سیاسی بصیرت کا فقدان
پاکستان میں منائی جانے والی اس بار ہولی کی بازگشت ابھی بھی جاری ہے
ہولی ہر سال آتی ہے اور گزر جاتی ہے، مگر پاکستان میں منائی جانے والی اس بار ہولی کی بازگشت ابھی بھی جاری ہے، کیوں کہ پیپلزپارٹی نے یہ ہولی بڑے رنگ ڈھنگ سے منائی۔ آج کل لگتا ہے ہمارے سیاست دانوں کو اپنے مسلمان ہونے پر کچھ شرمندگی محسوس ہونے لگی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اگر اس کا ازالہ نہیں کیا گیا تو کہیں ان پر انتہاپسندی کا الزام نہ لگ جائے، سو اسی لیے اس ٹھپے کو اپنے سے دور کرنے کے لیے مختلف انداز میں دنیا کے سامنے اپنے آپ کو پیش کررہے ہیں۔ اب بلاول بھٹو زرداری کو ہی لے لیں، پیپلزپارٹی کی گرتی ہوئی ساکھ اور دنیا کے سامنا اپنا سافٹ امیج پیش کرنے کے لیے بلاول عمرکوٹ جا پہنچے۔
اس سے پہلے سندھ حکومت 23 مارچ کی چھٹی کے ساتھ ساتھ ہولی کی چھٹی دے چکی تھی، اقلیتوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اچھی بات ہے، مگر جوش جذبات میں بہہ جانا درست نہیں۔ بلاول بھٹو نے عمرکوٹ میں ہولی منائی، اچھا کیا، مگر وہ جوش خطابت میں اپنے نانا کے بنائے ہوئے آئین کو ہی تنقید کا نشانہ بالواسطہ طور پر بناگئے کہ ہندوستان میں مسلمان صدر ہوسکتا ہے تو پاکستان میں اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والا اس منصب کا اہل کیوں نہیں ہوسکتا۔
یہ سوال کرتے وقت سوچنا چاہیے تھا کہ یہ قدغن تو آئین لگاتا ہے جوکہ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں ذوالفقار علی بھٹو متعدد علمائے کرام اور دیگر صاحبان نے آئین بناتے وقت اس پہلو کو مدنظر رکھا کہ اس اہم سرکاری منصب پر پاکستان میں مسلمان ہی ہوسکتا ہے، مگر وائے افسوس! بلاول اس اظہار یکجہتی میں پیپلزپارٹی کے بنائے ہوئے آئین پر ہی تنقید کرگئے۔
بلاول کو معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان دو قومی نظریے کی بنیاد پر ہی معرض وجود میں آیا تھا۔ کانگریس نے برملا کبھی اظہار نہیں کیا کہ وہ صرف ہندوؤں کی جماعت ہے، کیوں کہ گاندھی جی کا بھی یہی کہنا تھا کہ ہندوستان میں اگر کوئی قوم ہے تو وہ ہندوستانی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہاں ہندو ازم کے فروغ اور دیگر اقلیتوں کو معاشی طور پر کمزور اور پسپا کرنے کے اقدامات ہی پروان چڑھتے رہتے ہیں، جس کی وجہ سے مسلمان یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ پاکستان بننے کا فیصلہ بروقت اور مناسب تھا۔
آج بھی وہاں مسلمان انتہائی پسماندہ ہیں اور سرکاری ملازمتوں پر نہ ہونے کے برابر ہیں، مسلمانوں کے مذہبی تہواروں پر جس طرح ان کی اکثر جگہوں پر نسل کشی کی جاتی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔ گائے کو گاؤ ماتا کہنے والے مسلمانوں کو اس کے گوشت کھانے کے جرم میں مار دینا زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔ یہ ہے اصل تصویر سیکولر ہندوستان کی۔ مگر مسلم لیگ نے اپنے قیام میں منافقانہ رویہ اختیار کرنے کے بجائے برملا اظہار کیا کہ مسلم لیگ مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے بنائی گئی ہے۔
مسلم لیگ بناتے وقت تمام مسلم رہنما اس بات پر متفق تھے کہ مسلم لیگ ہندوستان میں رہنے والے تمام مسلمانوں کی واحد نمایندہ جماعت ہے، صرف کانگریس کے پھیلائے ہوئے جال سے مسلمانوں کو نکالنے میں مدد فراہم کرنے کی قائداعظم کی قیادت میں اور علامہ اقبال کے تصور پاکستان میں یہ بات بڑی واضح تھی کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں، ان کا مذہب، تہذیب، تشخص، ثقافت سب ایک دوسرے سے متصادم ہے، اسی لیے انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے بعد برصغیر کی دو حصوں میں تقسیم ناگزیر ہے، کیوں کہ مسلمانوں کے لیے ایک الگ مملکت کا قیام بہت ضروری ہے، جہاں وہ اپنے عقائد کے مطابق آزادی کے ساتھ زندگی بسر کرسکیں اور اسی تناظر میں قیام پاکستان کے لیے جدوجہد کی گئی۔
آج اگر ہم کہتے ہیں کہ اقلیتوں کے لیے پاکستان میں اہم سرکاری عہدہ ہونا چاہیے تو یہ بھول جاتے ہیں کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے۔ یہ نعرہ تو ابھی بھی کانوں میں گونجتا ہے جوکہ اس وقت بچے بچے کی زبان پر تھا کہ ''پاکستان کا مطلب کیا، لا الٰہ الا اﷲ''۔ پاکستان کی آبادی 90 فیصد سے بھی زیادہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ اقلیتوں کو پاکستان میں تمام تر بنیادی حقوق حاصل ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ دہرے ووٹ کی سہولت بھی حاصل ہے جوکہ شاید دنیا کے کسی ملک میں نہیں۔ اس کے علاوہ اہم منصب پر بھی اقلیتوں کے نمایندے میرٹ پر فائز رہے ہیں۔
پاکستان کا آئین اسلامی اصولوں پر مبنی ہے، جس پر آج تک کسی نے اعتراض نہیں کیا، اس کی مختلف شقوں پر ترمیم کی گئی مگر ان سطور کو کسی نے نہ چھیڑا کیوں کہ پاکستان میں رہنے والی سب جماعتوں اور عوام اس بات پر راضی ہیں کہ ریاست کے اہم ترین عہدوں پر مسلمان ہی فائز ہوسکتا ہے۔
دوسری بات جو بلاول نے اپنے جوش خطابت میں کہی کہ عمرکوٹ کی حالت کسی نے نہیں بدلی، آج بھی یہاں کے باسی انیسویں صدی میں جی رہے ہیں۔ سندھ کارڈ کو استعمال کرنے والے یہ بھول گئے کہ سندھ کی حکمرانی آپ کے ہاتھوں میں ہمیشہ رہی تو سندھ کی تقدیر بدلنے کے ذمے دار تو آپ ہیں۔ آپ جب وفاق میں بھی تھے تو کیوں نہ عمرکوٹ کو پیرس بنادیا، پیرس اگر ناممکن تھا تو کراچی یا حیدرآباد جیسا ہی بنادیتے۔
آج بھی تھر میں غذائی قلت کا شکار بچے جدید طبی امداد کے منتظر ہیں۔ پیپلزپارٹی بلند بانگ دعوے کرنے، بڑھکیں مارنے کے بجائے اگر صرف پیپلزپارٹی کی اصل روح جوکہ کہیں کھوچکی ہے اس پر عمل کرنا شروع کردے تو آج بھی چاروں صوبوں کی زنجیر بن سکتی ہے۔ بلاول کو اگر پیپلزپارٹی کو بام عروج پر پہنچانا اور عوام کی حقیقی خدمت کرنی ہے تو پیپلزپارٹی میں موجود ایسے کارکنوں اور لیڈروں کو اپنے قریب لائیں جوکہ پیپلزپارٹی کے حقیقی کارکن اور مخلص ہیں، اس کی نظریاتی فکری اساس کے وارث ہیں، کیوں کہ اس وقت جو ٹولہ پیپلز پارٹی میں شامل ہے اس میں بصیرت اور نظریاتی تشخص کا فقدان ہے۔