کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں
سیاسی، معاشی اورسماجی بے لگامی نے پاکستان کی پہلے تاریخ بدلی، پاکستان کے وجود کا ایک حصہ الگ ہوا
سیاسی، معاشی اورسماجی بے لگامی نے پاکستان کی پہلے تاریخ بدلی، پاکستان کے وجود کا ایک حصہ الگ ہوا، اس کے بعد کھل کر تماشے شروع ہوئے ، رونے والے روتے روتے اس دنیا سے چلے گئے اور اگر یہی حال رہا تو جو باقی بچ گئے ہیں وہ بھی چلے جائیں گے اور اپنے پیچھے غربت کی طویل لکیریں چھوڑ جائیں گے مگر جو لٹیرے ہیں وہ بھی جائیں گے اور اپنے پیچھے سونے کے انبار چھوڑ جائیں گے ۔ سیاسی چالبازوں نے اس ملک میں اتنی افراتفری مچائی کہ اس ملک کا ہر فرد منڈلاتے قرضوں کے توسط سے فی فرد ایک لاکھ روپے کا مقروض ہے۔ کروڑوں غربت کے اندھیرے کنوئیں میں زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں۔
چند سیاستدانوں نے اس قوم کو انتہائی درجے کا بے وقوف سمجھ رکھا ہے یہ شہری تعلیم یافتہ طبقے کو بھی ضلع یا تحصیل کا فرد سمجھتے ہیں اور پھر اپنے بیانات سے خود ہی نادم ہوتے ہیں۔ آج کا موضوع صرف اور صرف سابق صدر پرویزمشرف کے گرد گھوم رہا ہے۔ آرٹیکل 6 کو ان سیاسی لوگوں نے اتنا معتبر کردیا ہے کہ آئین کو ان سیاسی حضرات نے اس عوام کا رہبر بنادیا ہے، یہ عوام کو بے وقوف سمجھتے ہیں، جب کہ جمہوریت کی آڑ میں اس قوم کو یہ بہت بے وقوف بناچکے۔
اب آئین بھی دو قسم کے ہیں ایک اصل جو چند سیاستدانوں کے لیے اور دوسرا اس کی فوٹو کاپی جو عوام کے لیے ہے ۔ جنرل(ر) مشرف کی رخصتی پر بڑے اعتراضات اٹھائے گئے ہمارے کچھ صحافی تو باقاعدہ اسے مشن سمجھ کر پرویزکی روانگی کو دشت جرم سمجھ رہے ہیں مگر انھیں آئین کی وہ شق نظر نہیں آ رہی ہے اور نہ ہمارے چند سیاستدانوں کو کہ آئین کا آرٹیکل 6 ہی پورا آئین نہیں ہے۔
اس میں سیکڑوں دفعات موجود ہیں، بس سیاسی لوگ اور کچھ صحافی صرف آرٹیکل 6 کو معتبر قرار دے کر پرویز مشرف کی روانگی کو اس ملک میں سب سے بڑا جرم سمجھ رہے ہیں۔ آرٹیکل 6 کا دفاع کرنے والے بتائیں کہ 1973 کے آئین کے تحت اردو سرکاری زبان ہوگی کیا اس پر عمل ہوا؟ غریب تو انگریزی نہ سمجھنے کی وجہ سے در در کی ٹھوکریں کھا رہا ہے اور رشوت الگ دیتا ہے، لوڈ شیڈنگ (اندھیرے)، بھوک، افلاس ، بے روزگاری، بیماریاں (وہ بھی کینسر جیسی)، قتل و غارت گری، پانی کا فقدان، لوٹا ماری،کرپشن، بدمعاشی، خواتین کی عزتوں کا سودا اب یہ بتائیں کہ آئین اس بات کی اجازت دیتا ہے۔
چند سیاستدانوں کے علاوہ کسی سماجی تنظیم، وکلا کی تنظیم، سیاسی جماعتیں غرض عوام تک نے پرویز مشرف کی روانگی پر اعتراض نہیں کیا کچھ لوگوں نے اس ڈھول کو خوب بجایا سیاسی حضرات کہہ رہے ہیں کہ (ن) لیگ نے مشرف کو کیوں چھوڑا؟ مگر اس عوام کا حافظہ بہت تیز ہے اور یہ مصلحت کے تحت خاموش ہے یا پھر اسے کسی اوپر والے کے سپاہی کا انتظار ہے۔
مشرف، زرداری دور میں چار مرتبہ پاکستان آئے اور گئے تو اس وقت پی پی پی حکومت نے کیوں آنکھیں موند لیں لہٰذا مشرف کی روانگی کو ڈیل نہ کہا جائے بس ایک شخص چلا گیا اب اس پر شور کیسا؟ کتنے سیاسی لوگ کرپشن کا دریا نہیں سمندر پار کرکے ملک سے چلے گئے اور ان پر قتل اقدام قتل کے الزامات بھی ہیں انھیں کب انٹرپول کے ذریعے لایا جا رہا ہے جو چند سیاسی لوگ زور دے رہے ہیں کہ مشرف کو انٹرپول کے ذریعے واپس لایا جائے یعنی کہ اب ان سیاسی حضرات کے لیے عوام کی بقا صرف پرویز مشرف کے واپس لانے کے لیے ہے ۔
ویسے بھی پرویز مشرف نے دبئی پہنچ کر وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔ وزیر داخلہ بھی مبارک باد کے مستحق ہیں کہ اس روز روز کے جھگڑے سے عوام کی جان چھوٹ گئی اور اس میں کوئی شک نہیں کہ کورٹ کے فیصلے کے بعد وزیر اعظم اور وزیر داخلہ نے بہت ہی مثبت قدم اٹھایا۔
اب آتے ہیں مصطفیٰ کمال کی طرف جب وہ میئر تھے تو مصطفیٰ کمال تھے اب باکمال ہیں کہ ان کی آمد کے بعد کم ازکم یہ شہر تو صاف ہوگیا اور وہ اب دلوں کی گندگی بھی صاف کرنے پر زور دے رہے ہیں اور ویسے بھی فاروق ستار کہہ رہے ہیں کہ پاک سرزمین پارٹی کے بچے کے کان میں، میں اذان دوں گا یہ تو بہت اچھی روایت کا آغاز ہوگا ۔ فاروق ستار کو چاہیے جو اذان دیتے ہیں بچوں کے کان میں وہ عمر میں بھی بڑے اور معتبر ہوتے ہیں، بچے کے کان میں یہ ضرور کہہ دیں کہ ''بیٹا! پاک سرزمین، صراط مستقیم کا دامن کبھی نہ چھوڑنا، اسی میں تمہاری عافیت ہوگی کہ عاجزی و انکساری کے لیے دانشوروں نے یہی پیغام دیا ہے۔''
آئیے اب چلتے ہیں کرکٹ کے میدانوں کی طرف۔ گزشتہ کئی سالوں سے پاکستانی کرکٹ ٹیم کسی بھی بڑی ٹیم سے سیریز نہ جیت سکی، انڈیا تو دور کی بات ہے یہ بنگلہ دیش سے ہارگئے اس کے علاوہ 19 مارچ کو پاک بھارت میچ سے پہلے گلوکار شفقت امانت علی کی جانب سے پڑھے گئے غلط قومی ترانے پر عوام نے جی ہاں صرف عوام نے شدید اعتراض کیا ویسے بھی جو قومی ترانہ انھوں نے پڑھا اسے حفیظ جالندھری مرحوم نے نہیں لکھا تھا نہ جانے وہ کیسے پڑھ گئے ۔
پاکستان کی آواز ''قومی ترانہ'' غلط پڑھنے پر کسی بھی سیاست دان نے شور و غل نہیں مچایا۔ جس طرح یہ آرٹیکل 6 پر مچا رہے ہیں حالانکہ پہلے پاکستان بنا پھر آئین بنا۔ اس کے بعد آرٹیکل 6 بنا، آخر پھر ایک پاکستانی عبدالجبار جو ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے ممبر بھی ہیں نے گوجرانوالہ کی عدالت کے سیشن جج حبیب اللہ عامر کی عدالت میں رٹ درخواست دائر کی ہے کہ اس کی چھان بین کی جائے یہ کام کسی سیاسی شخصیت کے ہاتھوں کیوں نہیں ہوا کہ وہ بھی تو پاکستانی ہیں۔ ادھر کرکٹ کا برا حال ہے۔
بوم بوم آفریدی کوئی قابل ذکر کارنامہ انجام نہ دے سکے جب کہ ویمن کرکٹ ٹیم نے دہلی میں فتح کا اعزاز حاصل کرکے پاکستانیوں کے دل جیت لیے۔ اب پاکستان کی ہار پر تو عوام اب کھیل کے میدانوں میں چوڑیاں لے کر جانے سے رہی مرد تو ہار گئے، مگر عزت و شرم ان خواتین نے رکھ لی شکریہ خواتین کرکٹرز آپ کا۔ ویسے بھی بوم بوم شاہد آفریدی کو اب کرکٹ پر توجہ دینی ہوگی خاص طور پر کھیل کے میدان تنقید نہیں اصلاح کے طور پر لکھ رہے ہیں کہ شاہد آفریدی صحافیوں کے ساتھ اپنا رویہ دوستانہ رکھیں کیونکہ عوامی شخصیت اور صحافیوں کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔
اگر شاہدی آفریدی شعبہ اشتہارات کی بجائے پریکٹس پر توجہ دیں تو یقینا وہ اچھے کھیل کا مظاہرہ کرسکتے ہیں کیونکہ ماضی کے سپر اسٹار کرکٹ کے کھلاڑی جاوید میاں داد، ظہیر عباس نے کبھی بھی اشتہارات کا سہارا نہیں لیا بلکہ کھیل کے میدانوں کے چہیتے رہے بلکہ اس کرکٹ کی تباہی پر وزیر اعظم سے گزارش ہے کہ وہ اس کی بقا اور بہتری کے لیے جاوید میانداد، ظہیر عباس اور سرفراز نواز جیسے عظیم کھلاڑیوں کو کوچ کی حیثیت سے میدان میں اتاریں تاکہ کرکٹ کی تقدیر بدل سکے۔