپس میں ملاتے ہیں، لیکن پاکستان میں وہ کون سا کھیل ہے جس کے میچز پوری قوم سارے کام کاج چھوڑ کر دیکھتی اور رو رو کر ٹیم کی فتح وکامرانی کے لئے دعائیں کرتی ہوئی نظر آتی ہے، وہ کون سا کھیل ہے کہ جس کے جیتنے کی خوشی میں فائرنگ کی گونج اور ڈھول کی تھاپ پر رقص و بھنگڑے ڈالے جاتے ہیں۔

وہ کون سا کھیل ہے جس میں فتح کی خوشی میں شکرانے کے نوافل ادا کئے جاتے ہیں اور دیگوں کے منہ کھول دیئے جاتے ہیں، کس کھیل میں جیت کر پورے ملک کے طول وعرض میں سیکڑوں من مٹھائیاں تقسیم ہوتی ہیں اور شکست کی صورت میں شائقین غم زدہ ہو کرکھانا پینا چھوڑ جاتے ہیں اورکئی کمزور حضرات زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں، اس پس منظر میں وہ کھیل کرکٹ ہی ہے جس کے مقابلوں کے دوران عوام کی نبضیں اور سانسیں قابو میں نہیں رہتیں، وقت تھم جاتا ہے اور ٹریفک کے اژدہام کو کرکٹ کا دیوہیکل اژدھا نگل جاتا ہے۔

مشہور کہاوت ہے کہ جس طرح خیالی پلاؤ سے ناقابل تسخیر قلعے تعمیر نہیں کئے جا سکتے، بڑے بڑے معرکے سر نہیں کئے جا سکتے،انہونی کو ہونی اور ناممکن کو ممکن نہیں بنایا جا سکتا، اسی طرح من پسندکھلاڑیوں سے بنائی ہوئی ٹیمیں محض حب الوطن پاکستانیوں کے بھنگڑوں، نعروں، بڑھکوں سے میچز نہیں جیت سکتیں۔ قوم تو ہمیشہ ہی اپنے پلیئرز کی کامیابیوں کے لئے دعا گو رہتی ہے، کیا یہ سچے پاکستانیوں کی سچی اور کھری دعائیں نہیں تھیں کہ ورلڈ کپ1992ء کے دوران پاکستان کا 74 رنز بنانے کے باوجود بارش کی وجہ سے انگلینڈ کے خلاف میچ کا ٹائی ہو جانا اور آسٹریلیا سے ویسٹ انڈیز کی جیت کی وجہ سے پاکستانی ٹیم کو سیمی فائنل تک رسائی ممکن ہوئی اورتمام تر نامساعد اور مشکل حالات کے باوجود گرین شرٹس میگا ایونٹ کا ٹائٹل پہلی بار لے اڑے۔

ہم تو لاچار، بے کس، مجبور اور غریب عوام ہیں، ہمیں تو روزی روٹی ہی سے فرصت نہیں ملتی، ہمیں کیا سوجھ بوجھ کہ پی سی بی کے ہیڈ کوارٹر قذافی اسٹیڈیم کے وی آئی پی کمروں میں بیٹھ کر ارباب اختیار کیسے کیسے عجیب وغریب فیصلے کرتے ہیں، میرٹ کے نام لیوا کس طرح خود ہی اس کی دھجیاں اڑاتے ہیں، اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لئے کس کس کا کیریئر گول کر کے کس کس کو نوازتے ہیں،یہی حال ہمارا ٹوئنٹی 20 ورلڈکپ کے لئے ٹیم کا انتخاب کرتے وقت بھی تھا، مس پلاننگ اور سفارشی ٹیم ہونے کی وجہ سے غیب کا مالک تو راضی تھا نہیں پھر خوشبوؤں بھرے مہکتے پھول پی سی بی کے کرتا دھرتاؤں کے گلوں کی زینت کیوں کر بنتے اور وہ مبارکبادیں کیونکر وصول کرتے پھرتے۔

