مارٹن لوتھر سے پاکستان تک
یہ واقعہ راقم کو اس لیے یاد آیا کہ آج کل نظریاتی مباحث کرنے کی کوششیں بھی کچھ اس ہی رنگ میں کی جا رہی ہیں
ایک مرتبہ مشہور باکسر محمد علی اورجاپان کے مشہور پہلوان اورکراٹے ماسٹر انوکھی کا مقابلہ ہوا، دونوں کے فن کے دائرے چونکہ مختلف تھے، لہٰذا دونوں اپنی اپنی مہارت کے اعتبار سے داؤ پیچ کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ باکسر محمد علی کی کوشش تھی کی وہ کسی طرح سے انوکھی کے چہرے پر ضرب مار دے لیکن نیچے نہ گرے کیونکہ اگر وہ نیچے ایک بارگرگیا تو پھردوبارہ اٹھنے کی مہلت نہ ملے گی اور وہ مقابلہ ہار جائے گا۔
اسی طرح انوکھی کی کوشش تھی کہ وہ کھڑا ہوکر نہ لڑے بلکہ نیچے لیٹ کے کسی داؤ سے محمد علی کو گرا لے کیونکہ وہ کشتی کے داؤ پیچ بہت اچھی طرح جانتا تھا۔دونوں اسی کوشش میں لگے رہے حتیٰ کہ مقابلے کا وقت ختم ہوگیا اور یو ں کوئی فیصلہ نہ ہوسکا۔دنیا میں اس نوعیت کا شاید یہ واحد واقعہ ہوکہ جس میں دو مقابلہ کرنے والے دو مختلف میدانوں سے تعلق رکھتے ہوں ۔
یہ واقعہ راقم کو اس لیے یاد آیا کہ آج کل نظریاتی مباحث کرنے کی کوششیں بھی کچھ اس ہی رنگ میں کی جا رہی ہیں۔کہیں سول مذہبی نظریات کو توکہیں لبرل نظریات وغیرہ کو میدان میں لاکر عقلی دلائل سے دین اسلام کا مقابلہ کرکے نتائج حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ذرایع ابلاغ کے ذریعے اس کی اس طرح سے تشہیر بھی کی جا رہی ہے ۔
دین اسلام میں عقل کو بڑی اہمیت حاصل ہے،عقل کی کئی اقسام ہیں مثلاً عقل سلیم، عقل محض، عقل کا استعمال بطور جز ، بطورکلیت، بطور صلاحیت اور بطور ذریعہ۔ دنیا کی کسی بھی تہذیب میں عقل بحیثیت قدر، کلیت یا محض استعمال نہیںہوئی۔ دین میں بھی کچھ مسلمات پرایمان لانے کے بعد عقل کا استعمال کیا جاتا ہے مثلاً وحی کوعقل سے ثابت نہیں کیا جا سکتا مگر اس پر ایمان لائے بغیردین کے دائرے یعنی اسلام میں داخل نہیں ہوا جاسکتا۔ دین نے جب کہہ دیا کہ وحی کا بھی وجود ہے تو پھرعقل کی بنیاد پر اسے رد نہیں کیا جاسکتا، عقل کہتی ہے کہ زندگی دوبارہ نہیں ملتی، لہٰذا کسی بھی جرم کی سزا موت نہیں ہونی چاہیے مگر دین پر ایمان ہے تو پھرسزائے موت کے قانون کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا۔
گویا کسی نے اگر دین پر رہنا ہے تو اس کے اصولوں کو تسلیم کرنا پڑے گا لیکن اگر عقل کو حتمی فیصلے کا اختیاردینا ہے تو پھراپنے آپ کو دین کے دائرے سے باہرسمجھنا ہوگا۔ عقلیت پسندی کے بانی کانٹ نے ایک ڈاکٹر سے لے کر مذہب تک تمام کی اتھارٹی کو ختم کرکے عقل کی بنیاد پر فیصلے کرنے کا تصور پیش کیا مگر جواباً اس پر بھی اعتراض ہوا کہ جناب آپ نے بھی تو عقل کو ایک اتھارٹی کا مقام دے دیا ہے۔
