عالمی یوم صحت پر کچھ ذکر ڈینگی و ملیریا کا

عالمی یوم صحت پر ملیریا اور ڈینگی جیسی جان لیوا بیماریوں پر قابو کا ہی عزم کرلیا جائے تو بھی کام بن سکتا ہے۔


محمد نعیم April 07, 2016
بدقسمتی سے پاکستان میں ڈینگی اور ملیریا ہی نے موذی مرض کی صورت اختیار کی ہوئی ہے، اس پر قابو پایا جائے تو ہیپاٹائٹس اور کینسر کی طرف توجہ ہو، فوٹو :فائل

ہیپا ٹائٹس، ٹی بی، پولیو، خسرہ، کینسر، ڈینگی اور ملیریا جیسی بیماریوں کا سامنا کرتے ہم پاکستانی بھی عالمی یوم صحت منارہے ہیں۔ 7 اپریل عالمی یوم صحت منانے کا مقصد بیماریوں کے پھیلاؤ کی روک تھام اور اسباب کا تدارک ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ڈینگی اور ملیریا ہی نے موذی مرض کی صورت اختیار کی ہوئی ہے، اس پر قابو پایا جائے تو ہیپاٹائٹس اور کینسر کی طرف توجہ ہو، پولیو کا تو خیر ذکر ہی کیا کرنا۔

عالمی ادارہ صحت سے منظور شدہ عالمی یوم صحت منانے کا مقصد دنیا میں صحتمند ماحول کا قیام، بہترین معالجے کی سہولیات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ صحت مند افراد کو بیماریوں سے محفوظ کرنا ہے۔ اس عالمی یومِ صحت پر میں مچھروں کے باعث پھیلنے والی دو بیماروں ملیریا اور ڈینگی جیسی جان لیوا بیماریوں پر قابو کا عزم کرلیا جائے تو بھی ایک ہدف سے کم نہیں۔

ملیریا تو ایک پرانی بیماری ہے لیکن ڈینگی بخار کے کیس پاکستان میں 2010ء سے سامنے آنا شروع ہوئے۔ 2011 اور 2013 میں ڈینگی بڑے پیمانے پر پھوٹ پڑا۔ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران بچوں سمیت 60 ہزار سے زائد افراد اس سے متاثر ہوئے۔ ڈینگی واقعات میں روک تھام لانے کے لئے حکومت پاکستان کی جانب سے ٹھوس کاوشوں کے باوجود بیتے برس میں 9370 افراد ڈینگی کا نشانہ بنے۔ یعنی تقریباً ہر روز ڈینگی کے متاثرین کی تعداد 25 تک جا پہنچتی ہے۔

اب تک منظر عام پر آنے والی مختلف تحقیقاتی رپورٹس کے مطابق ڈینگی بخار کا سبب بننے والے مچھر صاف پانی پر افزائش اور سرسبز ماحول میں نشوونما پاتے ہیں۔ جبکہ ملیریا کا سبب بننے والے مچھر جوہڑوں کے کھڑے پانی اور گندے پانی پر جنم لیتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جان لیوا ڈینگی سے نمٹنے کے بہت سے حل سامنے آچکے ہیں مگر ڈینگی ہو یا ملیریا، ان سے بچاؤ کے لیے سب سے اہم چیز احتیاط ہے اور احتیاطی تدابیر کے لیے آگاہی کی ضرورت ہے۔

بدقسمتی سے نجی اسپتالوں میں کسی بھی نئی بیماری یا وباء کو کاروبار کا ذریعہ سمجھ لیا جاستا ہے اور پھر مہنگے ٹیسٹ اور علاج معالجے کے بھاری اخراجات سے مریضوں کا مچھروں سے بچ جانے والا خون بھی چوس لیا جاتا ہے جبکہ سرکاری اسپتالوں کی حالتِ زار اور صفائی کا فقدان ہونے کے باعث یہ عمارتیں ڈینگی و ملیریا کے مچھروں کے لیے نرسری کا کام کرتی ہیں۔ یہ کسی دیہات کی بات نہیں۔ دیہاتوں میں تو خیر سرکاری اسپتالوں کی عمارتیں کچھ ہی جگہ موجود ہیں جہاں ڈاکٹرز یا علاج معالجے کی سہولیات تقریباً ناپید ہیں۔ یہاں تو گندگی اور صفائی نہ ہونے کی بات پاکستان کے بڑے شہروں میں موجود اسپتالوں کی ہورہی ہے۔ اگر یقین نہ آئے تو آج ہی کسی سرکاری اسپتال کا دورہ کرکے دیکھ لیجئیے۔ وہاں علاج بھلا کیسے ہو کہ کراچی کے معروف جناح اسپتال کا مرکزی داخلی دروازہ اکثر سیوریج کے پانی کے تالاب کا منظر پیش کر رہا ہوتا ہے، یاد رہے کہ یہی پانی ڈینگی کی پیداوار کا بڑا ذریعہ ہے۔

