سیاسی فقیر
آج کل ملک میں جھگڑا چل رہا ہے کہ پرویز مشرف کو علاج کے لیے کیوں باہر جانے دیا گیا
آج کل ملک میں جھگڑا چل رہا ہے کہ پرویز مشرف کو علاج کے لیے کیوں باہر جانے دیا گیا؟ اب یوں تو ممبر کشی چل رہی ہے۔ یوں ملک کا شیرازہ اگر بکھر نہیں بھی رہا تو ادھر ادھر ہورہا ہے۔ پاکستان کے سیاستدان، ایک ملک، ایک مٹی، ایک میدان! تو اگرکسی مقتدر قوت نے ایک ہلکا سا ہاتھ رکھ دیا تو یہ یوں ہی تھا جیسے شیر اپنے بچوں کی شرارت پر پہلے آنکھیں دکھاتا ہے، پھر غراتا ہے، اور آخر میں ایک ہلکا سا ہاتھ رکھ دیتا ہے تاکہ بچہ فضول کاموں سے پرہیز کرے اور سیدھا راستہ اختیار کرے اور شیر کے معمولات میں شرارت کرکے دخل اندازی نہ کرے۔
جب جنرل محمد ایوب خان جن سے اختلافات کے باوجود، کہ اختلاف سیاستدانوں کا وطیرہ اور بزنس بھی، جسے ''ہاؤس بزنس'' کہا جاتا ہے۔ سیاستدان جانتے ہیں کہ ایوب خان نے پاکستان کے لیے بہت کچھ کیا تھا مگر سنگھاسن چڑھنے کے بعد عموماً ذہن میں تبدیلی آ جاتی ہے، سو وہ ان کے ساتھ بھی ہوا۔ ان کا ایک عمل بہت بہترین تھا کہ صدارت چھوڑ دی اور ایک بدترین، کہ بجائے سیاستدانوں کے اقتدار پھر آمر کے حوالے کر دیا۔
وہ وقت تھا جب ایوب خان نے ذوالفقار علی بھٹو کو وزارت خارجہ دی اور بھٹو سے دنیا کو، اور دنیا کو بھٹو سے متعارف کروایا۔ ایوب خان کا یہ کریڈٹ ان سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ چاہے لوگ کتنا بھی چھپائیں، یہ ایک Naked Truth ہے۔ وزارت نے بھٹو کو وژن دیا، ملک کے فیوڈل لارڈ تو وہ تھے ہی مگر اقتدار کا ایک ہلکا سا نشہ اور سرور یہاں سے آیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بے حد قابل انسان تھے، اس چھتری کے تلے ان کی قابلیت نے مزید رنگ پکڑا اور یوں وہ اس حد تک چلے گئے کہ ایوب کی پالیسیوں سے ان کو اختلاف ہوگیا اور جب یہ خبریں ایوب خان کو ملیں تو انھوں نے بھٹو کو فارغ کردیا۔
یہاں سے بھٹو صاحب کے ذہن میں ایک سوال پیدا ہوا کہ کیوں نہ مرکز ہی کو کنٹرول کیا جائے۔ یہ کوئی غلط بات نہیں ہے، ہر سیاستدان کی منزل یہی ہوتی ہے کہ مرکز تک پہنچا جائے۔ تو وہ بھی اس سوچ کے ساتھ نکل کھڑے ہوئے۔ کراچی، حیدرآباد اور ملک کے دوسرے شہروں میں انھوں نے اپنے رابطوں کو استعمال کیا اور اس طرح پاکستان پیپلز پارٹی وجود میں آئی۔ کوئی اس سے انکار نہیں کرسکتا کہ بھٹو صاحب نے ایک جنرل کی چھتری کے تحت کئی سال قیام نہیں کیا، اور وہاں ہی سے اقتدار کی سوچ نے اس پارٹی کو جنم دیا۔
اور وہ ایوب صاحب کے فرزند سمجھے جاتے تھے۔ تاریخ کا دھارا بدلا ''ڈیڈی'' کی حکومت ختم، سیاسی صاحبزادے کو جب موقع ملا تو ملک شکست سے دوچار ہوچکا تھا۔ یحییٰ خان کو تو سر پیر کا ہوش نہیں تھا، کسی عقلمند نے یہ الیکشن کروادیے اور لوہا گرم ہونے کی وجہ سے پی پی پی کو اقتدار مل گیا۔ مگر پی پی پی کے ساتھ ضیا الحق نے جو کیا وہ سب کے سامنے ہے اور یہ سب مکافات عمل ہیں۔ اس کے بعد نواز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے اور بالآخر پاکستان کے وزیراعظم بھی، یوں مسلم لیگ نواز یا مسلم لیگ نون کا قیام عمل میں آیا۔
