اور ملک دشمنی کیا ہوتی ہے

بلوچ اورپشتون قبائل کےلوگ اپنےہاں زمینیں، جائیداد، لین دین ہے کہ یہاں تک کہ قتل کے فیصلے بھی عدالتوں میں نہیں لے جاتے


Orya Maqbool Jan April 11, 2016
[email protected]

حافظ سعید اور مولانا مسعود اظہر یہ دو ایسے نام ہیں جن کے بارے میں منفی خبر ڈھونڈنے، جھوٹا پراپیگنڈہ کرنے اور انھیں دنیا کا خطرناک دہشت گرد ثابت کرنے کا ٹھیکہ بھارت کی حکومت، خفیہ ایجنسیوں اور میڈیا نے لے رکھا ہے اور اس معاملے میں ان کا آزاد اور خود مختار کہلانے والا میڈیا بھی حکومتی پالیسی کا زرخرید غلام محسوس ہوتا ہے۔

گزشتہ دنوں ایک بھارتی چینل پر جانے کا اتفاق ہوا تو یوں لگا کہ اس ملک کے تمام تجزیہ نگاروں، اینکر پرسنوں، ریٹائرڈ سفارت کاروں اور جرنیلوں کو صرف اور صرف حافظ سعید اور مولانا مسعود اظہر کا بخار ہو چکا ہے۔ گفتگو تجارت پر ہو یا پٹھانکوٹ پر، کشمیر میں مظالم یا عوام میں پاکستانی پرچم لہرانے کی لہر پر بات ہو، بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے پکڑے جانے کا تذکرہ ہو یا نریندر مودی کا بنگلہ دیش بنانے میں بھارتی فوج کی مداخلت کے اعتراف کا بیان، وہ لوگ موضوع پر رہنے کے بجائے چار لفظوں کی گردان شروع کر دیتے ہیں۔

حافظ سعید، مریدکے اور مولانا مسعود اظہر، بہالپور۔ مولانا مسعود اظہر کے بارے میں بھارت کو گزشتہ دنوں عالمی سفارتی سطح پر ایک بہت بڑی ہزیمت اور ذلت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ بھارت نے پٹھانکوٹ کے دو جنوری کے حملے کے بعد فروری کے آغاز میں مولانا مسعود اظہر کے بارے میں اقوام متحدہ کی سلیکٹ کمیٹی کو تحریر کیا کہ ان کا نام دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا جائے اور ان پر پابندی لگائی جائے۔

اقوام متحدہ کی کاؤنٹر ٹیررازم ایگزیکٹو ڈائریکٹوریٹ نے امریکا، برطانیہ اور فرانس کا بھارتی مؤقف کے حق میں ہونے کی وجہ سے اسے تمام ممبران کو ارسال کیا تاکہ مولانا مسعود اظہر پر پابندیاں لگائی جاسکیں۔ اگر کسی ملک کی جانب سے کوئی اعتراض نہ آئے تو ایک وقت مقررہ کے بعد اس شخص کا نام پابندی والی فہرست میں شامل کر دیا جاتا ہے۔ بھارت کے لیے یہ اس وقت ہزیمت کا باعث بنا جب مقررہ وقت سے چند گھنٹے پہلے آرٹیکل 1267 کا استعمال کرتے ہوئے چین نے مولانا مسعود اظہر پر پابندی لگوانے کے عمل کو رکوا دیا۔ چین نے بھارت کی ایسی درخواستوں کو پانچ بار اقوام متحدہ میں رکوایا ہے۔

ان میں کشمیری حریت پسند رہنما سید صلاح الدین، حافظ سعید، ذکی الرحمن لکھوی اور مولانا مسعود اظہر پر پابندی کی درخواستیں شامل ہیں۔ آپ حیران ہوں گے کہ بھارت کا پورا میڈیا یکم اپریل سے چین کے خلاف چیخ رہا ہے لیکن آپ پاکستان کے میڈیا کو دیکھ لیں، پہلے تو پرنٹ میڈیا میں آپ کو خبر ڈھونڈنا پڑے گی اور بھارت کی اس سفارتی شکست پر ایک بھی ٹی وی ٹاک شو نظر نہیں آئے گا۔ بھارت سے ان کی محبت اپنی جگہ لیکن ایک اور وجہ بھی ہے اور وہ یہ کہ ایک مسجد کے امام یا مدرسے کے مہتمم کا نام پاکستان سے محبت کرنے والوں کی فہرست میں جگمگاتا نظر آتا ہے اور بھارت ان کے نام سے شدید نفرت کرتا ہے۔