میگا ایونٹ کے سکواڈکا انتخاب کرتے وقت جو ہم نے بویا تھا وہ کاٹ لیا، اب افسوس، گریہ زاری، آہ وبکا کیوں؟ کس لئے ٹیم کا پوسٹ مارٹم کرنے اور کھلاڑیوں کو بڑھکوں اور طعنوں کی سولی پر چڑھانے کی باتیں کی جا رہی ہیں، کیا پی سی بی کے لگژری کمروں میں بیٹھ کر ٹیم کا انتخاب کرنے والے بھول گئے تھے کہ پاکستانی ٹیم کا مقابلہ کسی ایری غیری یا نتھو خیری ٹیم سے نہیں بلکہ دنیا کی نمبر ون ٹیم کے ساتھ تھا۔وہ ٹیمیں جو اپنے ہوم گراؤنڈ اورکراؤڈ میں بڑے بڑوں کے چھکے چھڑا دیتی ہے اور آپ نے ایسے کھلاڑیوں کو ورلڈ کپ کا پروانہ تھما دیا جن کی فٹنس ہی مشکوک تھیں، یا جن کی کارکردگی پر پہلے ہی سوالیہ نشان تھے۔

ہارون رشید صاحب آپ نے تو زندگی کا بڑا حصہ کھیلوں کے میدانوں میں گزارا ہے، کیا آپ نہیں جانتے کہ قومی اسکواڈز وی آئی پی کمروں میں بیٹھ کر تشکیل نہیں دیئے جاتے بلکہ اس کے لئے محنت کرنا پڑتا ہے، دن رات ایک کرنا پڑتا ہے۔آپ یہ سبق کیوں بھول گئے کہ جب بارشیں ہوتی ہے تو لہلہاتی فصلیں انھیں سرزمینوںکی زینت بنتی ہیں جہاں لوگوں نے محنت کی ہوتی ہے باقی جگہ جنگلی جھاڑیاں ہی اگتی ہیں، آپ پہلے چیف سلیکٹر بنے تو آپ کی بنائی ہوئی ٹیموں نے شکستوں اور ناکامیوں کی ایسی داستانیں رقم کیں کہ جس کی بازگشت دنیا بھر میں سنائی دیتی رہی اور اب ورلڈکپ کے پہلے ہی مرحلے سے باہر ہونے کے بعد گرین شرٹس کا دنیا بھر میں مزاق اڑایا جا رہا ہے۔

شائقین کرکٹ پوچھتے ہیں کہ کہاں ہے پی سی بی کا وہ میڈیکل بورڈ جسے ان فٹ کھلاڑی ہی نظر نہیں آتے، کیا ممبران کو بورڈ سے لاکھوں روپے تنخواہیں، وی آئی پی دفتر، بڑی بڑی گاڑیوں میں پھرنے اور دنیا بھر کے سیرسپاٹوں کے مواقع اس لئے دیئے جاتے ہیں کہ وہ اپنے فرائض سے غفلت برتیں اور اپنی آنکھوں پر مصلحت کوشی کی سیاہ پٹی باندھ کر ''سب اچھا ہے'' کی رپورٹس جاری کرتے رہیں۔

غربت، بیروزگاری، بھوک،ننگ افلاس کے مارے ہوئے لوگوں نے تو اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر دولت کے خزانے آپ پر لٹا دیئے لیکن بدلے میں آپ نے ہمیں کیا دیا، ذلت، رسوائی اور شرمندگی۔ مشہور کہاوت ہے کہ جس طرح چپوؤں کے بغیر کشتی نہیں چلائی جا سکتی، بالکل اسی طرح ہمت، جرأت اور بہتر فیصلوں کے بغیرعالمی سطح پر کامیابیوں کے جھنڈے نہیں گاڑھے جا سکتے لیکن افسوس، ہم لوگ برف کو آگ کہہ کر پہاڑوں میں گرمی پیدا کرنا چاہتے ہیں اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ کر بڑے کارنامے انجام دینا چاہتے ہیں۔

اب ٹوئنٹی20 ورلڈ کپ میں ٹیم کی ناقص کارکردگی پر قربانی کے بکرے تیار کئے جائیں گے، آپریشن کلین اَپ کے نام پرکچھ کرداروں کو گھر بجھوایا جائے گا اور پاکستان کرکٹ بورڈ میں سالہا سال سے راج کرنے والے عہدیدار مزید ذمہ داروں کے خلاف شکنجہ کسنے کے نعرے لگائیں گے اور بعد میں چین کی بانسری لے کر اقتدار کے مزے لوٹیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں