صبح چھ اور شب بارہ بجے
ہم تینوں پرانے یاران غار شام کی سیر کے لیے پارک میں داخل ہوئے، توقیر خاموش تھا
ہم تینوں پرانے یاران غار شام کی سیر کے لیے پارک میں داخل ہوئے، توقیر خاموش تھا، مقصود چہک رہا تھا اور میں اچھے سامع کی طرح باتیں سن کر گردن ہلا دیتا تھا۔ ہلکی ہوا کے ساتھ بہار کے موسم کی خوشبو ہمارے ساتھ ساتھ چل رہی تھی، جیسے وہ بھی ہمراہی ہو۔ توقیر صبح چھ بجے اخبارات کی ہر قابل غور رپورٹنگ کو سرخ اور سبز ہائی لائٹر سے نمایاں کرنے کا عادی تھا۔
سارے دن کی مصروفیات کے بعد رات آٹھ بجے سے بارہ بجے تک ٹیلیویژن کے ریموٹ کنٹرول آلے سے کھیلتا تھا۔ جس روز اخبار کی سرخیاں سبز سے زیادہ سرخ رنگ سے نمایاں ہوتیں، وہ شام کی سیر کے دوران خاموش اور بجھا ہوا ہمارا ہمراہی ہوتا۔ اس روز بھی گلشن اقبال میں شہید اور زخمی ہونے والے سیر و تفریح کے لیے آئے درجنوں بچوں کی شہادت پر وہ مغموم ہونے کے بعد خاموش گردن جھکائے ہمارے ساتھ پارک میں ہمقدم تھا۔ مقصود کی چہکار کی وجہ مختلف تھی۔
توقیر کے برعکس اس نے تین ماہ سے اخبار اور ٹیلیویژن کا بائیکاٹ کر رکھا تھا جس کی وجہ سے وہ ملکی حالات سے بے خبر رہنے کا تجربہ کر رہا تھا۔ گو مجھے اس کے بائیکاٹ فیصلے سے قطعی اختلاف تھا لیکن شام کی سیر کے دوران اگر وہ بھی تصویر درد بن جاتا تو شاید میں بھی ڈیپریشن میں چلا جاتا۔ سیر کا ایک گھنٹہ گزار کر ہم پارک کے کنارے چائے خانے چلے جاتے جہاں موجود ایک باتونی گروپ شہر، ملک اور بیرون ملک کے حالات پر سیر حاصل تبصرے کرتے ہوئے ہمیں اپ ڈیٹ کر دیتا۔ دراصل ہمارے لوگوں کو ملکی سیاست پر اپنی مصدقہ آراء دینے کا ٹھرک ہے۔ ہم تینوں کو چائے خانے میں معاشی، سیاسی، مذہبی، جنسی غرضیکہ ہر قسم کی انفرمیشن باافراط مل جاتی۔
اگر ہم روزانہ ملکی حالات و معاملات پر لوگوں کی گفتگو کا ریکارڈ جمع کریں تو ایک تکلیف دہ صورتحال کا سامنا ہوتا ملے گا کہ ہمارے So Called پڑھے لکھے اور عقل مند کس قدر فارغ لوگ ہیں کہ گھنٹوں ان موضوعات پر گفتگو اور رائے زنی کے لیے وقت کا ضیاع کرتے پائے جاتے ہیں جو ان کی روزمرہ زندگی کے لیے قطعی بے مقصد ہوتی ہے اور اس بحث فضول کے دوران وہ بعض اوقات دست و گریبان بھی ہو جاتے ہیں۔
ایک روز میں نے بھی توقیر کی تقلید میں ارادہ کر لیا کہ ہر صبح 6 بجے چند معتبر اخبارات کا تفصیل کے ساتھ ایک ہفتہ تک سرخ اور سبز ہائی لائٹر کا استعمال کرتے ہوئے مطالعہ کروں گا چنانچہ ایک اتوار سے شروع کر کے اگلی اتوار تک ہائی لایٹرز لگے تمام اخبارات اکٹھے کیے اور ان کا مکرر جائزہ لیا۔ ہر قسم کے منفی معاملات از قسم رہزنی، چوری، ڈکیتی، قتل، لڑائی جھگڑے، فساد و حادثات وغیرہ کی خبریں چونکہ سرخ ہائی لائٹر سے نمایاں کی گئی تھیں اس لیے میں نے دیکھا کہ اخبارات کے زیادہ تر حصے لہولہان تھے۔
