وہ اپنا رہبر خود بن سکتا ہے

ہمارے معاشرے میں ایک عجیب قسم کی بے چینی پائی جاتی ہے


Shabnam Gul March 31, 2016
[email protected]

ہمارے معاشرے میں ایک عجیب قسم کی بے چینی پائی جاتی ہے۔ کئی سالوں سے دہشت گردی کے غیر انسانی واقعات کی وجہ سے، عدم تحفظ کا احساس بڑھا ہے۔ لاہور میں ہونے والے حالیہ بم دھماکے نے لوگوں کی تشویش میں اضافہ کر دیا ہے۔ یہ سرسبز باغ ہی ہیں، جہاں جا کر وہ اپنا ذہنی دباؤ، پریشانی اور دوسرے کئی مسائل بھول جاتے ہیں۔ تعلیمی اداروں، بازاروں اور شاہراہوں کے بعد اب باغات بھی غیر محفوظ ہو چکے ہیں۔

اس غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے تفکر اور تشویشی امراض میں بتدریج اضافہ ہوا ہے۔ معاشرتی صفوں میں الگ انتشار پایا جاتا ہے کچھ مسائل پیچیدہ اور توجہ طلب ہیں، لیکن بے وجہ پریشانی اور تشویشی رویے ناپختہ شخصیت اور ادراکی خلل سے منسوب کیے جاتے ہیں۔ جن کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ جن میں موروثی اثرات، جسمانی بیماریاں، ادویات کا استعمال، بے خوابی، جسمانی ورزش کی کمی، تخلیقی و تعمیری سرگرمیوں سے دوری وغیرہ آ جاتے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ مردوں کے مقابلے میں لڑکیاں اور عورتیں زیادہ تشویش کا شکار رہتی ہیں۔ ماحول میں موجود عدم تحفظ اور منفی معاشرتی رویے ان پر زیادہ اثرانداز ہوتے ہیں۔ اکثر مثبت سوچ کے فقدان کی وجہ سے، مسائل کا حل ملنے کے بجائے مزید پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔ مسائل کو نفسیاتی پس منظر میں نہیں سمجھا جاتا۔

اگر دیکھا جائے تو ایک نارمل شخص کو اپنے کردار پر ضابطہ حاصل ہوتا ہے، لہٰذا وہ جذباتی اظہار صورتحال کے مطابق کرتا ہے۔ ان افراد میں غصہ، ہیجان اور جذباتی ضبط کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ ان کا حقیقت پسندانہ رویہ، اجتماعی سوچ، ذات اور معاشرے کے ساتھ ہم آہنگی اور صلاحیتوں کا مثبت استعمال شامل ہے۔

گزشتہ چند دہائیوں سے تشویشی امراض میں اضافہ ہوا ہے۔ اس Anxiety یا تشویش کے پس منظر میں معاشرتی، معاشی، سیاسی و اخلاقی محرکات کارفرما ہیں۔

درحقیقت اینگزائٹی کا لفظ جرمن Angst سے نکلا ہے۔ جس کا مطلب خوف ہے۔ دوسری جانب Panic (ہراسانی) کا لفظ ہے، جو یونانی دیومالائی قصے Pan کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے۔ جس میں زرخیزی اور زمین کا دیوتا، انسانوں میں خوف کی شدت بانٹتا ہے۔ خاص طور پر جب وہ ویران جگہوں کی طرف سفر کرتے ہیں جب کہ افریقی یا نیٹو امریکی قبیلے، اس خوف یا ذہنی بیماری کو بد روحوں کے تسلط، اخلاقی قدروں کی پامالی اور روح کی گمشدگی سے منسوب کرتے ہیں۔

جدید دور میں نئی و پرانی قدروں کا ٹکراؤ، جذبات کا کچلنا یا دبانا، اظہار پر پہرے، معاشرتی اقدار کا خوف، شرم و ندامت، شخصی آزادی سے محرومی، بے جا روک ٹوک اور تسلط وغیرہ تشویشی امراض کا سبب بنتے ہیں۔ اس مرض کی کڑیاں بے جا خوف، ہراسانی، مستقل پریشانی، گھبراہٹ، خیالات کے تسلط، صدمے اور فوری فشار سے جا ملتی ہیں۔ خوف کی کئی صورتیں ہیں۔ جس میں قدرتی ماحول کا خوف، سماجی خوف، اونچائی کا خوف، کھلی جگہوں کا خوف اور موت کا خوف وغیرہ شامل ہے۔

خوف کا ازالہ وقت پر اشد ضروری ہے۔ ورنہ یہ پختہ ہو کر کئی ذہنی و جسمانی بیماریوں کا پیش خیمہ بنتا ہے۔ معاشرتی رویے شخصی خامیوں کو مسترد کرتے ہیں لہٰذا اکثر لوگ بری عادات و ذہنی کیفیات پوشیدہ رکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اظہار کا راستہ نہ پا کر مرض پیچیدہ ہوجاتا ہے۔