ڈیلیوزکہتا ہے کہ دنیا کے ہر فلسفے میں ایک اتھارٹی پر ایمان لانا ہوتا ہے چنانچہ عقلیت پسندی میں بھی آپ کو عقل پر ایمان لانا ہوتا ہے۔ جس طرح کسی بھی چیز یا نظریے کی کوئی تعریف ہوتی ہے اوراس کا اپنا ایک دائرہ ہوتا ہے، بالکل ویسے ہی اگر اس چیز یا نظریے کے مخصوص دائرے میں کوئی دوسری چیزیا نظریے کو شامل کرکے اضافے کی کوشش کی جائے تو وہ چیز یا نظریہ ہی بدل جائے گا۔سول رلیجن ہو،لبرل یا سیکولر نظریات یا کہ کانٹ جیسے مفکرکے روشن خیالی کے نظریات ہوں، یہ تمام تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ایک الگ دائرہ رکھتے ہیں اور یہ بھی اپنی اپنی ایک ایسی اتھارٹی رکھتے ہیں کہ جس پر ایمان لانا لازمی ہوتا ہے۔
اسی طرح دین اسلام کا ایک اپنا دائرہ ہے،جب آپ ﷺ نے تبلیغ کا آغاز کیا تھا تو اس وقت ہی مخالفین نے یہ پیش کش کردی تھی کہ نظریات کی سطح ُ ُپرکچھ لو اورکچھ دو کی بنیاد پر مفاہمت کرلی جائے یعنی کچھ وہ اورکچھ آپﷺ ایک دوسرے کے نظریات پر سمجھوتہ کر لیں، مگر آپ ﷺ نے قطعی طور پر یہ پیش کش مسترد کردی تھی کہ جو اللہ تعالیٰ کا دین ہے اس میں کسی قسم کی ملاوٹ کی گنجائش نہیں گویا دین اسلام کا ایک اپنا دائرہ ہے ۔
دوسری جانب اب یہ سلسلہ چل نکلا ہے کہ عقلی بنیادوں پر دلائل دے کر دین اسلام کی نئی تصویر پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور دین اسلام میں عقلی بنیادوں پر ترمیم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ سیاسی شخصیات بھی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے ' سول ریلیجن ' کی طرف قدم بڑھاتی نظر آرہی ہیں تو ذرایع ابلاغ سے وابستہ کچھ لوگ بھی آگے آگے دکھائی دیتے ہیں۔
24 مارچ کو سندھ حکومت نے ہولی پرعام تعطیل کا اعلان کیا، ایک ٹی وی چینل کی میزبان نے ہولی کی تقریبات میں جاکر خود بھی ہولی منائی اورکہا کہ یہاں کچھ مسلمان بھی ہولی منانے آئے ہیں اور یہ اچھی بات ہے اور مسلمانوں کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے کہ اس سے محبت بڑھتی ہے۔ اس واقعے کے اگلے روز جامعہ کراچی میں ملک کے ایک معروف دانشور اورکالم نگار طلبہ کو لیکچر دینے آئے باتیں تو انھوں نے بہت اچھی کیں لیکن انھوں نے بھی عقلی بنیادوں پر دین اسلام میں ترمیم کے پہلو نکال لیے مثلاً آسکر ایوارڈ حاصل کرنے والی شرمین عبید کو ایک طرح سے ماڈل قرار دیدیا اور سزائے موت کو عقلی بنیادوں پر غلط قرار دیا ،حالانکہ دین اسلام میں اس کی کوئی گنجائش ہی نہیں ۔
