غیرقانونی دولت کا ہدف
پانامہ لیکس نے پاکستان میں ان ملٹی نیشنل کمپنیوں اور افراد کی تفصیلات آشکار کر دی ہیں
DHAKA:
پانامہ لیکس نے پاکستان میں ان ملٹی نیشنل کمپنیوں اور افراد کی تفصیلات آشکار کر دی ہیں جو اپنی غیرقانونی دولت چھپانے اور ٹیکس نادہندگی کی پردہ پوشی کے لیے مَنی لانڈرنگ کرتے ہیں جس کے لیے انھیں معروف چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس کی خدمات حاصل ہوتی ہیں جو اب پرائم ٹائم ٹی وی پر اس امر کی وضاحت کر رہے ہیں کہ آف شور کمپنیاں اور ان کے اکاؤنٹس عین قانونی ہیں حالانکہ اصطلاح میں اس دولت کو غیر قانونی مالیاتی ترسیل یا IFFS کہا جاتا ہے۔ لیکن جو چارٹرڈ اکاؤئنٹنٹس آف شور کمپنیوں میں رکھے جانے والے اکاؤنٹس کا دفاع کر رہے تھے وہ بخوبی جانتے تھے کہ یہ رقوم مکمل طور پر غیرقانونی ہیں۔
چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس کی فرم جتنی زیادہ باوقار ہو گی وہ اپنے کلائنٹس کو ٹیکس بچانے کے اتنے ہی زیادہ پیچیدہ طریقے بتائے گی۔ اشرف شریف نامی میڈیا کے ایک رکن نے تحقیق کر کے عوام کے سامنے وہ خفیہ راز آشکار کر دیے ہیں جن کو مالیاتی ماہرین چھپانے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ اس میں ان کے اپنے مفادات بھی کارفرما ہوتے ہیں۔ اب چونکہ ٹیکنالوجی میں بڑی تیز رفتاری کے ساتھ پیشرفت ہو رہی ہے لہٰذا فارنسک آڈٹ کے تحت وائٹ کالر جرائم کا کھوج لگا لینا ممکن ہو گیا ہے۔ اب مشتبہ افراد کا کمپیوٹر ہارڈ ڈرائیو کے ذریعے معائنہ کیا جاتا ہے اور ان کے ڈی این اے کا تجزیہ وغیرہ بھی کیا جاتا ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں یہ ٹیکنالوجی عام طور پر استعمال ہو رہی ہے۔ عالمگیریت کا تقاضا ہے کہ تمام قابل رسائی طریقوں سے لوٹ مار اور کرپشن کا کھوج لگایا جا سکے جو کہ گلوبل ایجنڈا کونسل (جی اے سی) کے ایجنڈے پر اینٹی کرپشن اور ٹرانسپیرنسی کے عنوان کے تحت موجود ہے جس کا اہتمام ورلڈ اکنامک فورم (ڈبلیو ای ایف) میں 2004ء میں کرپشن کے خلاف حصہ داری کے عنوان سے کیا ہوا ہے۔ گلوبل ملٹی نیشنل' ملٹی انڈسٹریز' ملٹی سٹیک ہولڈر' اینٹی کرپشن کا طریق کار بہت زیادہ مفید ثابت ہوا ہے کیونکہ اس سے کاروبار کے اخلاقی معیار بلند ہوئے ہیں۔
اس سے معاشرے میں قابل احتساب کاروبار کو قائم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ پی اے سی آئی کی ویب سائٹ میں کہا گیا ہے ''کرپشن کسی ملک کے استحکام' ترقی اور اقتصادی مسابقت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ 2014ء میں ابوظہبی میں ''انسداد کرپشن اور شفافیت' کے عنوان سے ہونے والے اجلاس میں پانامہ کی نائب صدر ازابیل ڈی سینٹ مالو ڈی الواراڈو نے جو پانامہ کی وزیر خارجہ بھی ہیں بڑے وثوق سے اعلان کیا کہ وہ پانامہ کی اقتصادیات کو شفاف بنانے کے لیے قانون سازی کریں گی۔