ہم ذہنی و جسمانی بیماریوں کو حقیقت پسندانہ انداز سے نہیں دیکھتے بلکہ انھیں حد سے زیادہ خود پر طاری کر لیتے ہیں۔ حتیٰ کہ بچوں کا بچپن اور جوانی کے خوبصورت دن بڑوں کی بیماریوں اور غیر حقیقت پسندانہ رویوں کی نذر ہو جاتے ہیں۔ جس طرح نوید کے ساتھ ہوا۔ نوید تیس سالہ خوبصورت نوجوان تھا۔ وہ دبئی میں اچھی ملازمت پر فائز تھا۔ اس کی والدہ بے جا تشویش اور واہموں میں گھری ہوئی خاتون تھیں۔

نوید ماں سے بہت زیادہ محبت کرتا تھا اور ان کی صحت کی وجہ سے پریشان رہتا تھا۔ والدہ کو جب دوسری بار دل کا دورہ پڑا تو وہ ملازمت چھوڑ کر واپس پاکستان ماں کے پاس آ گیا۔ ماں کو تو کچھ نہیں ہوا البتہ خود نوید کی اچانک موت واقع ہو گئی۔ جس کا سبب معلوم نہ ہو سکا۔ یقینی طور پر یہ لڑکا ضرورت سے زیادہ تشویش کا شکار تھا۔ درحقیقت یہ خوف اور پریشانی کئی جان لیوا امراض کا پیش خیمہ بنتے ہیں۔

والدین کی طرف سے پریشانی کو Separation Anxiety (قریبی رشتوں کی دوری سے تشویش) کہا جاتا ہے۔ بچہ جب اسکول جاتا ہے، اور ہنستی و مسکراتی ماں اسے الوداع کہتی ہے اور واپسی پر خوشی سے اس کا خیرمقدم کرتی ہے تو بچہ اس عارضی جدائی کو مثبت انداز سے دیکھتا ہے۔ جب کہ ایک پریشان حال اور اندیشوں میں مبتلا ماں، بچے کے اندر غیر یقینی کا احساس منتقل کر دیتی ہے۔

وہ مائیں جن کے پہلے بچے کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ دوسرے بچے سے زیادہ جذباتی طور پر وابستہ ہو جاتی ہیں۔ بچے جب محسوس کرتے ہیں کہ ان سے جدا ہو کر مائیں پریشان اور ناآسودہ ہوجاتی ہیں تو وہ بھی اندیشوں میں گھرے رہتے ہیں۔

والدین کے درمیان جھگڑے بھی ذہنی تناؤ کو جنم دیتے ہیں۔ شوہر کی طرف سے عدم تحفظ کا شکار بیوی، بیٹوں سے بہت سی توقعات وابستہ کرلیتی ہیں۔ یہ رویے بچوں کی زندگی پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ اسی لیے زیادہ تر مائیں بیٹوں پر اپنی اجارا داری قائم رکھنے کی کوشش میں، ان کی ہنستی بستی زندگی اجاڑ کے رکھ دیتی ہیں۔

والدین کے ان رویوں کی وجہ سے بیٹیاں بھی تشویش میں مبتلا ہوجاتی ہیں۔ ایک طرح سے ہم اپنے بچوں کو پریشان ہونے کے طریقے سکھاتے ہیں جب کہ ظاہری طور پر انھیں خوش رہنے کا درس دیتے ہیں۔ خوشی لفظوں سے زیادہ عمل کی محتاج ہوتی ہے۔

غیر مشروط محبت مثبت اثر رکھتی ہے۔ محبت میں خود انحصاری کا سلیقہ، زندگی بخش احساس میں ڈھل جاتا ہے۔ فقط رشتوں پر انحصار کی عادت پڑ جائے، تو انسان سہارے کی بے ساکھی کے بغیر نہیں چل سکتا۔ بچوں کی پرورش میں خودانحصاری اور خود اعتمادی کی کمی، آگے چل کر ان کی شخصیت میں بہت بڑا خلا پیدا کردیتی ہے۔

معاشرتی زندگی کو نئے دور کے تقاضوں کے مطابق تبدیلی لے کر آنی چاہیے۔ یہ رویہ نئی نسل سے فاصلے کم کردیتا ہے۔ دوستی، رشتے و ناتے مثبت رویوں کا کھلا آسمان چاہتے ہیں۔ یقین دینے سے ثابت قدمی کا رجحان پختہ ہوتا ہے جب کہ شک بدترین نتائج سامنے لے کر آتا ہے۔

تشویشی امراض کا علاج مختلف طریقوں سے کیا جاتا ہے۔ متاثرہ فرد کو مخصوص طرز فکر کے دائرے سے باہر نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کرداری طریقہ علاج، تحلیل نفسی اور سماجی مہارتوں کی تربیت کارگر ثابت ہوتی ہے۔

نفسیاتی مسائل کا حل، متاثرہ افراد کی سوچ میں تبدیلی لانے سے ملتا ہے۔ چاہے کوئی دوسرا اسے سوچ کا نیا تناظر دکھائے مگر اسے خود ذہن کی پیچیدگیوں سے لڑنے کا سلیقہ سیکھنا پڑتا ہے وہ اپنا رہبر خود بن سکتا ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں