مصوری کسی اور دنیا میں لے جاتی ہے
تخلیقی ذہن رکھنے والا ہر ماحول میں کام کرسکتا ہے، فن اور فن کار معاشرے کا آئینہ ہوتے ہیں
عبدالحمید بلوچ 10 مارچ 1966 کو قلات میں پیدا ہوئے۔ فوٹو : فائل
ISLAMABAD:
رنگ اُن کے شب و روز میں رچے بسے ہیں۔ فن مصوری زندگی کا جُزو ہے۔سماج میں بکھری کہانیوں کو تصویری روپ دینا کوئی اُن سے سیکھے۔ اِس مہارت اور گرفت سے خیال کینوس پر منتقل کرتے ہیں کہ آنکھوں کے سامنے پوری داستان آجاتی ہے!
یہ ذکر ہے، سادہ مزاج، نرم گو عبدالحمید بلوچ کا، جنھوں نے اوائل عمری ہی میں رنگوں سے دوستی کرلی تھی۔ اُن کے فن پارے گوکہ زبان نہیں رکھتے، لیکن پَلوں میں پورا قصّہ بیان کر دیتے ہیں۔ قدرتی مناظر، مسائل میں الجھا انسان اور تیزی سے بدلتی شہری زندگی کینوس پر منتقل کرنا اُن کا خاصہ ہے۔ شہر کے موجودہ حالات بھی رنگوں کے وسیلے اجاگر کررہے ہیں۔
یوں تو بچپن ہی میں یہ ''مرض'' لاحق ہوگیا تھا، البتہ گذشتہ اٹھارہ برس سے کُلی طور پر اِس سے بندھے ہوئے ہیں۔ اُن کے فن پاروں کی نمایش پاکستان کے مختلف شہروں کے علاوہ جرمنی میں بھی ہوئی۔ اپنا فن نوجوان نسل میں منتقل کرنا اُن کا مقصد ہے۔ آج اُن کے کئی شاگرد اندرون و بیرون ملک حسین ثقافتی رنگ پینٹ کر رہے ہیں۔
عبدالحمید بلوچ 10 مارچ 1966 کو قلات، بلوچستان میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد، عبدالقادر محکمۂ پولیس میں ملازم تھے، جنھیں ملازمت کوئٹہ لے آئی۔ ابتداً خاندان نے شہر کے قدیم علاقے کیچی بیگ میں رہایش اختیار کی، پھر پولیس لائن کوئٹہ میں ڈیرا ڈالا۔ وہیں سے عبدالحمید بلوچ نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ 1983 میں کیچی بیگ ہائی اسکول سے میٹرک کیا۔ پرائیویٹ ایف اے کرنے کے بعد بلوچستان یونیورسٹی سے بیچلرآف فائن آرٹس کا مرحلہ طے کیا۔ ماضی کھنگالتے ہوئے بتاتے ہیں،''جب میں پرائمری میں تھا، اُس وقت تصویریں بنایا کرتا تھا۔ خطاطی بھی کرتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ شوق بڑھتا رہا۔'' چند برس وہ مسلم آباد ہائی اسکول میں، جو اب شفیق شہید ہائی اسکول کے نام سے جانا جاتا ہے، زیر تعلیم رہے۔ اُس دورانیے نے شوق کے لیے مہمیز کا کام کیا۔ ''اُن دنوں وہاں مرزا صاحب ڈرائنگ ٹیچر ہوا کرتے تھے۔ بڑے ہی نفیس اور شفیق انسان تھے۔ اپنے مضمون سے بہت محبت کرتے تھے۔ طلبا کو انتہائی پیار سے ڈرائنگ سکھاتے۔ جس کی ڈرائنگ اچھی ہوتی، اُسے سراہتے تھے۔ اُن کی وجہ سے مجھے بڑا حوصلہ ملا۔''
یہ اُس وقت کا ذکر ہے، جب وہ آٹھویں جماعت میں تھے۔ ایک روز ڈرائنگ ٹیچر کی جانب سے تمام طلبا کو شیخ چلی کی کہانی کارٹون کی صورت بیان کرنے کا اسائنمنٹ ملا۔ صرف دو طلبا نے یہ اسائنمنٹ تیار کیا، جن میں سے ایک عبدالحمید بلوچ تھے۔ خاصی محنت کی تھی، جس کے حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے۔ استاد نے تعریف کی، دیگر طلبا کو اُن کے بنائے ہوئے کارٹون دکھائے۔ ''وہ دن مجھے کبھی نہیں بھولتا۔ میری بہت حوصلہ افزائی ہوئی۔ مزید اعتماد پیدا ہوا۔''
