حلقہ این اے 245 کا ضمنی معرکہ

امید مسلمان کی شان ہے، اسلیے مایوسی کا گھپ اندھیرا ختم کرکے اپنے علاقے اور ملک کی ترقی کیلئے ووٹ کا درست استعمال کیجئے


رضوانہ قائد April 06, 2016
سیاسی جماعتیں خوش آئند نعروں کے ذریعے ووٹرز کو اعتماد میں لینے میں مصروف ہیں، مگر نئے نویلے جھنڈوں بینروں کے سائے میں علاقے کے مسائل کے سبب عوام معاملات میں دلچسپی نہیں لے رہے۔

کراچی کا مرکزی و معروف حلقہ این اے 245 ایک بار پھر اپنے ممبر قومی اسمبلی (ایم این اے) کی تلاش کے لئے سرگرم ہے۔ اِس سے پہلے یہاں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) سے تعلق رکھنے والے ریحان ہاشمی ایم این اے تھے لیکن ٹاون ناظم کا عہدہ سنبھالنے کے لیے انہوں نے سیٹ سے استعفی دیا اور اِسی وجہ سے 7 اپریل کو ضمنی انتخاب کا انعقاد کیا جارہا ہے۔ یہ حلقہ انتخاب 13 یونین کونسلوں اور 3 سب ڈویژنوں پر مشتمل ہے۔ یہ حلقہ نارتھ کراچی، ناگن چورنگی، شادمان ٹاؤن، سخی حسن، فائیو اسٹار چورنگی، حیدری اور بورڈ آفس کے گنجان علاقوں پر محیط ہے۔

یہ حلقہ کراچی کے قلب میں واقع ہے اور قلب جیسی مرکزیت بھی اختیار کرتا جارہا ہے۔ کاروباری لحاظ سے اہمیت کی حامل کراچی کی چوتھی بڑی مارکیٹ حیدری بھی اسی حلقے میں واقع ہے۔ یہ حلقہ زیادہ تر درمیانہ طبقہ کی آبادی پر مشتمل ہے۔ کراچی الیکشن کمیشن کی جاری کردہ پولنگ اسکیم کے مطابق، اس حلقہ میں 2 لاکھ 21 ہزار 422 رجسٹرڈ مرد ووٹرز اور 1 لاکھ 88 ہزار 413 رجسٹرڈ خواتین ووٹرز کے ساتھ ووٹرز کی مجموعی تعداد 4 لاکھ 9 ہزار 655 ہے۔ ان ووٹرز کے حق رائے دہی استعمال کرنے کے لئے 227 پولنگ اسٹیشن اور 796 پولنگ بوتھ بنائے گئے ہیں۔ جن میں 33 پولنگ اسٹیشن مردوں کے لئے اور 33 خواتین کے لئے جب کہ 161 پولنگ اسٹیشن مشترکہ ہوں گے۔ ان تمام رجسٹرڈ مقامات پر 1700 سے زائد انتخابی عملہ خدمات سرانجام دے گا۔

اس حلقہ میں 10 آزاد امیدواروں سمیت 16 امیدوار میدان میں ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں ایم کیوایم، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، مسلم لیگ اور پاسبان مد مقابل ہیں۔ گذشتہ ضمنی انتخاب کے برعکس سوشل میڈیا پراس الیکشن کی ہیجان انگیز پذیرائی دکھائی نہیں دی۔ اس کی وجہ چینلز پر پیمرا کی گرفت نظر آتی ہے۔ اشتعال اورنفرت انگیزی سے بچاؤ کی غرض سے یہ احتیاط خاصی کارگر رہی۔ اس کا ثبوت انتخابی مہم کا کسی بڑے حادثے کے بغیر اختتام کے قریب پہنچنا ہے۔

اس مہم میں ایم کیو ایم اپنی ٹوٹ پھوٹ اور خلفشار کے ساتھ اپنے وجود کی بقا اور استحکام کے عمل سے گزر رہی ہے۔ ان کی یہ پُرعزم جدوجہد قابل تعریف ہے۔ مصطفیٰ کمال نے ایم کیو ایم سے دھواں دھارعلیحدگی کے بعد نہایت عجلت میں قوم کی خدمت کے لئے نئی سیاسی پارٹی بھی بنا ڈالی، مگر این اے 245 کے لئے اپنا امیدوار نہ کھڑا کرنا تعجب خیز ہے۔ جماعتِ اسلامی کی فی الحال حلقہ کے انتخابی عمل سے عدم دلچسپی محسوس ہورہی ہے۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی اور تحریکِ انصاف نے خطیر سرمائے کے بے دریغ استعمال کے ساتھ روایتی انداز سے انتخابی مہم چلائی جبکہ پاسبان اپنے ناکافی مالی و افرادی وسائل کے ساتھ سرگرم ہے۔

انتخابات میں جیت تک حکومتی و سیاسی مشینری اسی کردار کی پزیرائی میں سرگرم نظر آتی ہے کہ جب تک نتائج نہ آجائیں اُس وقت تک کسی نہ کسی بہانے عوام کی خدمت کی جائے، لیکن حلقہ این اے 245 کے اس تمام منظرنامہ میں عوام یعنی ووٹرز کا کردار اہم ہوجاتا ہے کہ وہ اِس بار بھی ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے والوں کا ساتھ دیتے ہیں یا پھر ان لوگوں کا ساتھ دیتے ہیں جو مستقل طور پر علاقے کی ترقی میں کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ علاقے کی سڑکوں، چورنگیوں، محلوں اور گلیوں میں سیاسی جماعتوں کے جھنڈوں، سائن بورڈز، پوسٹروں اور بینروں کی بھرمار ہے۔ سیاسی جماعتوں کے نمائندے اپنے خوش آئند نعروں اور دل فریب منشور کے ساتھ ایک بار پھر ووٹرز کو اعتماد میں لینے میں مصروف ہیں، مگر ان بے شمار نئے نویلے جھنڈوں بینروں کے سائے میں علاقے کے پانی وبجلی کے مسائل، ٹرانسپورٹ اور سڑکوں کی ابتر صورتحال، تعلیمی و کاروباری اداروں کی مایوس کن صورتحال نے مل کر حکومت و سیاستدانوں کے رنگا رنگ اور پرکشش منظرنامہ کو عوام کے لئے غیر دلچسپ بنا دیا ہے۔

عوام کے مطابق الیکشن سے فقط ممبران اسمبلی ہی کی تقدیریں بدلتی ہیں۔ عوام کی نہیں، ضمنی انتخابات حقیقت میں عوامی وسائل، وقت اور سرمائے کا زیاں ہے۔ بہرحال اس وقت تو حلقہ این اے 245 حکومت کے جاں فشانی سے کئے گئے انتظامات کے ساتھ اپنے ووٹرز کا منتظر ہے۔ ہماری گزارش تو بس یہ ہے کہ علاقہ کی بہتری کی خاطر مایوسی کو چھوڑ کر نئے عزم سے بڑھنا ہوگا۔ امید اور خوش خبری مسلمان کی شان ہے، اپنے آپ کو اس کے شایانِ شان بنانا ہوگا، مایوسی کا گھپ اندھیرا ختم کرنے کا آغاز روشنی کی ننھی کرن سے ہی ہوتا ہے۔ اپنے علاقے، اپنے ملک، اپنی فلاح کیلئے اپنے حق رائے دہی کا درست استعمال کیجئے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