تہوار ’’تھیم‘‘ کے ساتھ منائیں
ہمارے قومی و مذہبی تہوار ہمارے لیے خوشیاں لے کر آتے ہیں۔ ہم انھیں خوشیوں سے مناتے ہیں
ہمارے قومی و مذہبی تہوار ہمارے لیے خوشیاں لے کر آتے ہیں۔ ہم انھیں خوشیوں سے مناتے ہیں، ''انجوائے'' کرتے ہیں اور ضایع کر دیتے ہیں۔ ہم ہر سال اپنے ہر تہوار کے موقعے پر نجانے کتنے ہی لوگوں کی زندگیاں بدل سکتے ہیں، مگر ہم قدرت کی طرف سے عطا کردہ یہ سنہری موقع ضایع کر ڈالتے ہیں۔
ہمیں اپنے ہر تہوار کو کسی Theme کے ساتھ منانا چاہیے۔ میرا یہ ایک آسان سا آئیڈیا ہے۔ مثلاً ہم آنے والے 14 اگست کے لیے اسکولوں کی بحالی کی تھیم رکھیں، یعنی جہالت سے آزادی کی جدوجہد کی تھیم۔ ہم اس تھیم کے لیے ایک قومی فنڈ قائم کریں جس میں پورے پاکستان سے لوگ دو طریقوں سے چندہ دیں۔
نمبر ایک SMS کے ذریعے 20 روپے سے لے کر 2000 روپے تک فنڈ میں منتقل کر سکیں۔ نمبر دو براہ راست فنڈ کے اکاؤنٹ میں بینکوں کے ذریعے جتنی چاہیں رقم منتقل کریں۔ اب ذرا سوچیے کہ اگر 200 ملین یعنی 20 کروڑ پاکستانیوں میں سے صرف ایک ملین یعنی دس لاکھ یعنی کل آبادی کا صرف 0.5 فیصد، اگر فی کس صرف ایک ہزار روپے اس فنڈ میں بھیجیں تو یہ ایک ہزار ملین یعنی ایک بلین تقریباً ایک ارب روپے بنتے ہیں۔
اور ذرا سوچیے کہ اگر ان ایک ارب روپوں میں سے ایک ملین یعنی دس لاکھ روپے فی اسکول رکھے جائیں تو ملک میں موجود تباہ حال سرکاری اسکولوں میں سے کم از کم ایک ہزار اسکولوں کی حالت بدل سکتی ہے۔ اب سوچیے کہ ان میں سے ہر اسکول میں اگر تقریباً 200 بچے پڑھتے ہیں تو اس کا مطلب ہوا کہ تقریباً دو لاکھ بچوں کو فائدہ پہنچے گا اور اگر ہم ان بچوں کو فی خاندان 2 بچوں کے طور پر لیں تو اس طرح ایک لاکھ خاندانوں کو فائدہ پہنچے گا۔ یعنی ایک طویل المدت ثواب جاریہ کا کام۔
اب اسی طرح ہم 25 دسمبر اس ملک کے بانی قائداعظم کی پیدائش کے دن کی Theme پاکستان کے ان شہریوں، قائداعظم کے ان بیٹے بیٹیوں، ان خواتین و مردوں کا ساتھ نبھانے کا دن رکھ لیتے ہیں جن پہ ہم میں موجود انسان نما شیطانوں نے تیزاب پھینک کر ان کے چہرے اور جسم کو جھلسا دیا۔
اب اگر پھر 20 کروڑ میں سے صرف 0.5 فیصد ہی (صفر اعشاریہ پانچ فیصد) یعنی دس لاکھ پاکستانی صرف ایک ہزار روپے اس تھیم کے فنڈ میں دیتے ہیں تو ایک ارب روپے بن جاتے ہیں اور اگر تیزاب میں جھلسنے والے فی فرد کی سرجری پر اوسطاً تقریباً 20 لاکھ روپے خرچ آتے ہیں تو اس حساب سے کوئی پانچ سو خواتین اور مردوں کی سرجری کر کے اگر ان کی اصل شکل و حالت سو فیصد لوٹائی نہ بھی جا سکے تو بھی بہتر تو بنائی جا سکتی ہے۔ یہ ایک عظیم نیکی اور شاندار کام ہو گا، ان زندہ درگور انسانوں کے لیے۔اپنے قومی تہواروں کی طرح ہم اپنے مذہبی تہوار بھی مختلف تھیم کے ساتھ منا سکتے ہیں۔
مثلاً عید میلادالنبیؐ پر ہم یتیموں سے محبت کی تھیم رکھ سکتے ہیں کہ خدائے ذوالجلال کے آخری نبیؐ یتیموں سے خصوصی شفقت اور محبت سے پیش آتے۔ اب پھر ذرا سوچیے کہ قوم کے صرف 0.5 فیصد لوگ صرف ایک ہزار اس تھیم کے فنڈ میں دیں تو جمع شدہ ایک ارب سے فی یتیم خانہ ایک کروڑ روپے دیے جائیں تو 100 یتیم خانوں کی حالت میں بہتری لائی جا سکتی ہے اور اگر فی یتیم خانہ ہم 100 بچوں کا بھی حساب رکھیں تو یہ تعداد دس ہزار یتیم بچوں کی بنتی ہے یعنی ہم 10000 یتیم بچوں کی زندگیوں میں نمایاں بہتری لا سکیں گے۔ ذرا سوچیے کہ یہ کتنی بڑی سعادت ہو گی ہمارے لیے اور خدا اور اس کے رسولؐ ہم سے کتنا خوش ہوں گے۔
