رہائش اور زراعت کے مسائل
رہائش کا مسئلہ پاکستان میں انتہائی سنگین صورتحال اختیار کرچکا ہے
رہائش کا مسئلہ پاکستان میں انتہائی سنگین صورتحال اختیار کرچکا ہے۔ ایک طرف مکانات اور زمینوں کی قیمتوں میں ہونے والے ہوشربا اضافے نے نہ صرف محنت کش طبقے کو اپنے گھر کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کی صلاحیت سے عاری کردیا ہے بلکہ نچلے درمیانے طبقے اور درمیانے طبقے کی کئی پرتوں کو بھی اس خواب سے محروم کردیا ہے۔ پاکستانی ریاست نے پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائٹیوں، قبضہ گروپوں اور نجی ڈیولپرز کو لوٹ مار اور استحصال کی کھلی چھوٹ دی ہوئی ہے۔
جس کی وجہ سے اس کاروبار سے وابستہ مٹھی بھر افراد ارب پتی بن چکے ہیں، جب کہ دوسری طرف شہری محنت کش عوام اور نچلے درمیانے طبقے کے افراد مکان کی نعمتوں سے محروم ہوچکے ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف نئی نئی امیر اور درمیانے طبقے کی خوشحال بستیاں بسائی جارہی ہیں تو دوسری طرف کچی آبادیوں اور مفلوک الحال بستیوں کے جنگل بن رہے ہیں۔
غریبوں کی یہ آبادیاں تمام بنیادی سہولیات اور ضروریات سے محروم ہیں اور بے ہنگم اور کسی قسم کی تربیت اور تنظیم سے یکسر محروم ہیں۔ مکانات کے کرایے آسمان سے باتیں کررہے ہیں اور محنت کش خاندان ایک کمرے میں رہنے پر مجبور ہیں۔ رہائش کی سہولیات کی فراہمی حکومت کی ذمے داری ہے لیکن پاکستانی حکومت اس ذمے داری سے اپنے آپ کو مبرا کرچکی ہے۔
اسے اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ غریب اور محنت کش عوام کی یہ بنیادی ضرورت کیسے پوری ہوں گی۔ گھر محض در و دیوار اور چھت کا نام نہیں ہوتا بلکہ یہ مسئلہ پینے کے صاف پانی کی فراہمی، گندگی کی نکاسی کے بہترین نظام، بجلی کی سستی اور لگاتار فراہمی، صاف ستھری گلیوں اور سڑکوں سمیت کئی دوسری بنیادی سہولتوں کی یقینی فراہمی کے بغیر حل نہیں ہوتا۔
موجودہ معاشی ڈھانچہ کسی طرح بھی موجودہ مایوس کن رہائشی صورتحال کو بدلنے کے لیے درکار لازمی سرمایہ مہیا نہیں کرسکتا، اس لیے انقلابی معاشی اقدامات کے ذریعے ہنگامی پروگرام کا آغاز کرنا ہوگا۔ رہائشی سہولیات کی فراہمی، منصوبوں کا آغاز، کچی آبادیوں اور بے ہنگم پرانے مکانات کی جگہ نئے اور جدید مکانات کی تعمیر اور مفت فراہمی۔ یہ پروگرام ان آبادیوں میں رہنے والے افراد کی جمہوری منتخب کمیٹیوں کے کنٹرول میں ہوگا، تاکہ ان کمیٹیوں کے ذریعے ان منصوبوں کو بدعنوانی اور اقربا پروری سے پاک رکھا جائے۔
ہر خاندان کو گھر کی فراہمی حکومت کی بنیادی ذمے داری ہوگی اور اسے یقینی بنایا جائے گا۔ لاکھوں نئے گھروں کی تعمیر کے نتیجے میں نہ صرف صنعتی ترقی کی رفتار تیز ہوگی بلکہ لاکھوں افراد کو روزگار بھی فراہم ہوگا۔ دو کنال سے بڑے گھروں کی تعمیر پر پابندی ہوگی۔ سرکاری اہلکاروں کے زیر استعمال تمام بڑے سرکاری گھروں کو چھوٹے مکانات میں تبدیل کرکے لوگوں کو فراہم کرنا ہوگا۔ سرکاری زمینوں پر مکانات تعمیر کیے جائیں گے تاکہ مکانات کی قلت دور ہو۔ رہائشی زمین کی منافع کے لیے استعمال پر پابندی لگانی ہوگی۔
مکانات کی تعمیر، سیوریج، سڑکوں، پانی، گیس کی پائپ لائنوں، بجلی کی فراہمی، اسکولوں اور اسپتالوں کی تعمیر اور دوسری سہولتوں کی فراہمی کے لیے ٹھیکے داری نظام کو ختم کرنا ہوگا۔ نئے شہر تعمیر کرنا ہوں گے تاکہ شہروں پر آبادی کے بوجھ کو کم کیا جاسکے اور دور دراز علاقوں میں تمام بنیادی ضروریات زندگی فراہم کی جائیں گی تاکہ آبادی کی منتقلی کو روکا جاسکے۔
