پرانی ریاستیں نئے صوبے
براعظم آسٹریلیا کی کل آبادی تین کروڑ ستر لاکھ کے قریب ہے
براعظم آسٹریلیا کی کل آبادی تین کروڑ ستر لاکھ کے قریب ہے۔ اس براعظم میں آسٹریلیا کے علاوہ دوسرے ممالک مثلاً پاپوا نیوگنی اور مشرقی تیمور بھی شامل ہیں۔ ادھر ہمارے ہاں صوبہ پنجاب کی آبادی تقریباً دس کروڑ دس لاکھ اور صوبہ سندھ کی تقریباً چارکروڑ چوبیس لاکھ ہے۔ یعنی ہمارا ایک ایک صوبہ کئی کئی ممالک پہ مشتمل پورے پورے براعظم سے بھی بڑا ہے۔
بحیثیت ایک ملک آسٹریلیا کی کل آبادی تقریباً دوکروڑ چالیس لاکھ ہے یعنی تقریباً شہرکراچی کے برابر۔ ملک آسٹریلیا کے چھ صوبے ہیں جب کہ بے چارے لٹے پٹے کراچی کی اپنی بااختیار منتخب شہری حکومت تک نہیں۔ ویسے اگر آسٹریلیا ہمارے ''قومی'' سیاستدانوں کی دسترس میں ہوتا تو یقینا چھ کی جگہ ایک آدھ صوبہ، دو چار ڈپٹی کمشنر، ڈیڑھ دو درجن تھانیدار اور سو پچاس پٹواری کافی سے زیادہ سمجھے جاتے۔ پچھلے تین عشروں میں پاکستان کی آبادی دگنی سے بھی زیادہ ہو چکی ہے، مگر داد دیجیے ہماری ''قومی'' لیڈرشپ کوکہ جس نے ایک حریص وہوشیار زمیندار کی طرح خاندان کے بڑھنے کے باوجود زمین تقسیم نہیں ہونے دی۔
ایسا نہیں ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں نئے صوبوں کے معاملے پہ دم سادھے رہتی ہیں۔ جاگیرداری کی مخالف اور جاگیرداروں کی اتحادی ایک شہری پارٹی تقریباً ہر چھ مہینے میں ایک بار نئے صوبوں کے لیے تحریک چلانے کا اعلان کرتی ہے اور پھر اگلے چھ مہینے چپ بیٹھتی ہے۔ ادھر دیہاتی علاقوں کی جاگیردار پارٹی فوراً اپنے ہم زبان پیروکاروں کو دہائی دیتی ہے کہ دیکھیں یہ لوگ ہمارا مقدس صوبہ توڑنے کے درپے ہیں اور انھیں تو صرف ہم نے ہی روک رکھا ہے لہٰذا ہم ناگزیر ہیں۔ ادھر شہری پارٹی اپنے ہم زبان پیروکاروں کو جتاتی ہے کہ دیکھیں جناب! یہ صرف ہم ہیں جو آپ کے لیے نئے صوبے کی بات کرتے ہیں۔
آپ دونوں پارٹیوں کی ذہانت وفطانت کا اندازہ اس بات سے لگایے کہ آج سے کئی عشرے پہلے دونوں پارٹیاں جن وعدوں کے ساتھ افق پہ نمودار ہوئی تھیں تقریباً آدھے آدھے درجن بار وفاقی وصوبائی حکومتوں میں رہنے کے باوجود بھی ان میں سے ایک بھی پورا نہیں کرپائیں۔ البتہ اس دوران میں ان کے زیر اثر علاقے کھنڈرہوگئے اور کرپشن، جرائم، جہالت اور کوڑے کے ڈھیر ضرور بن گئے مگر مجال ہے کہ ان پارٹیوں کے پائے استقلال میں ذرا بھی لغزش جو آجائے، آج بھی یہ انھی نعروں پہ ڈٹی ہیں اور ان کے لوگ ان کے پیچھے ڈٹے ہوئے ہیں، ہے نا دلچسپ بات۔
ہماری سیاسی ''قیادتوں'' کی حیران کن صلاحیتیں اپنی جگہ مگر مسئلہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے اکنامک اور سوشل افیئرز ڈپارٹمنٹ کے پاپولیشن ڈویژن کی جولائی 2015 میں دنیا کی بڑھتی آبادی پہ جاری کردہ رپورٹ World Population Prospects 2015ء کے مطابق 2050ء تک پاکستان کی آبادی 30 کروڑ سے بھی بڑھ جائے گی۔
اقوام متحدہ والوں کو نہیں معلوم مگر اگر آج پاکستان میں فوج کی نگرانی کے بغیر مردم شماری ہو تو اس بات کے روشن امکانات ہیں کہ صرف صوبہ سندھ کی ہی اتنی آبادی نکل آئے۔ ہمارے ہاں جتنی تیزی سے آبادی بڑھی ہے کچھ اتنی ہی تیزی سے ہمارے سرکاری اداروں اور صوبائی حکومتوں کی اپنے محکموں سے کام کروانے کی صلاحیت گھٹی ہے۔