اُس وقت اُنھیں قطعی اندازہ نہیں تھا کہ فائن آرٹس بھی کوئی شعبہ ہے، بلوچستان میں اِس تعلق سے خال خال ہی کوئی سرگرمی ہوتی، سو خاموشی سے رنگوں سے کھیلتے رہے۔ کوئی کہانی پڑھتے، تو اُس کی مناسبت سے اسکیچ بنا ڈالتے۔ بتاتے ہیں، اُس دور میں کہانیوں کی کتابیں کرایے پر مل جاتی تھیں۔ چھوٹی کتابوں کا یومیہ کرایہ چار آنے (پچیس پیسے) ہوتا، بڑی کتابیں، جیسے ناول وغیرہ، آٹھ آنے یعنی پچاس پیسے یومیہ پر مل جاتیں۔ کہانیاں پڑھ کر یہ خیال ذہن میں پنپتا کہ اُنھیں تصویری شکل دی جائے۔ کہتے ہیں،''ان ہی دنوں میرے ایک دوست، سیف اﷲ نے اخبار میں پڑھا کہ بلوچستان آرٹس کونسل میں فائن آرٹس کی کلاسز شروع ہورہی ہیں۔ اس نے مشورہ دیا کہ داخلہ لے کر صحیح طریقے سے یہ فن سیکھا جائے۔ حقیقی معنوں میں اُسی نے میری راہ نمائی کی۔ وہ ہی مجھے آرٹس کونسل لے گیا، ورنہ مجھے تو آرٹس کونسل کا پتہ ہی نہیں تھا۔''
1985 میں آرٹس کونسل کا حصہ بننے کے بعد انھیں کلیم خان جیسے استاد کی سرپرستی میسر آئی۔ باقاعدہ سیکھنا شروع کیا۔ چھے برس وہاں زیر تعلیم رہے، رنگوں کے اسرار و رموز سمجھتے رہے۔ 1990 میں وہیں استاد ہوگئے، آرٹس کونسل میں داخلہ لینے والے طلبا کو سکھانے لگے۔ لگ بھگ بیس برس آرٹس کونسل میں تدریسی ذمے داریاں نبھائیں۔ کہتے ہیں،''یوں تو اِس عرصے میں ہزاروں نوجوان میرے پاس آئے، لیکن ہر ایک میں وہ جذبہ نہیں ہوتا۔ خیر، مستقل شاگردوں کی تعداد بھی سیکڑوں میں ہے۔'' آج کل وہ ''آرٹسٹ سوسائٹی آف بلوچستان'' کے زیر نگرانی، رضا کارانہ طور پر اِس فن کی تربیت دے رہے ہیں۔
ان برسوں میں اُنھوں نے اندرون و بیرون ملک ہونے والی کئی گروہی نمایشوں میں حصہ لیا۔ ہر موقعے پر فن شناسوں نے اُن کے فن پاروں کو سراہا۔ جرمنی میں ہونے والی فن مصوری کی بین الاقوامی نمایش میں بھی اُن کا فن موضوع بحث بنا۔ اِس نمایش میں پاکستان کے دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے مصوروں نے بھی شرکت کی۔ کہتے ہیں،''یہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔ وہاں ہم نے پاکستان کے چاروں صوبوں کی ثقافت کو فن مصوری کے ذریعے دنیا کے سامنے پیش کیا۔''
مصوری اُنھیں کسی اور دنیا میں لے جاتی ہے۔ اِس عمل میں گم ہوجاتے ہیں۔ کہنا ہے،''دراصل ہر انسان میں چیزوں کو پرکھنے کی ایک حس ہوتی ہے، جسے وہ ظاہر کرنا چاہتا ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ مصوری کے شعبے میں مَیں کچھ کرسکتا ہوں۔ سو روز مرہ کی زندگی، اپنے شہر اپنے لوگ، اپنے معاشرے، اپنی ثقافت کو کینوس پر منتقل کرتا ہوں۔'' کہتے ہیں کہ فن اور فن کار معاشرے کا آئینہ ہوتے ہیں۔ ''آرٹسٹ کا مشاہدہ اور فکر ایک طرح سے تخلیقی عمل ہی ہوتا ہے!''