ان کے ساتھ کئی اور روشن خیال افراد نے بھی ساتھ دینے کی کوشش کی جن میں امریکا سے آئی ہوئی ایک خاتون صحافی بھی تھیں ۔ یوں ایک ایسی بحث کافی دیر تک چلی جس میں دین اسلام کے عقائد پر عقلی بنیادوں بھی گفتگو جاری رہی ،لیکن لاحاصل رہی کیونکہ ایک جانب تو سوچ دین اسلام کے دائرے میں تھی تودوسری جانب عقلی دلائل کے دائرے میں تھی۔
یعنی ایک جانب عقلی دلائل کے ذریعے اوردوسری جانب دینی عقائد کے دلائل سے فیصلہ کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی، بات یہ ہے کہ عقلیت پسندی اور دین دونوں الگ الگ دائرے ہیں اور دونوں میں الگ الگ اتھارٹی پر ایمان لانا ہوتا ہے اگر آپ نے صرف عقل کو'کل' سمجھنا ہے تو دین کو ایک طرف رکھنا ہوگا اوراگردین پر ایمان لانا ہے تو پھر عقل کو دین کے تابع کرنا ہوگا یعنی عقل کو بطور کلیت یا قدر استعمال نہیں کرنا ہوگا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مذہبی عمارت کی بنیاد عقلی دلائل پر نہیں عقیدے کی بنیاد پرکھڑی ہوتی ہے، مذہب میں عقل ایک آلے ( ٹول) کے طور پر استعمال ہوتی ہے،یہی اصول دنیا کی ماضی کی مختلف تہذیبوں میں بھی رہا ہے ۔
اس اصول کو جب بھی توڑا جائے گا تو مذہب خود بخود الگ ہوجائے گا۔ یہی کچھ مغرب میں روشن خیالی کی تحریک سے اور ان مفکرین کے خیالات اپنانے سے ہوا کہ جنھوں نے عقل کو ہی 'کل' قرار دیا۔ آج مغرب میں مارٹن لوتھرکی تحریک کے بعد آزادی کا دائرہ اس قدر وسیع ہوا کہ اب عیسائی مذہب کے برعکس شادی کے لیے قانوناً ہم جنس کا انتخاب بھی کیا جاتا ہے اور ایک مفکر نے عقلی بنیادوں پر مزیدکہاکہ آزادی ابھی مکمل ہی کہاں ہوئی ہے ابھی تو محرم اور نامحرم کا فرق ایک آزاد فرد کی شادی کی راہ میں حائل ہے۔
عقلی اعتبار سے تو یہ باتیں درست ہیں پر مذہب کے لحاظ سے نہیں ،کیونکہ مذہب کا دائرہ الگ ہے اورعقل کی بنیادوں پر زندگی گزارنے کا فلسفہ الگ ہے۔ جس تیزی سے دین اسلام کے دائرے میں آج عقلی بنیادوں پر نظریات پھیلانے کی کوششیں ہو رہی ہیں کچھ لوگوں کی نظر میں وہ اچھے تو ہو سکتے ہیں مگر انھیں اسلامی قطعی قرار نہیں دیا جاسکتا، تعلیمی اداروں کی سطح پر بھی اس قسم کی روشن خیالی پھیلا کر مغرب کے طرز پرکوئی ''پروٹسٹنٹ تحریک'' چلا کر،مارٹن لوتھر جیسے مفکر پیدا کرکے کوئی نیا فرقہ تو شاید پیدا کیا جا سکتا ہے۔
''دین اکبری'' تو پیداکیا جا سکتا ہے مگر اس کو اسلام کا نام نہیں دیا جاسکتا کہ دین اسلام کی اپنی شناخت اور شرائط ہیں کہ جس میں عقل کو بطور 'کل' استعمال کرکے دین کی شکل بدلی نہیں جا سکتی۔ بات یہ ہے کہ اگر قہوے میں دودھ ملا دیا جائے تو اس کو قہوہ نہیں کہا جائے گا بلکہ چائے ہی کہا جائے گا۔