ہم اسی طرح اپنے دوسرے قومی و مذہبی تہوار مثلاً 23 مارچ، 6 ستمبر، عید اور بقر عید بھی ہر سال مختلف/ نئے تھیمز کے ساتھ منا سکتے ہیں۔ جیسے جیسے ہر تہوار کی تھیم کے فنڈ میں جمع ہونے والے پیسے اپنے تھیم کے مطابق صحیح طور پر خرچ ہوں گے ویسے ویسے لوگوں کا اعتماد بڑھے گا اور مزید لوگ مزید رقم ان مختلف تہواروں کی مختلف تھیمز کے فنڈز میں دیں گے۔
اب ہم آتے ہیں سب سے اہم سوال کی جانب کہ آخر یہ سب ہو گا کیسے؟ ایسے ملک میں جہاں جمہوری سیاستدان اور ان کے معصوم ساتھی پولیو کے قطروں میں پانی اور ڈینگی اسپرے میں مٹی کا تیل ملا کر مال بنا لیں، جہاں عطیے میں دی جانے والی ایمبولینس بطور ٹرانسپورٹ ویگن چلائی جائیں، جہاں غیر ملکی خاتون اول کی طرف سے سیلاب زدگان کے لیے دیا جانے والا ان کا ذاتی ہار پوری ڈھٹائی سے چوری کر لیا جائے، جہاں حاجیوں پہ بھی ہاتھ صاف کر لیے جائیں، جہاں سرکاری بابو زکوٰۃ فنڈ بھی کھا جائیں، وہاں بھلا یہ آئیڈیا کیسے کامیاب ہو سکتا ہے؟
بات تو صحیح ہے مگر یہ نہ بھولیے کہ اس دنیا میں ہر برے کام کی طرح ہر اچھا کام بھی ناممکن نہیں۔ ہم اس آئیڈیے کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات اور SOPs یعنی کام کرنے کے طریقے اپنا سکتے ہیں۔ (1) پاکستان میں نجی شعبے میں بڑے بڑے فلاحی منصوبے عوامی پیسوں کے صحیح استعمال کے ساتھ ممکن ہوئے ہیں مثلاً شوکت خانم اسپتال اور اخوت کا جاری و ساری کام۔ (2) ہر تہوار کی ہر تھیم کے لیے ایک فنڈ بنایا جائے، البتہ ہر تھیم کے لیے بینک اکاؤنٹ اور فنڈ میں چندہ بھیجنے کے لیے SMS نمبر ایک ہی ہونا چاہیے کہ جس میں ایک تھیم کے لیے پیسہ آئے اور استعمال ہو جائے، پھر دوسری تھیم کے لیے پیسہ آئے اور استعمال ہو جائے، اسی طرح سلسلہ چلتا رہے۔
(3) تہوار تھیم کی ایک باقاعدہ آرگنائزیشن ہونی چاہیے جس کی انٹرنیٹ ویب سائٹ پر ہر قومی و مذہبی تہوار پہ منائے جانے والی تھیم کے لیے جمع شدہ رقم اور اس کے خرچ کی مکمل تفصیل ہونی چاہیے، جو ہر شہری کی دسترس میں ہو۔ (4) ہر تہوار کی تھیم کے فنڈ میں چندے جمع کرنے کے کام کا آغاز اس تہوار کے دن سے کم از کم پندرہ دن پہلے شروع کرنا ہو گا۔ اس سلسلے میں میڈیا خصوصاً ٹی وی چینلز اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ ٹی وی چینلز ہر تہوار کی تھیم کی آگہی اور تشہیر کے ساتھ ساتھ لوگوں کو اس میں حصہ لینے پر مائل کریں اور دوسرے ان پندرہ دنوں میں سے ہر دن ایک چینل فنڈ ریزنگ ٹیلی تھان کے ذریعے تھیم کے فنڈ میں مزید اضافہ کر سکتا ہے۔
(5) ضرورت کے پیش نظر ایک ہی تھیم کو مختلف تہواروں پہ دہرایا بھی جا سکتا ہے۔ہر تہوار کو ایک عوامی فلاحی تھیم کے ساتھ منانے سے جس سے پورے ملک میں موجود لوگوں کو بنا کسی تفریق کے فائدہ پہنچے گا، نہ صرف ملک میں لسانی، طبقاتی و فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فائدہ پہنچے گا بلکہ دنیا میں پاکستان اور پاکستانیوں کا امیج بھی بہتر ہو گا۔ ہم آگے چل کر دوسرے ممالک کی بھی اس سلسلے میں رہنمائی کر سکتے ہیں۔ تک ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا تعلق ہے تو وہ اگر اپنے اشتہارات کے وسیع بجٹ میں سے کچھ حصہ پورے سال کے تہواروں کی مختلف تھیمز کی تشہیر اور اس سلسلے میں عوامی جذبہ جگانے کے لیے مختص کر دیں تو یہ ان کی عین مہربانی ہو گی۔تو کیا ہم امید کر سکتے ہیں کہ ہم اپنے قومی و مذہبی تہوار مختلف تھیمز کے ساتھ منا سکیں گے؟ مشکل ہے۔
مسئلہ دراصل یہ ہے کہ ہم شدید احساس کمتری کے مارے لوگ ہیں۔ ہم دوسروں کے آئیڈیاز بڑے فخر سے اپناتے ہیں۔ تو بس جناب! یہ مسئلہ ہے، ورنہ ہمارے ملک میں ایک نہیں کئی ملین لوگ ہوں گے کہ جن کے لیے قومی و مذہبی تہواروں کی تھیمز کے فنڈ میں پورے سال میں پانچ چھ ہزار روپے دینا کوئی بڑی بات نہیں ہو گی۔