میاں صاحب ایسا نہ کرتے توکیا کرتے
اُکسانے اور بڑھکانے پر میاں صاحب اگر ارادے بدلنے کی بجائے اپنے اُس مؤقف پر ڈٹ جاتے
جنرل پرویز مشرف کے ملک سے چلے جانے پر اپوزیشن اور اہلِ صحافت سے تعلق رکھنے والے کئی ذہین، دانا اور عاقبت نااندیش دانشوروں کی جانب سے حکومت کو خوب تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اُن کے بقول حکومت نے مشرف کے ساتھ ساز باز کر کے ایک ڈیل کے تحت باہر جانے دیا ہے۔
کسی نے کہا نظریہ ضرورت دوبارہ زندہ ہو گیا۔ کسی نے کہا کہ یہ مک مکا ہے۔ کسی نے کہا یہ این آر او ہے اور کسی نے کہا کہ میاں صاحب نے مشرف کے احسانوں کا بدلہ چکایا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جو لوگ میاں صاحب کو ہمیشہ ہر کسی سے لڑنے اور ملکی اداروں سے محاذ آرائی کا طعنہ دیا کرتے تھے وہی لوگ اب اُن کی اِس سے بچنے اور درگزر کر دینے کی دانش مندانہ تدابیر کو ناپسندیدہ قرار دیکر لعن طعن کر رہے ہیں۔
حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں جس نے بھی اِن اداروں سے ٹکرانا چاہا یا اُن سے اپنے اختلافات کو طول دینا چاہا وہ خود پاش پاش ہو گیا۔
ایسے لوگوں کے اُکسانے اور بڑھکانے پر میاں صاحب اگر ارادے بدلنے کی بجائے اپنے اُس مؤقف پر ڈٹ جاتے اور سابق جنرل کو عدالتوں کی مشقت سے گزار کر کوئی عبرت انگیز سزا دلوانے کی کوششیں جاری رکھتے تو اِس کا نتیجہ سسٹم کی تباہی کے سوا کچھ نہ نکلتا۔
اول تو آج کے دور میں ایسا ممکن ہی نہ تھا اور اگر ایسا ہو بھی جاتا تو میاں صاحب اپنے کسی دور ِاقتدار کے پانچ برس پورے کرنے کی حسرت لیے ہی یا تو دارِ فانی سے کوچ کر جاتے یا پھر وہ ساری زندگی کے لیے جیل کی سلاخوں کے پیچھے اپنے آپ کو کوس رہے ہوتے۔ پھر یہی لوگ جمہوریت کا بستر گول ہو جانے کی ساری ذمے داری میاں صاحب پر ڈال دیتے کہ اُن کے معاندانہ اور انتقامانہ رویوں کی وجہ سے ملک و قوم کو یہ دن دیکھنا پڑا۔ لہذا عافیت اور سلامتی کا راستہ یہی تھا جو اُنہوں نے اب اختیار کیا۔
اُنہوں نے اپنے طور پر بہرحال اتنا تو کیا کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار آئین کو توڑنے یا معطل کرنے والے کسی ملزم کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ چلانے کی جسارت و ہمت ضرور دکھائی۔ اُن سے پہلے برسرِاقتدار آنے والوں نے تو ایسا کرنے کا سوچنے سے بھی گریز اور اجتناب کیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے لوگوں کو ہمیشہ اپنے اِس ملک کی عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ سے بڑی شکایتیں رہی ہیں۔ اُن کے خیال میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی سزا بھی اِن دو اداروں کی ملی بھگت کا نتیجہ تھی۔
ملک کے اِن دو اداروں سے اُن کی ناراضی کوئی آج کے دور کی پیدا کردہ نہیں ہے جیسا کہ صوبہ سندھ میں رینجرز کی حالیہ کارروائیوں سے بظاہر دکھائی دیتا ہے۔ اُن کی ناراضگی کا دورانیہ بہت طویل عرصے پر محیط ہے۔ معاملہ بھٹو صاحب کی پھانسی کا ہو یا پھر مشہور و معروف میمو گیٹ کا ہر دور میں اُنہیں کوئی نہ کوئی شکوہ ضرور رہتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ زرداری صاحب اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی باتیں کر کے کبھی کبھار اپنے دل کا غبار ہونٹوں پر لے ہی آتے ہیں، لیکن پھر ہمت و جرأت اور استقامت دکھانے کی بجائے پتلی گلیوں سے ملک سے فرار بھی ہو جاتے ہیں۔ وہ اگر اتنے دلیر اور بہادر ہوتے تو آج یہ وضاحتیں پیش نہ کر رہے ہوتے کہ ''میرے بیان کی غلط توجیہہ کی گئی ہے۔ میں نے یہ ساری باتیں اپنے سیاسی مخالفین کے لیے کی تھیں۔'' قوم کو اچھی طرح یاد ہے کہ میمو گیٹ والے اسکینڈل کے دنوں میں بھی موصوف ایوانِ صدر سے نکل کر مہینے بھر کے لیے دبئی جا بیٹھے تھے۔