نوجوانوں کی اِس فن میں دل چسپی کے تعلق سے کہنا ہے کہ بلوچستان کی سرزمین نہ صرف وسائل، بلکہ فطری حسن اور قدرتی مناظر سے بھی مالامال ہے، جس کی وجہ سے مصور کے لیے اِس خطے کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ ''حسین ساحل، سنگلاخ اور معدنی وسائل سے مالامال پہاڑ، ہرے بھرے کھیت، باغات، کھجور کے دل کش درخت اور قدرتی نظارے دل موہ لیتے ہیں۔ مجھ سمیت کئی فن کاروں نے اُنھیں کینوس پر منتقل کیا۔ بلوچستان کے نوجوان مصوری کی جانب آ رہے ہیں، اور میرے نزدیک یہ تخلیقی سوچ سے مالامال ہیں۔'' بلوچستانی نوجوانوں کی صلاحیتوں پر یقین رکھتے ہیں۔ بس، دُکھ ہے کہ اُنھیں مواقع فراہم نہیں کیے جارہے۔ ''بلوچستان جیسے بڑے صوبے میں آرٹ کی سرگرمی صرف کوئٹہ تک محدود ہے۔ میرے پاس اندرون صوبہ نمایش کرنے کے وسائل نہیں۔ محدود وسائل، پینٹنگز سے ہونے والی یافت پر گزربسر کرتا ہوں۔ ہاں، ریلوے میں ایک چھوٹی سی ملازمت بھی ہے۔''
شاگردوں کا ذکر نکلا، تو کہنے لگے،''میرے بے شمار شاگرد بیرون ملک اپنی ثقافت اور رسم و رواج کو خوب صورت رنگوں کے وسیلے بکھیر رہے ہیں۔ اسد درانی برطانیہ میں ہے، رحمت اﷲ کینیڈا میں۔ ایک شاگرد آصف دبئی میں ہے۔ اِسی طرح ایک شاگرد آسٹریلیا میں مقیم ہے۔ یہ سب بلوچستان کے کلچرل کو بیرون ملک متعارف کروا رہے ہیں۔''
خواہش مند ہیں کہ فن مصوری کے فروغ اور نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو آزمانے کے لیے حکومت اُن کی سرپرستی کرے، نمایشوں کا اہتمام کروائے۔ ''ہر ڈسٹرکٹ میں نمایش منعقد کی جائے۔ فائن آرٹس کے ادارے قائم ہوں، تاکہ صوبے کے نوجوان اپنی صلاحیتیں بروئے کار لائیں۔''
فن پاروں کی فروخت کا کیا معاملہ ہے؟ اس سوال کے جواب میں کہتے ہیں، بیرون ملک، بیرون صوبہ مقیم فن شناس پینٹنگز خریدنے میں زیادہ دل چسپی لیتے ہیں۔ ''بلوچستان جب کوئی اکیڈمی ہی نہیں ہے، تو اِس حوالے سے لوگوں میں شعور کیسے آئے گا۔ لوگ کروڑوں روپے کا بنگلا تو بنا لیتے ہیں، لیکن ثقافتی اور سماجی حسن پر مشتمل فن پارے اُن کے گھروں کی زینت نہیں بنتے۔ لوگوں میں شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ شاید ابھی اس میں کچھ وقت اور لگے۔''
1991 میں لاہور میں ہونے والے ''ہائوس اینڈ کیپٹل شو'' میں بلوچستانی ثقافت کے حسین رنگ بکھیرنے والے عبدالحمید بلوچ کو متعدد اعزازات سے نوازا گیا۔ حکومت بلوچستان نے 2009 میں اُنھیں مست توکلی ایوارڈ کا حق دار ٹھہرایا۔ 2010 میں ایس ایس حیدر ایوارڈ دیا گیا۔ دیگر اداروں نے بھی نشان سپاس پیش کیے۔
چار بہن بھائیوں میں عبدالحمید بلوچ کا نمبر دوسرا ہے۔ انھوں نے 2004 میں گھر والوں کی پسند سے شادی کی۔ بتاتے ہیں، اہلیہ فقط پینٹنگز دیکھنے کی حد تک دل چسپی رکھتی ہیں، البتہ اُن کا حوصلہ ضرور بڑھاتی ہیں۔ اُن کے بہ قول،''میں دن بھر گھر سے باہر رہتا ہوں، وہ گھر میں اکیلی ہوتی ہیں، یہی عمل میرے نزدیک حوصلہ افزائی ہے۔'' گھر کا کھانا ترجیح ہے۔ کوئی خاص پسند نہیں، جو بھی مل جائے۔ نیلا اور سفید رنگ زیادہ پسند ہیں۔ کہنا ہے، نیلے رنگ میں ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے، سفید رنگ کو روشنی کی علامت سمجھتے ہیں، جس سے امن اور پاکیزگی کا احساس جنم لیتا ہے ۔