اگر ہماری سرکار حقیقی معنوں میں ڈینگی کے خاتمے کے لیے سنجیدہ ہے تو پھر اُس کو اسپتالوں اور تمام مراکز صحت پر ڈینگی وائرس اور ملیریا کے علاج کے لیے ادویات اور ویکسین کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا۔ اس کے علاوہ ادویہ ساز کمپنیوں کو اس بیماری کے خاتمے کے لیے ادویات کی تیاری پر خصوصی سبسڈی دی جائے تاکہ یہ ادویات سستے نرخوں پر عوام کی دسترس میں ہوں۔

ویسے صرف یہ ذمہ داری سرکار کی نہیں بلکہ ڈینگی اور ملیریا کے متعلق آگہی مہم ٹی وی اور اخبارات کے علاوہ گلی، محلے کی سطح تک چلانے کی بھی ضرورت ہے۔ جس طرح حکومت انسداد پولیو مہم کے لیے گھر گھر عملے کو بھیجتی ہے، اسی طرح ان بیماروں سے بچاؤ کے حفاظتی اقدامات کے متعلق آگاہ کرنے کی مہم بھی ضروری ہے۔ اس کے علاوہ نجی اسپتالوں، کلینکس، اسکولوں اور مساجد میں خواتین اور مقامی افراد کو جمع کرکے انہیں آگاہی فراہم کی جاسکتی ہے۔

اسی طرح عموماً اگر گھروں میں پنکھا چل رہا ہو تو اس وقت مچھر نہیں کاٹتے جبکہ لوڈ شیڈنگ کے وقت مچھروں کے کاٹنے کا عمل بڑھ جاتا ہے۔ حکومت کو چاہیئے کہ وہ شہر کو بجلی فراہم کرنے والے محکموں کو اس بات کا پابند بنائے کہ وہ ایسے موسم میں جب ڈینگی اور ملیریا کا مرض بڑھ جاتا ہے، لوڈ شیڈنگ کوختم کردیں یا کم از کم رات کے دورانیے میں نہ کی جائے۔ اسی طرح بڑے اور گنجان شہروں میں گندے پانی کی نکاسی اور کچرے کو ٹھکانے لگانے کے نظام کو بہتر بنایا جائے۔ اسلام میں بھی صفائی کی تلقین کی گئی ہے۔ صفائی کو نصف ایمان کہا گیا ہے۔ ہم جس قدر اپنے آپ اور اطراف کو صاف ستھرا رکھیں گے، اُسی قدر بیماریوں سے محفوظ رہیں گے۔ کیونکہ حکومت جتنے مرضی اقدامات کرلے لیکن جب تک عوام خود اپنے ماحول کو صاف رکھنے کی کوشش نہیں کریں گے بیماروں کی روک تھام ممکن نہیں۔

ذیل میں کچھ احتیاطی تدابیر دی جا رہی ہیں، جن کو اپنا کر ہم ان مہلک بیماروں سے محفوظ رہنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔

  • کھلے پانی کو ڈھانپا جائے اور کیچڑ کو ختم کیا جائے۔

  • کچرا تلف کرکے اپنے ارد گرد کے ماحول کو صاف ستھرا رکھیں۔

  • مچھروں سے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے مچھر مخالف مصنوعات جیسے کوائل اور اسپرے وغیرہ استعمال کریں۔

  • ڈینگی سے پاک پاکستان کے لئے معلومات دیگر افراد تک پھیلانے میں تعاون کیا جائے۔

  • بیماریوں کے متعلق آگہی پیدا کرنے سے کئی قیمتی زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔


[poll id="1053"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں