کسی چمن میں رہو تم…

ان دنوں کراچی میں پہلے ایک ہی فلم اسٹوڈیو ایسٹرن اسٹوڈیو تھا


یونس ہمدم April 16, 2016
[email protected]

ان دنوں کراچی میں پہلے ایک ہی فلم اسٹوڈیو ایسٹرن اسٹوڈیو تھا ، جس کے روح رواں سعید ہارون تھے پھرکچھ عرصے بعد ماڈرن اسٹوڈیو کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ ایسٹرن اسٹوڈیو میں فلموں کی وجہ سے دن اور رات روزانہ رونقیں لگی رہتی تھیں۔

ایسٹرن فلم اسٹوڈیو میں فلمساز فرید احمد اور ہدایت کار الحامد نے اپنی فلم ''آنچل'' بنانے کا اعلان کیا تھا اور جس کی تیاریاں زوروشور سے جاری تھیں، مشہور رائٹر اور نامورکالم نگار ابراہیم جلیس فلم ''آنچل'' کا اسکرپٹ لکھ رہے تھے۔ موسیقار خلیل احمد جو ان دنوں کراچی ریڈیو اسٹیشن سے وابستہ تھے، ان کو فلم کا موسیقار منتخب کیا گیا تھا، خلیل احمد ریڈیو کے موسیقی کے پروگرام کیا کرتے تھے ان کی حمایت علی شاعر سے بڑی گہری دوستی تھی اور پھر وہ دونوں ہی حیدرآباد دکن سے تعلق رکھتے تھے۔

موسیقار خلیل احمد نے لاہور سے آئے ہوئے مشہورگلوکار سلیم رضا کی آواز سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حمایت علی شاعر کی مقبول نظم ''ان کہی '' تجھ کو معلوم نہیں تجھ کو بھلا معلوم۔ سلیم رضا کی خوبصورت آواز میں ریکارڈ کی اور جب وہ ریڈیو سے نشر ہوئی تو سامعین کی توجہ کا مرکز بنتی چلی گئی۔ موسیقار خلیل احمد اور ابراہیم جلیس نے وہ نظم ہدایت کار الحامد کو سنائی پھر فلمساز فرید احمد نے بھی وہ نظم سنی اور دونوں کو یہ نظم بہت ہی پسند آئی۔ اور پھر اس وقت یہ فیصلہ کیا گیا کہ حمایت علی شاعر کی اس نظم کو فلم ''آنچل'' میں شامل کرلیتے ہیں۔ یہاں ابراہیم جلیس کہنے لگے اگر میری بات مانو تو فلم ''آنچل'' کے سارے گیتوں کی ذمے داری بھی حمایت علی شاعر پر ڈال دو، شاعر کو میں راضی کرلوں گا۔

حمایت علی شاعر کے لکھے ہوئے گیتوں سے فلم ''آنچل'' کو ایک نامور شاعر مل جائے گا۔ فلمساز فرید احمد اور ہدایت کار الحامد نے ابراہیم جلیس کی رائے سے مکمل اتفاق کیا اور اس طرح حیدرآباد سے حمایت علی شاعر کو فلم ''آنچل'' کے گیتوں کے لیے کراچی بلایا گیا یوں حمایت علی شاعر علم کی دنیا سے فلم کی دنیا میں بھی آگئے۔ ان کی نظم ''ان کہی'' کے بعد ان کا لکھا ہوا دوسرا گیت احمد رشدی کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا۔ جس کے بول تھے:

کسی چمن میں رہو تم بہار بن کے رہو
خدا کرے کسی دل کا قرار بن کے رہو

اس فلم میں شمیم آرا اور کمال نے مرکزی کردار ادا کیے تھے پھر یکے بعد دیگرے فلم کے سارے گیت لکھے گئے، احمد رشدی کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا گیت فلم کی ریلیز سے پہلے ہی ہٹ ہوگیا تھا اور روزانہ ریڈیو سے نشر ہوتا تھا۔