مولانا مسعود اظہر کی پاکستان کے لیے کیا حیثیت ہے اس کا ادراک چین جیسے ملک تو ہے لیکن پاکستان کے میڈیا کو نہیں ہے۔ یہ مسئلہ پاکستانی میڈیا کا نہیں، عالمی سطح پر کارپوریٹ ایجنڈے پر چلنے والے ہر میڈیا کا ہے۔ ان کے نزدیک جب تک تین چیزوں کو ایک ساتھ بدنام نہ کیا جائے، اسلام کو بدنام کرنے کا مقصد پورا نہیں ہوتا۔ اسی لیے وہ جہاد سے دہشت گردی وابستہ کرتے ہیں اور پھر یہ تین ہدف ان کے سامنے ہوتے ہیں۔ ایک پاکستان، دوسرا مدارس اور تیسرا مولوی۔ گزشتہ دنوں وفاق المدارس کے سربراہ مولانا حنیف جالندھری غریب خانے پر تشریف لائے تو ان کے ہاتھ میںایک غیر ملکی نیوز سروس کی جانب سے ایک خط تھا جس کا عنوان تھا''Your Support to Masood Azhar'' اور اس میں کہا گیا تھا کہ آپ نے بہاولپور میں ایک تقریب میں خطاب کیا تھا اور ہماری تحقیقات کہتی ہیں کہ وہ جہاد کی ترغیب کے لیے مولانا مسعود اظہر کی تصنیف پر کتاب تھی۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ تقریب رونمائی 2008ء میں ہوئی اور یہ کسی عام کتاب نہیں بلکہ قرآن پاک کی تفسیر کی تقریب رونمائی تھی۔ ظاہر بات ہے قرآن پاک سے آپ جہاد کی آیت تو نکال نہیں سکتے لیکن چاہتے وہی ہیں کہ ہمارے نصاب تعلیم سے لے کر روزمرہ گفتگو تک بھی لفظ جہاد استعمال نہ ہو۔ نصاب تعلیم سے زرداری اور نواز شریف کی حکومتوں نے جہاد کا لفظ تو کیا مسلمانوں میں جہاد کے علمبردار صحابہ کا ذکر بھی کھرچ دیاگیا ہے۔ اب روزمرہ میں یہ لفظ یا تو مدارس میں باقی رہ گیا ہے یا مولوی کی تقریروں میں۔ یہ دونوں مغرب کا بھی ہدف ہیں اور میڈیا کا بھی۔

مسعود اظہر کے بعد دوسرا نام حافظ سعید کا ہے۔ بھارت میں یہ نام نفرت کی علامت ہے۔ لیکن پاکستان میں اس نام کو کیسے نفرت زدہ بنایا جائے، میڈیا کے لیے یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ملتا، طالبان اور القاعدہ سے دور کا واسطہ نہیں۔ اب حافظ سعید کو کیسے پاکستانیوں کی نظر میں رسوا کیا جائے۔ایک نجی ٹی وی نے اپنے ایک اینکر کے ذریعے ایک خبر چلائی کہ جماعت الدعوۃ نے متبادل عدالتی نظام قائم کر لیا ہے اور لوگ ان کے پاس اپنے مقدمات فیصلے کے لیے لے کر جاتے ہیں اور وہ لوگوں کو سمن وغیرہ بھی جاری کرتے ہیں۔ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ جماعت الدعوۃ کے لوگ بندوقوں کے سائے تلے شریعت نافذ کر رہے ہیں اور پاکستان کے عدالتی نظام کے مقابل اپنا ایک عدالتی نظام قائم کیے ہوئے ہیں۔

اگلے دن یہ اخبار میں شایع ہو گئی اور پھر اسی دن اسے بھارتی میڈیا نے اٹھا لیا اور چند دن بعد آپ اسے عالمی میڈیا میں بھی دیکھ لیں گے۔ جس معاملے کو عدالتی نظام کا متبادل بنا کر پیش کیا گیا اس طرح کے سیکڑوں نظام ہائے کار اس ملک کے گوشے گوشے میں رائج ہیں۔ بلوچ اور پشتون قبائل کے لوگ اپنے ہاں زمینیں، جائیداد، لین دین ہے کہ یہاں تک کہ قتل کے فیصلے بھی عدالتوں میں نہیں لے جاتے۔ انھیں معلوم پاکستان کا عدالتی نظام پولیس کی بددیانت تفتیش، رشوت خور پراسیکیوشن، جھوٹے گواہوں کی لعنت اور وکیلوں کی اجارہ داری سے مزین ہے۔ ایسے نظام سے انصاف تو دور کی بات ہے، اگر آدمی اپنی عزت اور جمع پونجی بھی بچا کر لے آئے تو وہ خوش قسمت ہو گا۔