کھیلوں میں فٹ بال، ہاکی اور بیڈمنٹن سے دل چسپی ہے۔ بچپن میں اُن کا تجربہ بھی کیا۔ غزلیں پسند ہیں۔ پرانی پاکستانی فلمیں جب سینما گھروں میں لگا کرتی تھیں، اُس وقت دیکھتے تھے، آج کل انڈین فلمیں دیکھتے ہیں ۔ ان کے نزدیک تخلیقی ذہن رکھنے والا فن کار ہر قسم کے ماحول میں کام کرسکتا ہے۔ ''ہم جہاں بھی ہوتے ہیں، جیسے بھی حالات ہوتے ہیں، کام کرتے ہیں۔ اردگرد کے ماحول کو بھی کام میں شامل کرلیتے ہیں۔ البتہ اگر ماحول میں اضطراب ہو، تو فن کار اُس طرح لطف اندوز نہیں ہوسکتا، جسے پُرامن ماحول میں ہوتا ہے۔ پُر امن ماحول میں کام کرنے کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔''
جب تخلیقی رَو برطانوی دور میں لے گئی۔۔۔
1935 کے زلزلے میں تباہ ہونا والا کوئٹہ ''لٹل پیرس'' اور ''لٹل لندن'' کہلاتا تھا۔ اُس کوئٹہ کو مہارت اور پختگی سے کینوس پر منتقل کرنا عبدالحمید بلوچ کا حیران کن کارنامہ ہے۔ اس تعلق سے تخلیق کردہ انوکھے فن پارے اُس زمانے کے کوئٹہ کی اہم عمارتوں اور گنجان بازاروں پر مشتمل ہیں۔ اُن میں 1900میں تعمیر ہونے والا سنڈیمن میموریل ہال، جو زلزلے میں تباہ ہوگیا تھا، نظر آتا ہے۔ آج یہ ہال میٹروپولیٹن کارپوریشن کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اُنھوں نے اسٹاف کالج، کوئٹہ کی عمارت کو، جو 1930میں تعمیر ہوئی تھی، کینوس پر پینٹ کیا۔ جناح روڈ، جو اُس زمانے میں بروس روڈ کہلاتا تھا، اور شارع لیاقت، جس کا نام اینڈنسین روڈ تھا، پر واقع عمارتیں بھی کینوس پر بڑی مہارت سے منتقل کیں۔
اُن کی پینٹنگز میں یہ عمارتیں برف سے ڈھکی نظر آتی ہیں۔ بتاتے ہیں،''کوئٹہ اپنے ٹھنڈے موسم اور برف باری کے لیے آج بھی مشہور ہے۔ مگر اب اتنی برف باری نہیں ہوتی، جتنی برطانوی دور میں ہوا کرتی تھی۔ انگریزوں نے صرف 50 ہزار کی آبادی کے لیے یہ شہر بسایا تھا، جس کی سڑکوں پر تانگوں کے علاوہ چند موٹرگاڑیاں بھی نظر آتی تھیں۔ اُس زمانے میں برف باری اور بروس روڈ کی بُلند و بالا عمارتوں کا امتزاج بہت ہی حسین منظر پیش کیا کرتا تھا۔''
تاریخ کو کینوس پر منتقل کرنے والے اِس مصور کے مطابق برطانوی دور کا کوئٹہ فقط چند تصاویر پر محیط تھا۔ ''میں نے اُسے نئے رنگ دے کر نئے سانچے میں ڈھالا ہے۔ میری کوشش تھی کہ پینٹنگز میں وہ حقیقی رنگ آجائے، جو پرانے کوئٹہ کا حوالہ تھا۔ 'میموریز آف کوئٹہ' کے نام سے میں نے اپنی پینٹنگز کو کتابی شکل بھی دے دی ہے۔ اب زیادہ سے زیادہ لوگ پرانا کوئٹہ قریب دیکھ سکتے ہیں، اُسے اپنے پاس محفوظ کرسکتے ہیں۔''
زلزلے سے پہلے کا کوئٹہ پینٹ کرنے کا خیال کیوں کر سُوجھا؟ اس بابت کہتے ہیں،''جس طرح میں آج کے معاشرے کو پینٹنگز کے ذریعے اجاگر کررہا ہوں، اِسی طرح میری تخلیقی رَو مجھے برطانوی دور میں لے گئی۔ جب میں نے اُس کوئٹہ کی تصاویر دیکھیں، تو تجسس میں مزید اضافہ ہوا، اور میں نے اُنھیں رنگوں میں پرو دیا۔'' ان کے مطابق اس دور میں کوئٹہ کے باسی اپنے شہر سے بہت محبت کرتے تھے، اُسے صاف رکھتے تھے۔ ''وہ الگ ہی دنیا تھی!''