اس گیت کے بعد آئرین پروین اورکورس کی آوازوں میں ریکارڈ کیا گیا گیت ''بھولی دلہنیا کا جیا گھبرائے'' بھی ریڈیو سے کافی مقبول ہوچکا تھا۔ جب فلم ریلیز کے لیے پیش ہوئی تو اس کی کامیابی میں حمایت علی شاعر کے لکھے ہوئے گیتوں کو بھی بڑا دخل تھا اور احمد رشدی کے گائے ہوئے گیت کسی چمن میں رہو تم بہار بن کے رہو کو شاعری کے اعتبار سے بہترین قرار دیا گیا اور اس گیت پر حمایت علی شاعر کو بہترین نغمہ نگار کی حیثیت سے نگار فلم ایوارڈ سے نوازا گیا اور اس طرح 1962 میں نمائش پذیر ہونے والی اس فلم کی کامیابی نے حمایت علی شاعر کے لیے لاہور کی فلم انڈسٹری کے بھی دروازے کھول دیے تھے بلکہ اسی دوران کراچی کی دو اور فلموں ''دل نے تجھے مان لیا'' اور ''جب سے دیکھا ہے تمہیں'' کے گیت لکھنے کے بعد حمایت علی شاعر بھی لاہور کی فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوگئے تھے۔

وہاں انھوں نے پہلے فلم ''اک تیرا سہارا'' کے لیے گیت لکھے اور پھر ہدایت کار قدیر غوری نے اپنی فلم ''دامن'' کے لیے ان سے گیت لکھوائے اور صحیح معنوں میں لاہور میں ''دامن'' کے ایک گیت جو میڈم نور جہاں نے گایا تھا اور جس کے بول تھے:

نہ چھڑا سکو گے دامن' نہ نظر بچا سکو گے
جو میں دل کی بات کہہ دوں تو کہیں نہ جا سکو گے

اس گیت کی مقبولیت نے لاہور کی فلمی دنیا میں حمایت علی شاعر کی دھوم مچا دی تھی۔ اس گیت پر ایک بار پھر حمایت علی شاعر کو بہترین گیت نگار کے ایوارڈ کا حق دار قرار دیا گیا تھا اور یہ گیت اداکارہ صبیحہ خانم پر عکس بند کیا گیا تھا۔ صبیحہ کی خوبصورت اداکاری اور دلنشیں اداؤں نے اس گیت کے حسن میں چار چاند لگا دیے تھے اور حمایت علی شاعر کو پھر لاہور کے فلمسازوں نے واپس کراچی نہیں جانے دیا۔ فلم ''دامن'' 1963 کی فلم تھی اور ''آنچل'' 1962 کی۔ اس طرح مسلسل دو سال تک حمایت علی شاعر کو بہترین گیت نگار کے ایوارڈز ملتے رہے اور یہ بھی معروف ترین گیت نگاروں میں شامل ہوگئے۔ ایک فلم ''خاموش رہو'' کے نام سے بنی ، اسی فلم میں حمایت علی شاعرکا لکھا ہوا ایک گیت جو گلوکارہ مالا نے گایا تھا بڑا مقبول ہوا تھا جس کے بول تھے:

میں نے تو پریت نبھائی سانوریا رے
نکلا تو ہرجائی

فلم ''نائلہ'' جو پاکستان کی پہلی رنگین فلم تھی اس میں قتیل شفائی کے ساتھ حمایت علی شاعر نے بھی ایک گیت لکھا تھا جو ایک ڈوئیٹ کی صورت میں تھا جسے مسعود رانا اور مالا نے گایا تھا
جس کے بول تھے:
دور ویرانے میں اک شمع ہے روشن کب سے
کوئی پروانہ اِدھر آئے تو کچھ بات بنے

اور فلم ''بدنام'' میں بھی حمایت علی شاعر نے ایک ہی گیت لکھا تھا جس کے بول تھے:
ہم بھی مسافر تم بھی مسافر کون کسی کا ہوئے
کاہے چپ چپ روئے

