گلشن کا کاروبار
اس بار جب گلوں میں رنگ بھرے تھے باد نو بہار چلی تھی، محبت جب اپنے رنگ بکھیر رہی تھی،
KARACHI:
اس بار جب گلوں میں رنگ بھرے تھے باد نو بہار چلی تھی، محبت جب اپنے رنگ بکھیر رہی تھی، فضاؤں میں مہک تھی، ادھر ہولی تھی ادھر ایسٹر تھا، کھیتوں کے گوشوں میں گندم کی فصل پک کے تیار کھڑی تھی۔ مگر نہ جانے کیوں باغ گلشن اقبال میں گلشن کا کاروبار لٹ گیا، ہر طرف آہ و فغاں تھی، چیخ و پکار میں سب کچھ گم ہوگیا۔
کوئی یہاں گرا، کوئی وہاں گرا، جسم کے ٹکڑے تھے، لہو کی پچکاریاں تھیں، بچوں کے ہاتھوں سے نکل کر کھلونے، ٹوٹی پھوٹی کانچ کی چوڑیاں، کوئی بچہ ماں کو پکارتا تھا تو کوئی ماں بچہ ڈھونڈتی ہے۔ وہ بوڑھا باپ اپنے بیٹے کا سینہ دباتا ہے کہ اس کے دل کی دھڑکن بحال ہو۔ یہ فیض احمد فیض کا شہر تھا، روشنیوں کا شہر، میٹرو بسوں و ٹرینوں کا شہر، مغلیہ دور کی حسیں عمارتوں کا شہر، مال روڈ کی مستیوں و آوارگیوں کا شہر، یہ لاہور تھا اور اب لہو لہو ہے۔
اور لہو کس کا تھا؟ کون جانتا ہے اب کے شالیمار باغ ہو یا باغ گلشن اقبال ہو، یہ سب چھوٹے طبقے کے لوگ ہوتے ہیں جو یہاں آتے ہیں، جن کے گھروں میں باغ نہیں ہوتے، پھولوں کے گملے نہیں ہوتے، جن کی گلیاں کشادہ و ہوادار نہیں ہوتیں۔ اور اس دن تو ایسٹر تھا۔ کون ہوگا وہاں، وہ مسیحی برادری کے لوگ تھے۔ حیرت تو یہ ہوئی کہ اس بار خود نہ مسیحی برادری احتجاج کرتی نظر آئی، نہ انسانی حقوق کے علمبردار، اک شمع تھی دلیل سحر اور وہ تھی شعلہ بجاں عاصمہ جہانگیر، جو لاہور کے چوراہوں پر جا کر، اس کے لہو ہونے پہ مائل بہ احتجاج تھی۔
ہر مہینے کی 16 تاریخ کو 16 دسمبر کے سانحے کو پشاور میں ہنستے بچوں کو اسکول میں مارے جانے پر ہم دو تلوار کبھی یا تین تلوار کبھی کھڑے ہوئے تھے۔ ہم نہیں بھولے تھے ان معصوم بچوں کو، 16 دسمبر کو پورا پاکستان جیسے جاگ اٹھا تھا۔یا شاید وہ سب کچھ پنجاب سے باہر ہوا تھا اور اس بار پنجاب کے اندر، ہر سمت نیشنل ایکشن پلان کی سمت نظر آئی، مگر پنجاب اس سے الگ تھا، سب کو پتا تھا انتہا پرستی کی سب سے بڑی آماجگاہیں کہاں ہیں، مگر آپریشن وہاں جاری تھا جہاں ان کے اشاروں پر کام ہوتا تھا۔
کٹھ پتلیاں تو دوسرے صوبوں میں تھیں مگر جادوگر پنجاب میں تھا۔ ہم نے کٹھ پتلیاں مارنا شروع کیں مگر جادوگر نہیں۔یہ جو ہم نے اسلام آباد میں ڈی چوک پر جو نگری دیکھی اور وہ کرامات کہ ہیلی کاپٹر کو جب چپل ماری تو وہ بھاگ نکلا، یوں لگتا ہے جیسے حکمران جو ان کو اپنا سمجھتے تھے کوئی ان سے غداری کر بیٹھے ہوں اور کتنا پرتپاک استقبال ہوا ان کا ڈی چوک پر، پولیس و رینجرز بھاگتی ہوئی نظر آئی، کیا کیا نہ توڑ پھوڑ کی ان لوگوں نے اور حکومت کے جیسے ہاتھ پکے ہوئے تھے، پھر کیا ہوا، پھر سب معاف ہوا۔ اسی دن جب ڈی چوک پر دھرنا تھا تو دھرنا بعد میں کراچی میں بھی ان کے ساتھیوں نے لگایا تھا، یہاں پر بھی صرف ان کا گھیرا تنگ کیا گیا تھا، اور جو استادوں کا مظاہرہ تھا اس پر تو ہولناک لاٹھی چارج بھی ہوا، آنسو گیس، تیز پانی بھی پھینکا گیا کہ وہ منتشر ہوں۔
یہ پہلی بار تھا کہ اک طرف خودکش حملہ تھا، تو دوسری طرف دھرنا تھا اور بظاہر دونوں کا آپس میں کوئی بھی تعلق نہ تھا۔ زہر بہت اندر تک پھیل چکا ہے اور دوسری طرف ہندوستان اور پاکستان کے بیچ پراکسی جنگوں کا کاروبار۔ اب کی بار جنگیں اپنی ماہیت تبدیل کرچکیں۔ ہندوستان کے اندر خود کشمیر کے لیے نئی رائے عامہ پیدا ہورہی ہے اور وہ ان کو غداری کے زمرے میں لیتے ہیں۔