تعمیر نو کے ان منصوبوں اور پروگرام پر محنت کش عوام اور ماہرین کی جمہوری کمیٹیوں کے ذریعے عملدرآمد کروانا ہوگا۔ شہروں اور دیہاتوں کے درمیان فرق کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ اس ضمن میں ایک ہنگامی پروگرام شروع کرنا ہوگا جو سڑکوں، اسکولوں، صنعتوں، اسپتالوں اور جدید سہولیات کی فراہمی اور ان میں اضافے پر مشتمل ہوگا۔ جاگیرداری کا خاتمہ اور زرعی انقلاب شہروں کی طرف آبادی کی ہجرت کو روکنے میں کافی مددگار ثابت ہوگا، جس سے شہروں کے بنیادی ڈھانچے اور سروسز پر دباؤ میں کمی واقع ہوگی۔
پاکستان کو آزاد ہوئے انہتر برس بیت گئے، لیکن آج تک کروڑوں لوگ بے گھر ہیں، ایک بڑی تعداد جھگیوں میں بستی ہے۔ جاگیردار اور وڈیرے اپنی زمین کے ایک بنجر اور فضول حصے پر چند گز زمین ہاریوں اور مزارعین کو دے کر احسان جتاتے ہیں۔ دوسری جانب ہزاروں گز پر مشتمل محلوں میں چند لاکھ لوگ بستے ہیں جو محل ان غریبوں کے خون چوس کر ہی تعمیر ہوتے ہیں۔
اس صورتحال میں تمام لوگوں کو مکان فراہم کرنا اشد ضروری ہے، اس کے بغیر انسان، انسان کی طرح گزر بسر نہیں کرسکتا۔ آزادی کے انہتر سال گزرنے کے بعد بھی پاکستان کے حکمران اسے ایک زرعی نیم دیہی معاشرے سے جدید، صنعتی سرمایہ دارانہ معاشرے میں تبدیل کرنے میں ناکام ہوئے ہیں۔ پاکستان آج بھی ایک زرعی ملک ہے۔ ملکی آبادی کا چالیس فیصد آج بھی زراعت سے وابستہ ہے جب کہ پاکستان کی جی ڈی پی (مجموعی داخلی پیداوار) میں حصہ صرف بائیس فیصد ہے۔
اگر زراعت کے ساتھ وابستہ شعبوں اور کاروبار کو بھی شامل کرلیا جائے تو زراعت سے وابستہ افراد کی تعداد ساٹھ فیصد سے تجاوز کرجاتی ہے، اس کے باوجود کہ پھلوں، سبزیوں، گندم، کپاس، چاول، چینی، دودھ، گوشت اور جانوروں کی افزائش میں پاکستان دنیا کے دس بڑے ممالک میں شمار ہوتا ہے، مگر آبادی کی اکثریت ان اجناس اور بنیادی خوراک سے استفادہ نہیں کرسکتی کیونکہ ان کی قوت خرید انھیں مجبور کرتی ہے کہ وہ ان بنیادی اشیائے ضروریہ کے بغیر زندگی گزاریں۔ ایک ایسے وقت میں جب حکومت کے گوداموں میں لاکھوں میٹرک ٹن گندم، چاول اور دیگر اشیائے خورونوش ملکی ضروریات سے وافر مقدار میں موجود ہے، مگر آبادی کا بڑا حصہ دو وقت کی روٹی کو ترستا ہے۔
حکومت کے پاس اتنی وافر مقدار میں گندم اور چاول موجود ہے کہ اگر اسے سستے داموں محنت کشوں کو فراہم کردیا جائے تو اس سے ان کا خوراک کا مسئلہ کافی حد تک حل ہوسکتا ہے مگر وہ ایسا نہیں کرے گی، اس لیے کہ سرمایہ داری نظام میں پیداوار لوگوں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے نہیں ہوتی بلکہ منافع کمانے کے لیے ہوتی ہے۔ پاکستان میں زرعی بحران کی بڑی وجہ جاگیرداری ہے، جس میں مٹھی بھر افراد کے پاس لاکھوں ایکڑ زمین موجود ہے اور دوسری طرف کروڑوں افراد کے پاس زمین کی ملکیت ہی نہیں ہے۔
جاگیردارانہ تسلط اور استحصال کے خاتمے اور بے زمین کسانوں اور ہاریوں کی غلامی کے خاتمے اور ان کی حقیقی سیاسی، معاشی اور سماجی آزادی اور مساوات کے لیے جاگیرداری کا مکمل خاتمہ کیا جائے۔ تمام جاگیروں اور زمین کی بڑی ملکیت کا خاتمہ کرکے ان زمینوں کو بے زمین کسانوں، ہاریوں اور کھیت مزدوروں میں مفت تقسیم کرنا ہوگا۔ بے زمین اور چھوٹے کسانوں کے لیے زمین کی فراہمی کے ساتھ ساتھ رضاکارانہ بنیادوں پر اجتماعی کاشت کاری کو فروغ دینا ہوگا۔