فلم کے بقیہ گیت مسرور انور نے لکھے تھے۔ حمایت علی شاعر کے لکھے ہوئے گیت کو موسیقار دیبو بھٹا چاریہ کی موسیقی میں مسعود رانا نے گایا تھا۔ بات گلوکار مسعود رانا کی آئی ہے تو میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ فلم ''مجاہد'' میں مسعود رانا کی آواز میں حمایت علی شاعر کا ایک رزمیہ گیت جس کے بول تھے:

ساتھیو...مجاہدو! جاگ اٹھا ہے سارا وطن

سارے ملک میں پسندیدگی کی سند بن گیا تھا اور یہ بھی ایک عجیب اتفاق تھا کہ فلم ''مجاہد'' جو 3 ستمبر کو ریلیز ہوئی اور 6 ستمبر 1965 میں ہند و پاک کی جنگ شروع ہوگئی تھی اور حمایت علی شاعر کے اس نغمے نے ہر دل میں حب الوطنی کی آگ روشن کردی تھی اور یہ نغمہ ایک جنگی نغمہ بن کر ہر پیر و جواں اور ہر فوجی کے دل کو گرما رہا تھا۔ جوش ایمانی سے لبریز اس نغمے کا کریڈٹ حمایت علی شاعرکی شاعری کو جاتا ہے جب کہ مسعود رانا کی آواز اور خلیل احمد کی موسیقی نے بھی اپنا رنگ خوب جمایا تھا۔ حمایت علی شاعر نے بے شمار فلموں کے لیے گیت لکھے اور ان کے لکھے ہوئے گیتوں نے بڑی دھوم مچائی تھی۔

ان میں فلم کنیز، میرے محبوب، تصویر، نائلہ، میں وہ نہیں، خاموش رہو اور دامن نے باکس آفس پر بھی بڑی کامیابی حاصل کی تھی۔ اسی دوران حمایت علی شاعر نے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے فلمسازی کے میدان میں بھی قدم رکھ دیا تھا اور اپنی ذاتی فلم ''لوری'' کا آغاز کردیا گیا تھا۔''لوری'' کے ہدایت کار ایس سلیمان تھے اور محمدعلی، زیبا مرکزی کرداروں میں تھے۔ حمایت علی شاعرکی شاعری کا معیار بھی بہت بلند تھا۔خاص طور پر مہدی حسن کی گائی ہوئی ایک غزل بہت مقبول ہوئی تھی۔ جس کا مطلع تھا:

خداوندا یہ کیسی آگ سی جلتی ہے سینے میں
تمنا جو نہ پوری ہو وہ کیوں پلتی ہے سینے میں

فلم ''لوری'' سپرہٹ ہوئی تھی مگر حمایت علی شاعر اپنی دوسری فلم ''گڑیا'' میں پھنس گئے تھے اور مالی طور پر بہت زیادہ پریشان ہوگئے تھے فلم ''گڑیا'' میں بھی زیبا اور محمدعلی مرکزی کرداروں میں تھے مگر حمایت علی شاعر دونوں کی طرف سے بڑے دل برداشتہ ہوگئے تھے اور پھر نہ صرف لاہور بلکہ فلم لائن ہی چھوڑکر انھوں نے دوبارہ سے کراچی میں آکر شعر و سخن سے اپنا رشتہ جوڑ لیا تھا۔

میری یہ خوش قسمتی تھی کہ میں طالب علمی کے زمانے میں جس شاعر کا بڑا مداح اور پرستار تھا پھر ایک وقت آیا کہ لاہور میں انھی کے ہم عصر فلمی گیت نگاروں میں بھی شامل ہوگیا تھا۔ آج کل حمایت علی شاعر اپنے صاحبزادوں روشن خیال اور بلند اقبال کے ساتھ کینیڈا میں قیام پذیر ہیں۔ ہمارے ہونٹوں پر مشفق اور مربّی حمایت علی شاعر کے لیے بس یہی دعا ہے:

کسی چمن میں رہو تم بہار بن کے رہو

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