لاہور میں فیکٹری کے ملبے تلے لوگوں کو نکالنا ہو، پشاور میں بارشوں سے متاثرہ افراد کو بچانا، تھر میں بچوں کو غذا و علاج فراہم کرنا، کراچی میں جرائم و دہشت گردی پہ قابو پانا ہو یا گوادرکو پانی لے جانا پاکستان کی افواج ہی یہ سب کام کرتی نظر آتی ہیں۔ ہم مانیں یا نہ مانیں ہماری صوبائی حکومتوں سے یہ اتنے بڑے بڑے صوبے نہیں سنبھالے جا رہے ہیں اور وقت گزرنے اور آبادی مزید بڑھنے کے ساتھ یہ معاملہ مزید تباہ کن ہوتا جا رہا ہے۔
پاکستان کے موجودہ صوبے وقت گزرنے اور آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ جغرافیائی ارتقا سے گزرے ہیں۔ محمد بن قاسم کی آمد کے وقت بحیرہ عرب سے لے کر کشمیر تک کا علاقہ سندھ میں آتا تھا۔ 19 ویں صدی تک پنجاب، کشمیر، گلگت اور خیبر پاس سے لے کر ڈیرہ غازی خان اور موجودہ چندی گڑھ تک پھیلا تھا۔ آبادی بڑھنے کے ساتھ صوبوں کی تعداد بڑھنا ایک قدرتی ارتقائی عمل ہے جو بھارت میں کامیابی کے ساتھ بڑھا ہے تاہم ہمارے بات بات پر پاکستان ٹوٹنے کی باتیں کرنے والے سیاستدانوں نے صوبوں کو مافوق الفطرت مقدس درجہ دے دیا ہے۔
کئی کئی عشروں اور حکومتوں میں بھی لوگوں کے مسائل حل کرنے کی اہلیت نہ رکھنے والوں نے نئے صوبوں کو ایک مسئلہ بنا دیا ہے۔ ویسے پاکستان میں نااہلیت ہی اصل اہلیت ہے، کرکٹ بورڈ میں کسی سے بھی پوچھ لیجیے۔ بہرحال اب اس مقدس مسئلے کا حل بھی کچھ مقدس سا ہونا چاہیے۔ جیسے کہ قیام پاکستان کے وقت موجود کچھ ریاستوں مثلاً بہاولپور (1802-1955)، خیرپور (1775-1955)، سوات (1858-1955) اور مکران (اٹھارویں صدی سے 1955) کو ہم بحیثیت نئے صوبوں کے بحال کر سکتے ہیں۔ اپنے زمانے میں ان ریاستوں کی حکومتیں عوام دوست اور انتظامیہ مستعد تھی۔
ریاست خیرپور کے عوام کو مفت علاج معالجے اور میٹرک تک مفت تعلیم کی سہولتیں حاصل تھیں۔ آج خیرپور حالیہ برسوں میں اغوا برائے تاوان، ڈاکوؤں اور کرپشن کے حوالے سے پہچانا گیا ہے۔ بہاولپور کے نوابوں نے اس زمانے میں نہ صرف اسپتال، ڈسپنسریاں، اسکول، کالج اور یونیورسٹی قائم کی بلکہ ریلوے ٹریک بھی بچھایا۔ سوات ریاست کا امن و امان اور انصاف کی فراہمی کا نظام مثالی تھا۔ مکران سمیت ان ریاستوں میں نہ گھوسٹ اسکول تھے نہ کرپٹ حکمران اور انتظامیہ، نہ جرائم کا راج تھا نہ ہی مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کی نرسریاں تھیں۔
ان سابق ریاستوں کو نئے صوبوں کے طور پر بحال کرنے سے موجودہ صوبوں پہ نہ صرف انتظامی بوجھ کم ہو گا بلکہ عوام کو بھی اپنے نزدیک ترین منتخب حکومتوں کی سہولت حاصل ہو گی۔ اس عمل سے ملک بھر میں صوبائی انتظامی ڈھانچے کو بھی بہتر کرنے میں مدد حاصل ہو گی اور نئے صوبوں سے متعلق خوف اور اندیشے بھی ختم ہو سکیں گے۔
ان ریاستوں کی اپنی تاریخی اہمیت اور سیاسی تقدس تھا چنانچہ ان پہ مشتمل نئے صوبوں پہ ہمارے سیاستدانوں کو اصولی طور پر اختلاف نہیں ہونا چاہیے مگر ہماری کرکٹ ٹیم کے کئی کھلاڑیوں کی طرح جو بڑے سے بڑے ٹورنامنٹ کے اہم سے اہم میچ میں بھی قوم اور ملک کے مفاد کے بجائے اپنے سیاسی ایجنڈے کے مطابق کھیلتے ہیں ہمارے کئی سیاستدان بھی ملک اور قوم کے بڑے سے بڑے مفاد کے بجائے اپنے ذاتی سیاسی ایجنڈے پہ چلتے ہیں۔ نئے صوبے یا مکمل بااختیار شہری حکومتیں پاکستان کے لیے ایک ناگزیر فیصلہ ہے، آج یا کل کرنا ہی ہو گا۔