سندھ میں ایک جماعت نے بھی آمریت کی چھتری میں جنم لیا اور پروان چڑھی اور فرق صرف یہ ہوا کہ جنرل مشرف بمقابلہ ن لیگ، یہ جماعت چھتری کے نیچے رہی۔ اس کا اس میں کوئی قصور بھی نہیں تھا، نہ ہے کہ وہ تو خود اپنی بقا کی جنگ لڑتی رہی ہے۔ اور یہ سچ ہے کہ اسے کئی بار ختم کرنے کے لیے سیاسی حکومت اور دوسرے لوگوں نے بہت کوشش کی اور اب اس پر کوٹہ سسٹم نافذ ہے چالیس پچاس سال سے اور اسے کوئی ختم نہیں کرتا کہ اس طرح براہ راست نہ سہی بالواسطہ ہی یہ قوم جو اس کا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہے پستی کا شکار ہوجائے گی اور ایسا ہی ہورہا ہے۔ نااہل لوگ اوپر بڑھے جارہے ہیں اور اہل لوگ ہر قوم سے پستی میں جارہے ہیں۔
اب رہ گئیں ملک کی دینی جماعتیں یا فرقہ وارانہ بنیاد پر قائم ہونے والی جماعتیں، تو ان کا کوئی قابل ذکر کردار پاکستان کی تاریخ میں نہیں ہے۔ بدقسمتی سے ان کی خاصی بڑی تعداد اپنے حلوے مانڈے کے چکر میں تھی اور ہے۔ جب بھی اسلام خطرے میں ہوتا ہے اور اس کا اعلان کیا جاتا ہے، کچھ دے دلا کر اسلام کو خطرے سے نکال لیا جاتا ہے۔ یہ کام جنرلز بھی اور سیاسی حکومتیں بھی مناسب طور پر انجام دیتی رہتی ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں اسلام خاص طور پر خطرے میں رہا کرتا تھا۔
ایک جماعت جو پاکستان کے قیام کی مخالف تھی، پاکستان بن جانے کے بعد اس کی سب سے بڑی حامی بن گئی اور اس کا سورج آج کل سب سے زیادہ چمک رہا ہے۔ بس ہم یہ کہیں گے کہ یہ خالص سیاست ہے، اسلام کا اس میں تڑکا لگا ہوا ہے۔ اور یہ دینی جماعتیں ضیا الحق کی چھتری کے تلے نہ صرف خوب پروان چڑھیں بلکہ فرقہ وارانہ جماعتوں کا قیام بھی انھی مرحوم کا کارنامہ ہے، کیونکہ وہ امیرالمومنین کا شرف حاصل کرنا چاہتے تھے، جو بزعم خود اب داعش کے سربراہ نے حاصل کرلیا ہے۔
تو انھوں نے مذہبی جماعتوں اور فرقہ پرستوں کو خوب ''کھل کھیلنے'' کی اجازت دی اور ملک کے اس سلسلے میں تمام تر حالات کے ذمے دار وہی ہیں۔ مشرف سے تو سوال کیا جاتا ہے کہ امریکا کو ''ہاں'' کیوں کہا۔ ضیا الحق سے کیوں نہیں پوچھا جاتا اور پیروکاروں سے بھی کہ ملک کو فرقہ پرستی کا شکار کیوں کیا۔ یہ ملک کے صدر کے طور پر ان سے سوال ہے۔ سیاچن پر بھی ضیا الحق سے سوال پوچھا جاسکتا ہے، اور اب ان سوالوں کے جواب ان کے سیاسی جانشینوں کا فرض ہے۔
اس وقت ملک کے دو اہم مسئلے ہیں۔ ایک مسئلہ یہ ہے کہ مشرف کا نام ECL سے کیوں نکالا گیا، دوسرا ایان کا نام ECL سے کیوں نہیں نکالا گیا؟ یعنی ملک ایک سابق آمر اور ایک Carrier کی وجہ سے بحران کا شکار ہے۔ پولیو سے بچے مر رہے ہیں، قطرے پلانے میں دشواری ہے، تھر میں ماں بچے مر رہے ہیں، غربت اور افلاس کی وجہ سے، یہ ملک کے اہم مسائل نہیں ہیں۔ ایک طرف Mood چل رہا ہے اور ایک طرف Moodi کہ وہ آئیں گے یا نہیں؟
صوبہ خیبر پختون خوا ایک ضدی سیاستدان کے حوالے ہے، جس کا کچھ پتا نہیں چلتا کہ صبح کیا ہے شام کیا۔ بلوچستان آدھے آدھے وزیراعلیٰ پر چل رہا ہے۔ سڑکوں، ٹرینوں، بسوں کے راستوں کا زور ہے، ٹھیکوں، پرافٹ، کمیشن کا بازار گرم ہے۔ وزارت خزانہ کی چھتری تیز ہے، اب عوام کی ہڈیاں ہی بچی ہیں، گوشت تو اتار چکے ہیں، ان کا بھی سودا کردو، آیندہ پچاس سال کا۔ اس ملک کے عوام کو روٹی کی جگہ کیک مل چکا ہے، سہولتیں کاغذوں پر میسر ہیں۔
اس ملک کے سیاستدان اور بڑے لوگ وہ ہیں جن کی مثال ایک ایسے فقیر سے دی جاسکتی ہے جو کہیں ایک جھونپڑا بناکر زندگی میں تمام وقت ''قرض'' بھیک مانگتا رہتا ہے اور ایک دن جب فرشتہ اجل اسے لے جاتا ہے تو اس کی جھونپڑی میں سے باسی روٹی کے ٹکڑے، پھٹے پرانے کپڑے اور کروڑوں روپے کی کرنسی ملتی ہے، جسے بڑھانے کے چکر میں اس نے دین اور دنیا دونوں کو گنوادیا، یہ فقیر بہت جاچکے، بہت جانے والے ہیں، بہت جائیں گے۔ یہی اس ملک کا مقدر ہے۔