دہشت گردی دیدہ وروں پہ مسلط تیرگی
معروضی حالات کے پیش نظر کرہ ارض پرعالم انسانیت مکمل طور پر مضطرب وہیجانی کیفیت میں مبتلا ہوچکا ہے
معروضی حالات کے پیش نظر کرہ ارض پرعالم انسانیت مکمل طور پر مضطرب وہیجانی کیفیت میں مبتلا ہوچکا ہے۔ اگرچہ نظریاتی طور پر ان موجودہ حالات کی ذمے داری تو بہت سے عناصر و عوامل پر عائد کی جا سکتی ہے، لیکن عملی طور پر عالم انسانیت کو لاحق سب سے ہنگامی حل طلب مسائل کی فہرست میں ان د ہشت گرد کارروائیوں کو رکھا جائے تو شاید کچھ مہربان اس بات سے اتفاق کرنے پر آمادہ بھی ہو جائیں۔ کیونکہ نائن الیون، سانحہ پیرس، ترکی میں فوجی قافلے پر حملہ، یورپ کے دل کی حیثیت رکھنے والے برسلز میں ہونے والی کارروائیوں نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
چونکہ اسلامی و جہادی طور پر نام نہاد علمبرداروں کیجانب سے ان دہشتگرد کارروائیوں کی ذمے داری قبول کیے جاتے رہنے کے باعث موجودہ کارروائیوںکی ابتد اء کو افغان جہاد سے تعبیرکرنے کی ایک د لیل کے طورگردانا جاتا رہا ہے اور پاکستان میں مذہبی مدارس کو دہشتگردوں کی نرسری کے طور پر متعارف کروائے جانے کی روایت ڈال دی گئی ۔
جس کی بنیاد پر اقوام عالم کے نام نہاد خود ساختہ رہنماؤں کی جانب سے دہشت گردوں کا قلعہ قمع کرنے کے لیے سب سے زیادہ سیاسی، سفارتی و معاشی دباؤ پاکستان پر دیا جاتا رہا ہے۔ حالانکہ ان دہشتگرد کارروائیوں میں سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والا ملک بھی پاکستان ہی ہے۔
اب تو یہ بات برملا طور پر مانی جاتی ہے کہ اس وقت کے سوویت یونین نے گرم پانیوں پر پہنچنے کی خواہش لیے بپھرے ہوئے جنگلی سانڈ کی طرح افغان سرزمین پر اپنے کھُر مارنے میں مصروف تھا اور استعماری ہر اول دستے کی حیثیت پانے کو بے قرار تھا اور بلاشبہ اس کا اگلا ہدف پاکستان ہی ہوتا، جب کہ موجودہ صورتحال میں جب اسی شوق جہاد کی تحریف شدہ مادی توضیحات کے خوگر ان دہشت گرد تنظیموں میں استعماریت کی تیارکردہ نفری نے استبداد سے ٹکراؤ کی بجائے ان کے حق میں ماحول بنانے لگ گئیں تو پاکستان نے ان کا قلع قمع کرنے کے لیے رینجرز آپریشن اور آپریشن ضرب عضب شروع کیا، جو تاحال نہ صرف جاری ہے بلکہ عالمی برداری سمیت دوست دشمن طاقتوں کو باربار بتانے اورجتانے کی خاطر پاکستان کے ذمے داروں کیجانب سے آخری دہشت گرد، ان کے سہولت کار اور سلیپر سیلزکے خاتمے تک ان آپریشنز کو جاری رکھے جانے کے پختہ اور غیر متزلزل عزم کا اعادہ بھی کیا جا رہا ہے۔
دوسری جانب دنیا کے تمام ممالک نے ان بڑھتی ہوئی دہشتگرد کارروائیوں سے ممکنہ طور پر نبردآزما ہونے کے لیے اپنی اپنی ا فواج کو اسٹینڈ بائی کرکے لازمی نتیجے کے طور پر پوری دنیا میں غیراعلانیہ ایمرجنسی کے عملی طور پر اطلاق کو نہ صرف نمایاں اور واضح کر دیا ہے بلکہ ایسی صورتحال پیدا کی گئی ہے کہ جس کے نتیجے کے طور پرہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ جیسے ریاستوں میں مقامی حقو ق کا صفایا کرتے ہوئے بین الاقوامی حقوق کا نظریہ متعارف کروائے جانے کی کوششیں کی جارہی ہوں۔ جس کی چھوٹی سی مثال برسلز میں ہوئی کارروائیوں کے نتیجے میں دیگر چند ایک ممالک میں بلجیئم کے قومی پرچموں سے عمارتوں کو سجائے جانے کا عمل ہے۔
ان دہشت گردکارروائیوں کے نتیجے میں ممالک عالم میں معیشت اور معاشرت کی بنیادیں اس بھیانک اند از میں ہل گئی ہیں کہ جس کے نتیجے میں پچھلے سال ستمبر 2015 میں مغربی یورپی تہذیب و تمدن کے سرخیل اور زیوس دیوتا کے مہم جو بیٹے دی گریٹ الیگزینڈر کے یونان جیسے ملک کو بھی نادہندہ قرار دے دیا گیا ہے، جب کہ اپنی معیشت کے استحکام کے دم قدم سے استعماریت کے ہر اول دستے کی ہر محاذ پر مخالفت کرنے والے ملک چین کی اسٹاک مارکیٹس بیٹھ گئی تھیں، جب کہ انھی دنوں با شعور، زندگی کی حقیقتوں سے عملی طور پر ہمہ وقت نبردآزما ہونے کے لیے مادی طور دنیا میں رائج ''عملی ناگزیریت کے خوگر'' ترقی یافتہ جاپان جیسے ملک کے غیرملکی قرضو ں میں ٹاپ آف دی لسٹ ہو جانے جیسے واقعات دنیا میں معاشی طور بھیانک و فکر انگیز پہلو لیے ہوئے ہیں۔
جس کی روشنی میں یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ ان ترقی پذیر ممالک کی حالت زار تو بہت ہی دلخراش داستان کی مانند ایک طلسم ہوشربا سجائے ہوئے ہو گی۔ جو ممالک ان دہشتگرد کارروائیوں کے منفی اثرات کے نتیجے میں اپنی اپنی معیشت و معاشرت کو ہونیوالے نقصانات کی تلافی کے لیے عالمی استعماری واستبدادی گروہ کواپنا محسن ومسیحا سمجھتے ہوئے مزید بھاری شرح سود پر قرضوں اور امدادکے لیے ہاتھ پھیلا تے رہنے پر مجبور اور پہلے سے کہیں زیادہ مطیع وفرمانبردار بننے کو تیار ہوتے ہوئے نظر آنے لگے ہیں ۔ موجودہ استبداد واستعمارکی تابعداری میں انھی کے متعارف کردہ قوانین ریاست ومعاشرت کی تشریح اور موزونیت کے معیار اور نظام تمدن کو اپناتے ہوئے وسیع النظری کے لبادے میں Servival Of The Fittestکا شاہکار عملی مظاہرہ دکھائی دیے جانے کو بے قرار بھی ہیں۔
اس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ قومی ریاستوں میں تقسیم کرہ ارض پر انسانی گروہوں کی قومی معیشت و معاشرت کو یکساں نوعیت کے حامل مسائل لاحق ہیں۔ جو موجودہ استعمار واستبداد کو اور زیاد ہ استحکام بخشنے میں معاون ومددگار بنے ہوئے ہیں، جب کہ ترقی یافتہ معاشروں میں رونماء ہونے والی دہشت گرد کارروائیاں کرنے والے مدارس کے فارغ التحصیل ہونے کی بجائے مغربی نظام معاشرت کے علمی نمونہ بنے جدید تعلیم سے آراستہ ہیں۔ نائن الیون سانحے میں تو دنیا نے دیکھ لیا تھا کہ جو دہشت گرد جہاز اڑانا جانتے ہیں وہ کسی مدرسے میں پلے بڑھے نہیں تھے۔
تو پھر یہ بات الم نشرح ہو جاتی ہے کہ جو عمل تمام عالم کو مضطرب اور بے چین کرنے کا سبب بننے کے باعث استبداد و استعمار کے حق میں راہ ہموار کرنے کا کام کر رہا ہو تو پھر اس عمل یعنی دہشتگرد کارروائیوں کوکسی اور کے کھاتے میں ڈال کر کسی ایک ریاست (پاکستان) ایک انسانی گروہ (مسلمانوں) کو تمام تر عالم انسانیت کی نفرت و ملامت کا حقدار ٹھہرایا جانا کسی طور بھی مناسب قرار نہیں دیا جا سکتا ۔اس طرح کے الزامات لگانے والے ''حضرات'' ہی اقوام عالم کے لیڈر اور منصوبہ ساز بنے ہوئے ہوں تو اذہان کا ماؤف ہو جانا اور مسائل کا دن بدن بڑھتے جانا کوئی حیران کن بات نہیں ہے۔
کیونکہ ڈارون، مارکس اور نطشے کے سائنسی و فلسفاتی مادی نظریات سے انسانوں کی اکثریت کے قلوب و اذہان میں بہت پہلے ہی نفاق اور انتشار پیدا کیا جا چکا ہے۔ مزیدار بات تو یہ ہے کہ مشرق و مغرب، علاقائیت، قومیت اور لسانیت کی تحریف شدہ اور قیاسات پر مبنی مادی تاریخ جیسے بھڑکیلے موضوعات کے ماہرومحقق دانشواران کرام موجودہ صورتحال پر اقوام عالم میں بٹی عالم انسانیت میں سیکڑوں نہیں بلکہ لاکھوں فروعی اختلافات کو تو بیان کر سکتے ہیں لیکن وہ اقوام عالم کو لاحق بنیادی مسائل کی''یکسانیت'' کو بیان کرنے کے باوجود اپنا روئے سخن پھر کسی اور پہلو کی جانب پھیر لیتے ہیں اور مختلف اہداف کے حصول پر زوربیاں صرف کرنے لگتے ہیں۔
جب کہ وہ ہر وقت گوہر دانش وحکمت کا مقدس پیرہن زیب تن کیے رہنے کے باوجود رائج چلن سے دانستہ ٹکراؤ میں آنے سے گریز کرتے ہوئے ایسا کرتے ہیں یا پھر اس کی کچھ اور وجوہات ہو سکتی ہیں۔ سرِدست جنھیں بیان کرنا شاید فکروتدبر کی محفل میں ''توہین'' تصور کیا جائے۔ شاید یہی وجہ ہو کہ جس کے نتیجے میں دنیا میںانتشاری نظریات اوران کے نتیجے میں دہشت گرد کارروائیوں کے اطلاق میں آسانیاں پیدا ہوتی جا رہی ہیں۔
دیدہ وروں کے گھر پہ مسلط ہے تیرگی
اندھوں کی انجمن میں چراغاں ہے ان دنوں