لاہور سے لے کر کوئٹہ اور کراچی سے لے کر گلگت تک آپ کسی بھی مارکیٹ میں لین دین کے جھگڑوں کے تصفیے کے بارے میں معلوم کر لیں، کوئی کاروباری سول عدالتوں کے چکر میں نہیں پڑتا۔ دونوں جانب سے ثالث مقرر ہوتے ہیں تو فیصلہ ہو جاتا ہے۔ انھیں معلوم ہے کہ سول عدالت میں اگر دادے نے مقدمہ درج کرایا تو پوتے بلکہ پڑپوتے تک کو بھی انصاف ملنے کی کوئی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔

خاندانی جھگڑوں، طلاق، علیحدگی، بچوں کی نگہداشت، والدین کے حقوق جیسے مسائل بھی کبھی کوئی عدالت میں نہیں لے کر گیا۔ اس لیے کہ ان کو علم ہے اور ایسے بدقسمت لوگوں کا پتہ ہے جو خاندانی جھگڑے عدالت میں لے کر گئے تو پہلے وکیلوں کی جرح میں ذلیل ہوئے اور پھر میڈیا کے رپورٹر ان پر ایسے پل پڑے جیسے بھوکے بھیڑیے بکریوں کے گلے پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ان میں سے اکثریت محلے یا خاندان کی کسی نیک پرہیزگار ہستی یا پھر کسی عالم دین یا پیر سے فیصلہ کروا لیتے ہیں۔ بلوچستان کا کونسا سردار، نواب، ٹکری، ملک یا معتبر ایسا نہیں جس کے پاس آج بھی لوگوں کے کیس فیصلے کے لیے نہ موجود ہوں۔ ان میں زمین کے جھگڑوں سے لے کر قتل کے مقدمے تک موجود ہوتے ہیں۔

لیکن حافظ سعید اور پھر کالعدم جماعت الدعوۃ کا نام لے کر متبادل عدالتی نظام چلانے سے اس کا تعلق جوڑنا، اس سب کا مقصد ہی کچھ اور تھا۔ جامعہ قادسیہ کے علاوہ پاکستان کے ہر مدرسے میں لوگ علماء سے اپنے جھگڑوں کے فیصلوں کے لیے آتے ہیں۔ لیکن کیا جامعہ قادسیہ میں کالعدم جماعت الدعوۃ کا دفتر ہے۔ وہاں تو نہیں ہے کیونکہ وہ کالعدم ہے۔

فلاح انسانیت اور جامعہ قادسیہ کا بورڈ دفتر ضرور ہے۔ اس ایک خبر میں ان دونوں کی جگہ بڑھا چڑھا کر جماعت الدعوۃ کا نام لینا، کسی اور کو نہ صرف خوش کرنا مقصود تھا بلکہ مملکت خداداد پاکستان کے خلاف ایسا مواد فراہم کرنا تھا جو بھارت اور مغربی ممالک کے میڈیا میں پاکستان مخالف مواد میں جان ڈال دے اور بھارت پاکستان کے خلاف اپنا کیس اس ایک خبر کی بنیاد پر مضبوط کرے کہ وہاں تو جماعت الدعوۃ ایک متبادل عدالتی نظام چلا رہی ہے۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے اسے کھلی چھوٹ دے رکھی ہے ۔ایسے میں بھارت یہ کیس بناسکتا ہے کہ اب ہائی کورٹ کے حافظ سعید کے حق میں فیصلے کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے۔ کس قدر ہوشیاری سے یہ تیر چلایا گیا ہے اور ملک دشمنی کیا ہوتی ہے اور غداری کس کو کہتے ہیں۔

التجا:زلزلے سے پہلے گزشتہ کئی کالموں میں اہل نظر کی جانب سے درخواست کرتا رہا ہوں کہ ہم اللہ مالک کی ناراضگی کو دعوت دیتے چلے آ رہے ہیں اور سیلابوں اور زلزلوں کی علامتیں واضح ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ حکمرانوں کا وبال رعایا پر اس وقت نازل ہوتا ہے جب وہ ان کی بداعمالیوں پر خاموش رہتی ہے۔ جو قوم گیس' پانی' بجلی پر صدائے احتجاج بلند کرسکتی ہو وہ اللہ کی نافرمانیوں پر خاموش رہنے کا کوئی عذر نہیں دے سکتی۔ چند ہفتے پہلے التجا کی تھی کہ اللہ کو راضی کرنے کے لیے اجتماعی استغفار کریں اور حکمرانوں کی ہدایت یا ان سے نجات کی دعا کریں۔ ایک دفعہ پھر التجا کر رہا ہوں۔ ورنہ اہل نظر جس ناراضگی کی شدت کو بیان کرتے ہیں اسے سوچ کر بھی خوف آ رہا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں