صنعت تعلیم اور ثقافت کی ترقی
دولت کی تمام تر پیدائش انسانی محنت کا نتیجہ ہے
دولت کی تمام تر پیدائش انسانی محنت کا نتیجہ ہے۔ سرمایہ دارانہ سماج میں استحصال کا دارومدار ذرایع پیداوار پر سرمایہ داروں کے قبضے پر ہوتا ہے۔ تعلیِم، صحت، مکان اور دیگر سہولتوں کی ضروری خدمات اس لیے فراہم نہیں کی جارہی ہیں کیونکہ پیداوار سے ہونے والی زائد آمدنی (قدر زائد) استحصال کرنیوالوں کی جیبوں میں چلی جاتی ہے یا پھر قرضوں کی واپسی اور انتظامیہ پر خرچ ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے عوامی بہبود پر خرچ کرنے کے لیے کم وسائل بچتے ہیں۔ یہ موجودہ نظام کی جبلی بیماری ہے۔
ٹیکسوں کا نظام معمولی اصلاحات اور اخلاقی استحصال، یہ سب موجودہ نظام کو بچانے اور عوام کو دھوکا دینے کے حیلے بہانے ہیں۔ بڑی صنعتوں کو دوبارہ قومی ملکیت میں لے کر محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں دیا جائے۔ سامراجی اجارہ داریوں (ملٹی نیشنل کمپنیوں) کی صنعتوں کو چلانے کے لیے افسرشاہی کو تعینات نہیں کیا جائے گا بلکہ مزدوروں اور ماہرین پر مشتمل انتظامیہ ان صنعتوں کو چلائے گی۔ یہ صنعتیں کارکنوں، کاریگروں اور ماہرین کی نگرانی اور جمہوری کنٹرول میں چلانا ہوں گی۔
معیشت کی بالائی پرتوں اور تجارت پر مزدوروں کے جمہوری کنٹرول اور نگرانی کی ذمے داری ہوگی، جب کہ چھوٹی صنعتوں، درمیانے کاروبار اور پرچون نیٹ ورک کے لیے نجی شعبے کو کام کرنے کی اجازت ہوگی مگر یہ تمام صنعتی اور تجارتی سرگرمیاں محنت کش عوام اور پیداواری قوتوں کی نگرانی میں ہوں گی۔ پرائیوٹ اور پبلک سیکٹر کے مابین معیار میں اضافے اور قیمتوں میں استحکام کے لیے صحت مندانہ اور عوام دوست مقابلے کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی۔ صنعتوں اور معیشت کے دیگر حصوں سے ٹھیکے داری نظام کا مکمل خاتمہ کرنا ہوگا۔ کنٹریکٹ یا عارضی لیبر پر پابندی لگانی ہوگی۔ غلامی، جبری مشقت اور استحصال کی تمام شکلوں اور قسموں کو ختم کرنا ہوگا۔
عوامی صنعت اور معیشت کے تحفظ اور فروغ کے لیے اسے سامراجی شکنجے اور جکڑبندی سے آزاد ہونا ہوگا۔ عالمی سامراجی مالیاتی اداروں کی تمام عوام دشمن شرائط منسوخ کرنی ہوں گی۔صحیح معنوں میں غیر طبقاتی نظام اور سماج کی تشکیل کے لیے اشد ضروری ہے کہ علم کے دروازے پورے سماج کے لیے کھول دیے جائیں۔ ہمیں سرمایہ دارانہ نظام کے مسلط کردہ اس تصور کو یکسر مسترد کرنا ہوگا کہ اعلیٰ تعلیم کو محض تنگ نظر اور محدود ماہرین سازی کے لیے استعمال کیا جائے۔ ایسی طرز تعلیم سرمایہ دارانہ مفاد کا احاطہ کرتی ہے، کیونکہ یہ پڑھے لکھے دانشوروں کو مخصوص سیاسی اور معاشی اقدار کے حامل مروجہ نظام کے جواز کے بارے میں سوال کرنے سے روک دیتی ہے۔
تعلیم سہولت نہیں بلکہ حق ہوتا ہے، پرائمری تعلیم سے لے کر یونیورسٹی تک تعلیم مفت کرنی ہوگی۔ طبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ تمام نجی اور مراعات یافتہ اداروں کو سرکاری تحویل میں لینا ہوگا۔ تعلیم کو کاروبار اور دولت کمانے کا ذریعہ بنائے جانے کے رجحانات کا مکمل خاتمہ کرنا ہوگا۔ طلبا یونینوں کو بحال کرنا ہوگا۔ طلبا، والدین اور اساتذہ کی مشترکہ کمیٹیوں کے ذریعے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کو چلانا ہوگا۔ ملک کے پسماندہ اور دور دراز علاقوں میں فنی اور تربیتی اداروں کا جال بچھانا ہوگا۔ نوجوانوں کو نہ صرف تعلیم فراہم کی جائے گی بلکہ انھیں ہنر بھی سکھانا ہوگا۔
