ڈاکٹر عافیہ صدیقی زندہ یا مردہ
امریکی جیل میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی موت کی خبروں سے بے چینی و سنسنی پھیل گئی ہے
سوشل میڈیا پر غیر مصدقہ ذرایع سے امریکی جیل میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی موت کی خبروں سے بے چینی و سنسنی پھیل گئی ہے، عافیہ رہائی موومنٹ کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ یہ خبریں اذیت ناک ہیں۔ حکومت کی ذمے داری ہے کہ ان کی تصدیق یا تردید کے حوالے سے اپنا موقف پیش کرے تا کہ صحیح صورتحال کا علم ہو سکے۔ ہمارے پاس تصدیق یا تردید کے کوئی ذرایع نہیں ہیں، حکومت اس مسئلے پر رابطے کر رہی ہے نہ رابطہ کرنے پر جواب دے رہی ہے ۔
13 سال سے ناحق قید ڈاکٹر عافیہ کو ہر حکومت اور ہر حکمران انصاف و رہائی دلوانے کے دعوؤں کے باوجود نظر انداز کرتی رہی ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے حکومت کو پابند کیا ہے کہ ہر ہفتے عافیہ کی خیریت سے آگاہ کرے اور اہل خانہ سے اس کی ملاقات کروائے، عدالت نے وزیراعظم کو دورہ امریکا میں اس مسئلے کو اٹھانے کی ہدایت کی کیونکہ یہ واقعہ پاکستانی حدود میں پیش آیا تھا لہٰذا عافیہ کو پاکستان لانے کی کوششیں کی جائیں۔
حکومت عدلیہ کے فیصلے پر عمل تو کیا کرتی حکومت کی اس روش کو اس کی بے حسی یا پھر بے بسی کا نام دیا جائے یا پھر انصاف اور عدالتی حکام سے روگردانی کہا جائے اور اس کے خاندان کو اس سے ملاقات کا حق حاصل ہے کہ اس کی گھر والوں سے ہر ہفتے ملاقات کرائی جائے گی، ٹیلی فون پر بات چیت کرائی جائے گی، لیکن ان تمام پر عمل کرانا تو حکومت پاکستان کی ذمے داری ہے۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے خاندانی ذرایع کے مطابق ان کی باقاعدہ ملاقات کو 2 سال ہو چکے ہیں۔ دو تین سال قبل بھی خبر آئی تھی کہ جیل میں قید عافیہ کو تشدد کرتے ہوئے لہو لہان کر دیا گیا تھا اور کئی دنوں تک اسے طبی امداد بھی فراہم نہیں کی گئی۔ اس کی اطلاع عافیہ کے وکیل نے اس کے اہل خانہ کو دی تھی۔ اس قسم کی خبریں اور واقعات ہر با ضمیر انصاف پسند اور محب وطن شہری کو ذہنی اضطراب و تشویش میں مبتلا کر دیتے ہیں اس کے اہل خانہ پر جو قیامت گزرتی ہو گی اس کا اندازہ بھی اہل ضمیر و انصاف پسند ہی کر سکتے ہیں۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی اسیری کو 13 سال ہو چکے ہیں۔ اس موقعے پر دنیا بھر میں اس کے حق میں مظاہرے کیے گئے، اسے ''صدی کی خاتون'' کے لقب سے نوازا گیا، لاہور ہائیکورٹ بار کے وکلا نے زبردست مظاہرہ کیا۔ امریکی حکومت کے خلاف سخت نعرے بازی اور غم و غصے کا اظہار کیا بار کے صدر نے کہا کہ امریکا ایک نہتی اور بے گناہ خاتون کو 86 سال قید میں ڈال کر اپنی طاقت کا خود مذاق اڑا رہا ہے۔
عافیہ پر مقدمہ مذاق کے سوا کچھ نہیں ہے لیکن دنیا بھر کے انسانی حقوق کے ادارے بھی اس پر صرف اسلام دشمنی پر خاموش ہیں۔ مقررین نے کہاکہ ہم حکومت امریکا کو پیشکش کرتے ہیں کہ وہ ریمنڈ ڈیوس کے مقدمے سے بڑی رقم ہم سے لے کر عافیہ کو رہا کر دے۔ عافیہ کے بارے میں قوم کے جذبات محض تقریر گوئی یا لفاظی نہیں ہیں بلکہ حقیقت شناس، اصول و انصاف پسندوں کے حقیقی جذبات کے ترجمان ہیں۔
ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں قتل ہونے والے مقتولین کے لواحقین ریمنڈ ڈیوس کو کسی صورت معاف کرنے کے لیے تیار نہیں تھے بلکہ اسے سزا دلوانے کے لیے انھوں نے احتجاجاً اقدام خودکشی بھی کیا تھا لیکن عافیہ کے بارے میں ان کے جذبات یہ تھے کہ انھوں نے پیشکش کر دی تھی کہ اگر امریکا ڈاکٹر عافیہ کو پاکستان کے حوالے کر دے تو وہ ریمنڈ ڈیوس کو معاف کرنے کے لیے تیار ہیں۔