مجھے بے حد شرمندگی، دکھ اور پشیمانی نے گھیر لیا۔ جب یہ محسوس کیا کہ یہ تمام خبریں تو خود میرا ہی اعمال نامہ ہیں۔ دراصل ہمیں دوسروں کی خامیوں، نقائص، بداعمالیوں، غلطیوں، برائیوں وغیرہ کو موضوع سخن بنانے کی بیماری ہے۔ ہر کسی میں پانچ دس عیب بآسانی نکال لینا ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل اور محفل میں غیرموجود لوگوں کی سچی جھوٹی عادات اور ان کے عیوب پر رائے زنی ہماری فطرت ثانیہ ہے حالانکہ ہمارے پیشہ ور ناقدین خود ایسی ہی خرابیوں میں لتھڑے ملیں گے۔ ہمارے سیاسی اور مذہبی اکابرین اپنے مخالفین پر اسی قسم کے الزامات ہر روز لگاتے اور اخبار و ٹیلیویژن کا پیٹ بھرتے ہیں۔
یہی حال ہمارے اعلیٰ و گراں تعلیمی اداروں کا ہو چلا ہے جو تعلیم کی دکانیں تو ہیں لیکن ان کا تربیت گاہوں والا خانہ خالی ہے۔ میرا خاموش اور ڈیپریشن کا شکار دوست توقیر حسین دراصل صبح 6 بجے اور رات 8 بجے سے بارہ بجے تک اپنا وقت نظری اور ذہنی طور پر ایسی یکطرفہ محفل میں گزارتا ہے جس سے اس کے دل و دماغ پریشانی اور مایوسی کے گردبادوں میں گھر جاتے ہیں اور پھر اس کو دیکھ کر ہمیں اسی کی کیفیت اس شعر میں بیان کرنا پڑتی ہے کہ
دل تو میرا اداس ہے ناصرؔ
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے
مقصود الرحمن ہمارا تیسرا دوست جس نے گزشتہ کچھ عرصہ سے ٹیلیویژن دیکھنے کا ایک تجربے کے طور پر ناغہ کیا ہوا ہے، بیان کرتا ہے کہ ٹی وی میں خبر کی دنیا ضرور ہے لیکن ناظرین کو علمی، ادبی، تفریحی، معلوماتی خزائن سے محروم رکھنا اور جرائم اور سیاست کی خبروں تک محدود کرنے سے لوگوں کو بدفطرتوں کی زندگی کا ہر گوشہ دکھاتے چلے جانے سے کچے ذہن کے افراد میں منفی سوچ کے جراثیم داخل ہو جانے کا قوی امکان ہو سکتا ہے اسی لیے اس نے کچھ عرصے سے اپنی سوچ مصروفیات اور عادات کا موازنہ توقیر سے کرنے کے بعد خبر کی دنیا سے تعلق قطع تو نہیں کیا لیکن اعتدال کا تجربہ آزمایا ہے جو صحت مند اور فرحت بخش ہے۔
دونوں دوستوں میں اس وقت مزاح کا تضاد ہے کہ توقیر سنجیدہ متفکر گم سم جب کہ مقصود مسکراتا، قہقہے لگاتا اور باتیں کرتا، اظہار رائے کرتا پایا جاتا ہے۔ جھگڑوں، تجزیوں، الزامات، جرائم کی خبروں کی تفاصیل، سزایابیوں کے بجائے ضمانتوں اور بریتوں، سربریدہ لاشوں کی تصویروں، خودکش بمباری میں لاتعداد شہادتوں، کرپشن کی داستانوں، بااثر افراد کی ہوشربا کارستانیوں الغرض ہولناک سفاکیوں کی روزمرہ رپورٹوں اور دل دہلا دینے والی وارداتوں نے سامعین و ناظرین کی نفسیات بدل کر رکھ دی ہے۔
لوگوں کے پاس انڈور تفریح کے ذرایع ہیں نہ آؤٹ ڈور کھیل کے میدان۔ ایسے میں شہریوں کی ذہنی نشوونما کیسی ہو گی، اندازہ کرنا قطعی مشکل نہ ہو گا۔ ادھر میرے نزدیک صبح چھ بجے ایک گھنٹے کے لیے اور پھر رات آٹھ بجے سے بارہ بجے تک حالات حاضرہ میں ڈوبے رہنا یا پھر تنگ آ کر خود ہی سے بجنگ آمد کے ذریعے اپنی ذات کے خول میں بند کر لینا گویا بلی کو سامنے پا کر کبوتر والا نسخہ استعمال کرنا بھی زندگی سے فرار کے مترادف ہو گا اس لیے مجھے کسی روز ان دونوں دوستوں کی کلاس لینا ہو گی۔