پشاور کے قاتل چوہے
پشاور میں قاتل چوہوں کی موجودگی کی اطلاعات تو گذشتہ کئی ہفتوں سے زیر گردش تھیں
ISLAMABAD:
پشاور میں قاتل چوہوں کی موجودگی کی اطلاعات تو گذشتہ کئی ہفتوں سے زیر گردش تھیں۔چوہوں کی موجودگی کوئی نئی بات نہیں ۔ زرعی ملک ہونے کے ناطے چوہوں کا کھیت ،کھلیانوں سے نکل کر شہروں کا رخ کرنا بھی کوئی اچھنبے کی بات نہ تھی۔آخر زرعی پیداوار کی رونق کے سبب یہ صلہ بھی تو ہے کہ کرہ عرض پر زندگی رواں دواں ہے۔ زرعی پیدا وار جہاں بھی منتقل ہوتی ہیں ، چوہوں کا ہمقدم ہونا بھی ایک فطری سی بات ہے۔
چند برس قبل اسی نو ع کی اطلاعات راولپنڈی کے راجہ بازار کے بارے میں بھی عام تھیں۔ لیکن اس وقت صورتحال اتنی بھی خطرناک نہ تھی کہ اسے منتخب ایوانوں اور کورٹ کچہریوں تک لیجایا جائے۔ لیکن یہاں کی صورتحال ہی مختلف تھی۔19فروری 2016 پشاور کے نواحی علاقے حسن گڑھی میں ایک بچے کو چوہوں نے کاٹ لیا جو با لآخر زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اسپتال پہنچنے کے بعد چل بسا۔معاملے کی سنگینی کے پیش نظر شہری حلقے متفکر ہوئے۔ جب یہ بات صوبائی اسمبلی کے فلور پر پہنچی تو بعض اراکین اسمبلی بھی حیرانگی سے دانتوں میں انگلی دبا کر رہ گئے۔ عقدہ یہ بھی کھلا کہ یہ بدیسی چوہوں کی کارستانی ہے جو جسامت کے اعتبار سے بلے، بلیوں کی مانند دکھائی دیتے ہیں۔
تاریخی حقائق بھی اس حوالے سے یہ تو ثابت نہیں کرتے کہ چوہوں کے کاٹے سے کبھی ایسا بھی ہوا ہو کہ مضروب زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے البتہ اسطرح کے واقعات کی بنا پر مہلک امراض پھیلنے کا احتمال ضرور ہوتا ہے۔متحدہ ہندوستان کے زمانے میں بھی طاعون نامی ایک مرض کے پھیلنے میں بھی مبینہ طور پر چوہوں کا بنیادی کردار تھا جس میں بڑی تعداد میں انسانی جانیں لقمہ اجل بن جانے کا بھی سنا ہے۔لیکن ماضی قریب میں اس نوع کی صورتحال سے انسانیت محفوظ ہی رہی ہے۔
ویسے چوہوں کی طرز معاشرت، کھانے کھابے کے طور طریقے، آمد و رفت کے ذرائع، اپنی کھوہوں تک پہنچنے کی رہ گذر کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا قطعا مشکل بھی نہیں کہ اگر چوہے قاتل نہ بھی ہوں تب بھی انسانی زندگی اجیرن کر دینا ان کیلیے کو ئی مشکل نہیں۔ یہ محض خوراک کی جستجو میں ادھر سے ادھر گھومتے، دستیاب اشیاء کو سونگھتے ،چاٹتے، ایک گھر سے دوسرے گھر، ایک محلے سے دوسرے محلے اور ایک علاقے سے دوسرے علاقے آتے جاتے اتنا کچھ کر گذرتے ہیں کہ انسان بیچارہ اگر ان کے زہر آلود جسم کے خونی اثرات سے بچنا بھی چاہے ،تو نہیں بچ پاتا۔ کھیت کھلیانوں میں جہاں چوہے ہوتے ہیں وہاں سانپوں کا بسیرا بھی ضرور ہوتا ہے۔
چنانچہ چوہے اگر زمیندار کی گرفت سے بچ نکلنے میں کامیاب بھی ہو جائیں تو سانپ انھیں ہڑپ کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ رہی بات سانپ اور زمیندار کی تو ان میں سے جو پہل کر جائے اور یا پھر دونوں ہی ایک دوسرے کے خوف سے بھاگ کر بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔البتہ ایسا شاذو نادر ہی ہوتا ہو گا کہ سانپ کسی انسان کا پیچھا کر کے اس کی زندگی اجیرن کر دے یا پھر اپنا یا اپنے ہدف کا خاتمہ کر ڈالے۔بات پشاور کے قاتل چوہوں کی ہو رہی تھی۔ ان قاتل چوہوں کی کثرت جن علاقوں میں دیکھی گئی ہے وہ گنجان آباد بھی ہیںاور نسبتا زیریں سطح کے حامل بھی۔اس حوالے سے پر فقیر آباد، حسن گڑھی، افغان کالونی، بشیر آباد، ،رشید آباد،اشرف کالونی اور شاہی کٹھہ سے متصل آبادیوں کا خاص طور ذکر کیا گیا ہے۔