یہ افواہ بھی گردش کر رہی ہے کہ جیل میں ڈاکٹر عافیہ پر عیسائیت قبول کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے جو کہ عقلی اعتبار سے ناقابل فہم ہے، اس قسم کی حرکت سے امریکا سے زیادہ عیسائیت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے عافیہ کے حوالے سے دو طبقہ فکر سامنے آتے ہیں۔
ایک کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ مسلمانوں کی دل آزاری اور ان کے اعصاب شل کرنے کے لیے انتقاماً کیا جا رہا ہے جب کہ دوسرے طبقہ فکر کا خیال ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کے مسئلے کو مذہبی یا اسلامی نقطہ نظر کے بجائے خالصتاً انسانی نقطہ نظر سے دیکھنا چاہیے لیکن دوسرے نقطہ نظر کے حامل طبقے کی ناکامی ہوتی ہے تو پھر اس تاثر کو کوئی نہیں روک سکے گا کہ عافیہ کے ساتھ یہ سب کچھ صرف مسلمان ہونے اور مسلمانوں کی دل آزاری اور اذیت کے لیے کیا جا رہا ہے۔
سہ ریاستی ظلم اور نا انصافی کی شکار ڈاکٹر عافیہ کے مسئلے پر جہاں عالمی انصاف کے اداروں و تنظیموں کی لا تعلقی و خاموشی اور انصاف کی علمبردار شخصیتوں کی بے حسی و لب مہری قابل تشویش ہے وہیں وہ شخصیات اور تنظیمیں قابل فخر ہیں جو عافیہ کے انسانی حقوق کی پامالی پر سراپا احتجاج اور اس کی رہائی کے لیے سرگرم عمل ہیں جن میں زیادہ تر امریکی اور برطانوی شہری شامل ہیں جو دنیا بھر میں عافیہ کی بے گناہی سے متعلق مقدمہ لڑ رہے ہیں۔
اس کی بے گناہی کی گواہیاں اور ثبوت پیش کر رہے ہیں خود پاکستان کی حکومت اور شہریوں کو عافیہ کی رہائی کی جد و جہد کے لیے تیار کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ عافیہ کی اسیری قیدی نمبر 650 کا انکشاف کرنے والی برطانوی صحافی ایوان مریم ریڈلے نے پاکستان آکر پریس کانفرنس کی اور کئی بار پاکستان آ کر حکومت اور عوام کا ضمیر جھنجھوڑتی رہی ہے کہ خدارا عافیہ کی رہائی کے لیے کوششیں کریں کیوں کہ وہ خود بھوت نامی قیدی نمبر 650 کی دل خراش چیخیں اور جیل مظالم اپنی آنکھوں سے دیکھ چکی ہے۔ انسانی حقوق کے سرگرم علمبردار معروف امریکی وکیل، شارح اور اسکالر درجنوں ممالک کا دورہ کر کے انسانی حقوق کی تنظیموں، وکلاء اور صحافیوں سے ملاقاتیں کر کے اور پاکستان کا دورہ کر کے عافیہ کے مسئلے کو اجاگر کر رہے ہیں۔
رچرڈ ہالبروک اور سابق امریکی اٹارنی جنرل رمزے کلارک باقاعدہ جدوجہد کر رہے ہیں کہ عافیہ کو انصاف مل سکے، اس کے لیے وہ دورے کر رہے ہیں وکلا اور صحافیوں سے خطابات کر رہے ہیں۔ امریکی اٹارنی ٹینا فورسٹر عافیہ کو بے گناہ قرار دیتی ہے، ٹینا فورسٹر نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ عافیہ کے وکلا نے اس کے حق میں ثبوت استعمال نہیں کیے حکومت نے وکلا کی خدمات اس لیے حاصل کی تھی کہ عافیہ کو سزا دلوائی جائے اس کا شکوہ تو خود عافیہ کی والدہ نے بھی کیا تھا اور وکلا کی خدمات لینے سے انکار کر دیا تھا جن کو فیس کی مد میں حکومت نے خطیر رقم ادا کی تھی۔ امریکی سینیٹر مائیک گریول کا کہنا ہے کہ اگر حکومت پاکستان اور تنظیمیں عافیہ کے مسئلے پر مل کر کوششیں کرتیں تو وہ بارآور ثابت ہو جاتیں۔
غیروں کے مظالم اور اپنوں کی سازشوں، بے حسی و بے اعتنائیوں کی شکار عافیہ صدیقی کی رہائی کی صرف ایک صورت نظر آتی ہے کہ عوام اپنی منظم جدوجہد سے حکومت کو اس بات پر مجبور کر دیں کہ وہ عافیہ کے معاملے پر دہرا رویہ ترک کر کے اپنا قانونی و آئینی کردار ادا کرنے پر مجبور ہو جائے۔