اعلیٰ تربیت یافتہ تحقیقاتی افراد ایسے معاملات کا کھوج لگانے اور شواہد تلاش کرنے کے لیے مختلف ذرایع استعمال کرتے ہیں جن میں خفیہ نگرانی یا جاسوسی' ریکارڈ کی پڑتال' اور مخبروں کی مدد لی جاتی ہے تا کہ جرائم کا سدباب کیا جا سکے۔ اب کمپنیاں گلوبل نیٹ ورک میں شامل ہو کر ان کے ترقی یافتہ ذرایع سے مدد لے کر جن میں نگرانی کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور فارنسک اکاؤئٹنگ کے علاوہ خفیہ مالیاتی تحقیقاتی ٹیم بھی شامل ہوتی ہے جو فراڈ کے ذریعے بنائے گئے اثاثوں کا کھوج لگاتی ہیں اور یہ دیکھتی ہیں کہ رشوت اور مالیاتی خورد برد کے کہاں کہاں امکانات ہیں، کہاں کِک بیکس لی گئی ہیں' کہاں کالے دھن کو سفید کیا گیا ہے اور داخلی کنٹرول کی خامیوں سے کہاں اور کتنا فائدہ اٹھایا گیا ہے۔
منی لانڈرنگ کے ذریعے مجرمانہ طریقے سے حاصل کی جانے والی دولت کو قانونی اور جائز رقم میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ منی لانڈرنگ کے خلاف کارروائی کے لیے 1989ء میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) قائم کی گئی جس کو متعدد بین الاقوامی اور علاقائی اداروں کا قریبی تعاون حاصل تھا۔ امریکی نظام ٹیکس کی شفافیت اس اصول پر مبنی ہے کہ آمدنی قابل ٹیکس ہونی حاہیئے نیز آمدنی کے ذرایع مستحکم ہوں' دولت فراڈ یا منی لانڈرنگ کے ذریعے تو حاصل نہیں کی جا رہی لیکن اس کے باوجود بدنام مجرم ال کیپون کی دولت کے خلاف کوئی شہادتیں حاصل نہیں کی جا سکیں حالانکہ اس نے ساری دولت انتہائی خطرناک جرائم کے ذریعے حاصل کی تھی تاآنکہ قانون نافذ کرنیوالے اداروں نے اس کی منی لانڈرنگ اور ٹیکس نادہندگی کا سراغ لگا لیا اور یوں اس کے گرد شکنجہ کسا جا سکا۔
آج وائٹ کالر کرائم نے ترقی کی کئی منازل طے کر لی ہیں جس کے ذریعے تحقیق کرنیوالوں کو خصوصی مہارت کا حامل ہونا چاہیے تا کہ وہ پیچیدہ راستوں سے آنے والی رقوم کا کھوج لگا سکیں اور یہ بھی دیکھیں کہ ان کا دہشت گردی' منظم جرائم' بین الاقوامی منشیات کی تجارت اور منی لانڈرنگ سے کوئی تعلق تو نہیں کیونکہ9/11 کے بعد امریکا میں یہ معاملہ بے حد حساس حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ ستمبر 2001 میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے متفقہ طور پر قرارداد نمبر 1373 کی منظوری دی جس میں انسداد دہشت گردی اور دہشت گردی کے لیے رقم کے استعمال پر بین الاقوامی طور پر پابندی لگا دی گئی۔
شہادت کے درست ہونے کے بارے میں ہمارے زیادہ تر مسائل کی وجہ یہ ہے کہ گواہ بڑی آسانی سے دروغ گوئی سے کام لے لیتا ہے خواہ اس نے سچ بولنے کا حلف ہی کیوں نہ اٹھا رکھا ہو۔ دستاویزات میں من مانی جعل سازیاں کی جاتی ہیں اور اپنی مرضی کے حلفی بیان حاصل کر لیے جاتے ہیں۔
حقائق کو مسخ کر کے بیان کیا جاتا ہے جو روز مرہ کا معمول بن چکا ہے۔ اس حوالے سے یہ بات بھی ضروری ہے کہ وکلا حضرات کو کوئی مقدمہ پکڑنے سے پہلے اس بات کا مکمل اطمینان کرنا چاہیے کہ وہ اپنے موکل کی طرف سے پیش کی جانے والی جھوٹی شہادت کو ہر گز قبول نہیں کریں گے اور اس بات کی تسلی کر لیں گے کہ ان کو فیس کے طور پر دی جانے والی رقم کہیں رشوت یا فراڈ کے ذریعے تو حاصل نہیں کی گئی۔ وکلاء حضرات کو باقاعدہ خبردار کیا جائے کہ اگر وہ ان باتوں کا خیال نہیں رکھیں گے تو ان کو بھی بلیک لسٹ کر دیا جائے گا۔
عالمی تنظیمیں جیسے کہ اقوام متحدہ کا آفس آف انٹرنل اوورسائٹ سروسز (او آئی او ایس) جو سیکریٹری جنرل کی تحقیقی سرگرمیوں میں ان کی آڈٹ' تفتیش کا آفس آف آڈٹ اینڈ انویسٹی گیشن (او اے آئی) مناسب کارروائی کے لیے شواہد اور ثبوت کی بنیاد پر اکٹھے کیے جاتے ہیں جن کا نہایت باریک بینی سے تجزیہ کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں کھلی کرپشن کے باوجود ملزم چھوٹ جاتے ہیں۔بجائے اس کے کہ ان کے خلاف احتساب کی کارروائی عمل میں لائی جائے ان کے باس الٹا ان کی حمایت کر کے ان کے جرائم پر پردہ ڈال دیتے ہیں۔
پاکستان میں منی لانڈرنگ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے کیونکہ اس کو روکنے کے لیے جو قوانین بنائے گئے ہیں ان کا درست طریقے سے اطلاق ہی نہیں کیا جاتا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان اب بائیو میٹرک الیکٹرونکس کے استعمال سے ان بے قاعدگیوں کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہاں یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ اس قسم کے جرائم کو عدالت میں ثابت کرنا بسا اوقات تقریباً نا ممکن ہو جاتا ہے کیونکہ تحقیقات کے معاملے پر سیاسی دباؤ کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں احتساب کا عمل ابھی اتنا مضبوط نہیں ہوا کہ اس پر مکمل بھروسہ کیا جا سکے کیونکہ بدقسمتی سے سیاسی مداخلت کی وجہ سے ذمے دار لوگ اپنا بچاؤ کر لیتے ہیں۔ جمہوریت مجرموں کے لیے ڈھال کا کام کرتی ہے۔
اس ضمن میں اسے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹوں کی خدمات حاصل ہوتی ہیں جو ان کی غیر قانونی دولت اور بیرونی ممالک کے اکاؤنٹنٹس چھپا دیتے ہیں جب کہ پاکستان کے بہادر فوجی شوال کے پہاڑوں' فاٹا اور سوات وغیرہ میں ملک کے دفاع کے لیے اپنی قیمتی جانوں کے نذرانے پیش کرتے ہیں۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ جو لوگ ان فوجیوں کو مادر وطن کے لیے شہادت کا درجہ حاصل کرنے کا حکم دیتے ہیں وہ خود ملک کو لوٹنے والوں کو آئین کی حفاظت کے نام پر سلیوٹ مارتے ہیں۔ وزیراعظم کے لندن کے دورے کے بارے میں عوام کا خیال یہ ہے کہ وہ اپنے طبی معائنے کے لیے نہیں گئے بلکہ پانامہ لیکس کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کے لیے گئے ہیں۔ جب کہ اندرون ملک انھوں نے تحقیقات کے لیے ایک جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