فرسودہ نظام تعلیم کو تبدیل کرکے تار یخی طور پہ مسترد شدہ نظریات اور خیالات کو نصاب سے خارج کرکے اسے جدید اور سائنسی بنیادوں پر مرتب کرنا ہوگا۔ بادشاہتوں اور حکمرانوں کی تاریخ کے بجائے ان سماجوں کے محروم طبقات اور ان کی انقلابی جدوجہد کو نصاب کا حصہ بنانا ہوگا۔ بالادست طبقات کی حکمرانی کے تحفظ پر مبنی نصاب کو تبدیل کرنا ہوگا۔ تعلیمی اداروں میں کالے دھن، اسلحے، مالیاتی سرمائے اور رجعتی خیالات کے حامل گروہوں اور جرائم پیشہ عناصر سے پاک کرنا ہوگا۔
تعلیمی اداروں میں انقلابی اقدامات کے ذریعے انھیں تحقیق، جستجو اور علم کے حقیقی مراکز بنانے ہوں گے۔کسی بھی سماج کا ثقافتی معیار اس کے باشندوں کے عمومی رویوں اور رہن سہن کے طریقوں سے ناپا جاتا ہے۔ ثقافتی معیار کی بنیاد اس سماج کی معاشی بنیادوں پر جنم لینے والے تعلقات پر مبنی ہوتی ہے، جب کہ ثقافت کے دوسرے شعبوں میں موسیقی، آرٹ، ادب، شاعری، مصوری، طرز تعمیر اور نثر وغیرہ شامل ہیں۔ ثقافت کوئی جامد چیز نہیں ہوتی، یہ مجموعی طور پر پیداواری ذرایع کے ارتقاء اور سماجی تبدیلیوں کے تسلسل سے جڑی ہوتی ہے۔ اس حوالے سے کوئی بھی معاشی بحران ناگزیر طور پر اس معاشرے میں سماجی اور ثقافتی بحران کو جنم دیتا ہے۔
معاشی بحران سے دوچار موجودہ سماج اس کا وا ضح اظہار ہے۔ جب بھی کوئی معاشرہ، معاشی، سیاسی اور سماجی بحران میں مبتلا ہوتا ہے تو سماج میں ماضی کے تعصبات اور توہمات کے حامل رجعتی اور فرسودہ رجحانات میں شدت آجاتی ہے۔ مذہبی شدت پسندی کا فروغ اور موسیقی، آرٹ، لوک رقص، مصوری، فلم اور دیگر ثقافتی سرگرمیوں کی اندھادھند مخالفت معاشرے کے ثقافتی اور سماجی بحران کی نشان دہی کرتی ہے۔ اس صورتحال کی واضح عکاسی خواتین اور بچوں سے روا رکھے جانے والے سلوک سے بھی ہوتی ہے۔
ثقافتی ارتقا میں شدید ناہمواری، عدم مساوات، انسانی سوچ اور شعور کا معیار بھی موجودہ صورتحال کا خلاصہ ہے۔ لیکن اس تمام صورتحال کا سب سے موثر اظہار وہ دور ہے جس سے ہم گزر رہے ہیں۔
معاشرے کو اس سماجی اور ثقافتی بحران سے نکالنے کے لیے ہنگامی پروگرام شروع کرنا ہوں گے۔ ہر آبادی کے ساتھ ملحقہ ہر قسم کی گراؤنڈز تعمیر کرنی ہوگی تاکہ ہر شخص کو کھیلنے کا موقع مل سکے۔ ہر تعلیمی ادارے میں کھیلوں اور ثقافتی سرگرمیوں کو مسلسل فروغ دینا ہوگا۔ کھیل سے رشوت اور جوئے کی لعنت کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ کھیلوں اور دیگر ثقافتی سرگرمیوں کو مالیاتی سرمائے کے اثرات سے آزاد کرکے حقیقی معنوں میں لوگوں کی تفریح اور مثبت سرگرمی کا مرکز بنانا ہوگا۔ آرٹ، ٹی وی، رقص، پرفارمنگ آرٹ کے ادارے قائم کرنے ہوں گے۔ فنون لطیفہ کے تمام شعبوں کو ترقی پسند اور انقلابی نظریات کو پھیلانے کے لیے استعمال کرنا ہوگا۔