پرویز مشرف کے ملک سے باہر چلے جانے پر پیپلز پارٹی کے لیڈروں کی جانب سے بیان بازی اور احتجاجی مظاہروں کا اعلان اِس لحاظ سے حیران کن اور افسوس ناک ہے کہ وہ خود تو اُن کے خلاف کچھ نہ کر سکے جب کہ اُنہیں اِس کام کے لیے پورے پانچ سال ملے تھے، لیکن صرف زبانی جمع خرچ کے علاوہ وہ اِس جنرل کے خلاف عدالتی کارروائی تو کجا کوئی تادیبی یا انضباتی کارروائی بھی نہ کر سکے۔ اُن کے دور کے ایک وزیرِاعظم جناب یوسف رضا گیلانی نے تو کھلم کھلا ایسا کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا۔
ادھرمیاں صاحب بھی ابتدا میں شاید اِس زعم میں مبتلا تھے کہ وہ پرویز مشرف کے گرد گھیرا تنگ کر کے اپنے پر کیے گئے مظالم کا بدلہ لے پائیں گے مگر پھر بہت جلد اُنہیں یہ احساس ہو گیا کہ ابھی جمہوریت اتنی توانا اور مضبوط نہیں ہوئی ہے کہ وہ کسی غیر جمہوری طالع آزما کو اُس کے کیے کی سزا دلوا سکے۔
یہی وجہ ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد کارگل کے واقعے کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کا ارادہ بھی اُنہوں نے ترک کر دیا۔ حالانکہ ملک میں واپس آنے سے قبل وہ ایسا کرنے کا کئی بار عندیہ دے چکے تھے۔ اِسی لیے کہا جاتا ہے کہ اپوزیشن میں رہ کر سیاست کرنے اور حکومت میں آ کر حقائق کا سامنا کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ یہ سب بھڑکیاں اور طرم خانیاںاقتدار سے باہر رہ کر ہی دکھائی جا سکتی ہیں۔
میاں صاحب نے پرویز مشرف کو باہر جانے کی اجازت دینے کا بالکل درست فیصلہ کیا۔ اِس کے علاوہ وہ اور کچھ کر بھی نہیں سکتے تھے۔ اُن کے پاس گرچہ دیگر آپشنز ضرور موجود تھے جنھیں استعمال کر کے وہ اپنی معاندانہ طبیعت کی تسلی اور تشفی بھی کر سکتے تھے لیکن اُس کے بعد اُن کے ساتھ کیسا سلوک کیا جاتا وہ ایک ایسا ڈراؤنہ خواب ہے جس کا اُنہیں ماضی میں بھی واسطہ پڑ چکا ہے۔ لٰہذا اُنہوں نے حالات کی نزاکت کا ادراک کرتے ہوئے وسیع القلبی کا مظاہرہ کر کے دانشمندی اور بصیرت کا ثبوت دیا ہے۔
وہ اگر دوسروں کی باتوں پر اشتعال میں آ کر مشرف کو آئین و دستور میں درج سزا دلانے کی اپنی ضد پر اڑ جاتے تو کسی اور کا تو کچھ نہیں بگڑتا البتہ وہ درخورِ زنداں ضرور کر دیے جاتے اور اِس بار اُنہیں اِس مصیبت سے نکالنے کے لیے کوئی دوست اسلامی ملک بھی آگے نہیں بڑھتا۔ جنرل پرویز مشرف ویسے بھی کوئی چھوٹا موٹا شخص نہیں تھا۔ وہ پاک فوج کا سربراہ تھا اور اُس کا کا تعلق جس حلقہ اور ادارے سے تھا وہاں کسی کو لاوارث اور بے یارومددگار نہیں چھوڑا جاتا اُس کی حفاظت ادارے کی ذمے داریوں میں شامل ہے۔
یہ سیاستداں ہی ایسی مخلوق ہے جس کا کوئی والی وارث نہیں ہوتا۔ وہ جب کسی مصیبت میں پھنستا ہے تو سب سے پہلے اُس کے اپنے ساتھی اُس کا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ وہ عدالتوں میں مقدمات کی سولی سے گزر کر پھانسی پر بھی لٹک جائے توکوئی اُسے بچانے والا نہیں ہوتا۔ شعبہ صحافت سے تعلق رکھنے والے ایک دانشور نے آج کے حالات کے تناظر میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے متعلق کتنا خوبصورت تلخ اور حقیقت پسندانہ سوال کیا ہے کہ '' بھٹو اگر جنرل ذوالفقار علی بھٹو ہوتا تو کیا کوئی اُسے سولی پر لٹکا سکتا تھا۔'' یہی ہمارے معاشرے کی اصل حقیقت اور حیثیت ہے۔ اِسے جس نے جتنی جلدی سمجھ لیا وہی دانا او ر زیرک ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کو نواب محمد احمد خان قصوری کو قتل کروانے کے جرم میں تختہ دار پر لٹکنا پڑا ۔ اُن کا یہ جرم مشرف کے اُس جرم سے کچھ مختلف نہ تھا جس میں اُنہوں نے سردار اکبر بگٹی کو للکار کر کہا تھا کہ ''یہ ستر کی دہائی نہیں ہے کہ تم بچ پاؤ گے۔ اِس بار تمہیں پتہ بھی نہیں چلے گا کہ گولی کس طرف سے آئی ہے۔'' سیاستداں چاہے کتنا ہی بڑا، طاقتور اور مقبول کیوں نہ ہو اُس کی حیثیت پانی کے ایک بلبلے سے زیادہ ہرگز نہیں ہے۔ وہ چاہے سو فیصد عوامی مینڈیٹ لے کر وزیرِاعظم بن جائے لیکن کسی انجانی دیو مالائی قوت کا خوف اُس کے سروں پر ہر وقت سوار رہے گا۔