سرد جنگ تو کب کی ختم ہوئی، مگر مشرق وسطیٰ میں آمریتوں نے اپنی بادشاہت بچانے کے لیے مذہب کا کاروبار کیا، جس کے شکار ہم بھی ہوئے اور پھر خود ایران و سعودی عرب کے درمیان سرد جنگ کی پراکسی ہماری زمین پر کھیلی گئی، یہ اس کا بھی ثمر ہے کہ ہم بے ثمر رہے۔کسی نے کیا خوب کہا، یہاں دکانیں و بازار ہیں کہ بند ہوئے جاتے ہیں، مدرسے ہیں کہ روز نئے کھلتے جا رہے ہیں۔
ہمیں اب کچھ بھی پتا نہیں کہ ہم کون ہیں، ہمارے آباؤ اجداد کون تھے، ہماری بنیادیں کہاں ہیں، ہماری تاریخ کیا ہے، ہر چیز یہاں مسخ ہوئی ہے، ہر چیز میں یہاں ملاوٹ ہے، کوئی کفر کا فتویٰ دیتا ہے، کوئی غداری، تو کوئی کاری کا۔ اس لیے ہمارے دشمن تین ہیں، ایک وہ جو ہمارے اندر پراکسی جنگ کھیلتا ہے اور ایک وہ جو اندھیرے بیچتا ہے ، مذہب کے نام پر دہشت پھیلاتا ہے، اور تیسرا ہمارا دشمن وہ ہے جو بری حکمرانی کا کاروبار کرتا ہے۔
یہ سب جو بالائی ڈھانچہ آپ دیکھ رہے ہیں سراپا التباس ہے، جس میں ہر طرف خلفشار ہے، اس کی بنیادی سطحیں یہی تین ہیں، جس کو میں نے اوپر بیان کیا ہے۔
یہ کہہ دینا کہ یہ سب اک رات میں ختم ہوگا، بالکل غلط، مگر ہم نے بلا تاخیر صحیح سمت لینی ہے اور صحیح سمت پر سفر کو جاری رکھنا ہے، اس معاملے کو خراب کرنے میں بھی دہائیاں لگیں تو اس معاملے کو ٹھیک ہونے میں بھی دہائیاں درکار ہیں۔ حادثے اچانک جنم نہیں لیتے اور یہ صورتحال بھی اچانک ٹھیک نہیں ہوگی۔ زخم بھرنے کا انتظار کرنا ہوگا۔ نہ گورباچوف کی جلدی دکھانی ہے، نہ محمد شاہ رنگیلے کی طرح نادر شاہ کے سامنے ہتھیار پھینکنے ہیں۔ نہ دھرنے پر گولی چلانی ہے، اور نہ مدرسوں کو کھلی آزادی دینی ہے۔بیس کروڑ کی آبادی میں ایسے لوگ بڑھ کر اب ایک کروڑ ہوگئے ہیں۔
مشکل سے دو چار اسمبلی میں نشستیں لے کر یہ پہنچ جاتے ہیں مگر ان کی اسٹریٹ پاور بھی بڑی ہے اور اب تو خودکش حملہ آور بھی اس وقت میدان میں آتے ہیں جب یہ دھرنا لگاتے ہیں۔ اب تو نہ خودکش حملہ آوروں کو اس بات کی کوئی فکر کہ اس کی پہچان نہ ہوپائے اور نہ ان کو اس بات کی فکر کہ اس خودکش حملہ آور کو برا کہیں اور جو مولوی حضرات درمیانہ روی اختیار کرتے ہیں وہ ان کو اپنے قبیلے سے نکال دیتے ہیں۔معقول آواز، میانہ روی کی بات اب کے جیسے نگار خانے میں کسی طوطی کی آواز ہو اور کیوں نہ ہو، ایسے بھلا آخر ان کا بھی کاروبار ہے۔ آپ کی باتیں ان کے لیے ان کے دھندے کے لیے اچھی ہیں۔
جاتے جاتے آج ضیا الحق خوب یاد آئے، یہ آپ ہی تھے جنھوں نے آج جو کچھ نظر آرہا ہے اس کی بنیادیں ڈالیں، آپ ہی تھے جو مذہب کو شدت آمیزی کے ساتھ ریاست کے کاروبار میں گھسیٹ کر لائے۔ آج یہ عناصر خود ہمارے اداروں کے خلاف صف آرا ہیں اور بہت سے ایسے بھی ہیں جو عدالتوں میں بیٹھ کر ان کے افکار کے علمبردار تھے اور پھر آج کل حکومت میں بھی ان کے چاہنے والے بہت ہیں۔ آپ جب زندہ تھے تو اتنے زندہ نہ تھے جتنے آپ جانے کے بعد زندہ ہیں۔یوں تو کہتے ہیں کہ ''زندہ ہے بھٹو زندہ ہے'' مگر زرداری صاحب کے بعد وہ زندگی سے خفا ہوگئے، یہاں پھر بھی لیکن ہولی پر سندھ میں پبلک ہالیڈے نیک شگون تھا، بھائی چارہ پھیلانے کے لیے، گلشن کا کاروبار چلانے کے لیے۔