شاہی کٹھہ تو شہر کے ایک بڑے حصے کیلیے نکاسی آب کا واحد ذریعہ ہے ۔جو یقینا چوہوں کی سب سے بڑی آماجگاہ ہو گا لیکن اگر ایسا نہ بھی ہو تب ، اس سے نکلنے والی تعفن و بدبو ہی چوہوں، مچھروں وغیرہ کی کمی کا احساس نہیں ہونے دیتی۔بہر طور بہت سے دیگر علاقوںکی نکاسی آب کی نالیاں بھی اس سے آکر ملتی ہیں۔لہذا چوہوں کو آمدو رفت میں کو ئی مشکل بھی نہیں ہوتی ہو گی۔
چونکہ واقعہ صوبائی دارا لحکومت پشاور کا ہے ۔ بات بھی بڑے بڑے ایوانوں میں زیر بحث ہے، لہذا کچھ نہ کچھ حل تو نکالنا تھا اور ضلعی ناظم اعلیٰ محمد عاصم نے چوہوں کے خلاف آپریشن کا فیصلہ کیا اور آپریشن کی نگرانی بنفس نفیس کر رہے ہیں۔ البتہ انھیں مشکل اس بات کی ہے کہ شہر میں فی چوہا مارنے پر اڑھائی سو روپے دینے کا اعلان کیا گیا ہے جب کہ کنٹونمنٹ کے علاقے میں چوہے مارنے کی قیمت فی چوہا تین سو روپے رکھے گئی ہے ۔
اب پتا نہین پچاس روپے کا فرق کیوں ہے لیکن ناظم اعلیٰ فرماتے ہیں کہ پیسوں کی فکر نہ کی جائے بس اپنی تمام تر توانائیاں چوہے مارنے پر لگا دی جائیںکیونکہ شہری سمجھتے ہیں کہ یہ تو ہونے سے رہا کہ نکا سی آب کے نظام کو اسقدر پائیدار اور مستحکم خطوط پر ترقی دے دی جا ئے کہ چوہوں کیلیے نقل و حرکت اور گردش ہی ناممکن ہو جائے۔ اگر ایسا ہو جائے تو نہ رہے بانس اور نہ رہے بانسری۔ڈر تو یہ ہے کہ عوام کے کاندھے کسی چوہے مار پروگرام کے تلے نہ دب جائیں۔
دیکھا جائے تو وطن عزیز کے دیگر شہروں اور بعض قصبوں کی صورتحال بھی کسی بھی لحاظ سے پشاور کے متاثرہ علاقوں سے مختلف نہیں۔ اگر باالفرض محال ایسا ہو گیا تو دیگر شہروں اور صوبوں کی حکومتیں بھی اس کی تقلید کریں گی۔یہ سلسلہ یہیں نہیں رکے گا بلکہ پولیو کے حوالے سے تلخ تجربات کا سامنا کرنا ابھی زیادہ دور کی بات نہیں پھر نہ کہنا کہ ہمیں کوئی ڈکٹیشن دے رہا ہے۔نئی مہم جوئی بڑی دلکش ہو تی ہے اس کے اثرات بھی وقتی طور پر متاثر کن ہوتے ہیں۔ لیکن دیرپا ، شاید ہی کبھی ثابت ہوئے ہوں۔
آج یونین کونسل سے لے کر صوبائی اور قومی اسمبلی اور سینیٹ تک منتخب ادارے موجود ہیں جو پوری قومی زندگی کا احاطہ کرتے ہیں۔ یہی صورتحال سرکاری مشینری کے حوالے سے بھی ہے۔افراد کی علمی صلاحیتوں اور ٹیکنالوجی کے میدانوں میں پیش رفت اور مزید ترقی کے امکانات بھی حیران کن حد تک عیاں ہیں۔ پہلے سے موجود اداروں کو فعال اور مستحکم کرکے اور جوابدہ بنا کر جو معیار ممکن ہو سکتا ہے وہ کسی نئی مہم جو ئی کی نسبت کم مالی بوجھ کا حامل ہو گا۔
خیبر پختون خوا کی صوبائی حکومت نے جس جذبے سے نامکمل فلائی اوورز کی تکمیل کی؛ حیات آباد اور جمرود روڈ کے سنگھم پر جس تندہی سے نیا فلائی اوور مکمل کیا ؛جو کاوشیں جی ٹی روڈ سے متصل نکاسی آب کی تعمیر کے نظام کے سلسلے میں دیکھنے میں آئیں اور جس حوصلے اور محنت کے جذبے کا رنگ روڈ اور یونیورسٹی روڈ کی تعمیر و توسیع کے حوالے سے اظہار کیا ،اسی جذبے سے اگر مالی و ٹیکنالوجی کے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے شاہی کٹھہ اور اس سے متصل علاقوں میں نکاسی آب کے نظام کو بھی دیرپا بنیادوں پر ترقی دینے میں کامیاب ہو جائے تو اس کے خاطر خواہ نتائج بر آمد ہو سکتے ہیں۔یوں چوہوں اور مچھروں کی بھرمار پر بھی کافی حد تک قابو پانے میں مدد مل سکے گی۔