خواتین کا جزیرہ

ایسٹونیا کا جزیرہ ’کہنو‘ جہاں سارا نظام زندگی خواتین کے ہاتھ میں ہے


ایسٹونیا کا جزیرہ ’کہنو‘ جہاں سارا نظام زندگی خواتین کے ہاتھ میں ہے ۔ فوٹو : فائل

KARACHI: آپ ایک ایسے جزیرے کا تصور کریں جہاں آپ کو ہرطرف صرف خواتین ہی نظر آئیں یا پھر کچھ بچے، آپ کو وہاں مہینوں تک مردوں کا نام ونشان نہ ملے۔ اس عجیب وغریب جزیرے کو دیکھنے والوں کا تانتا بندھ رہاہے۔ جی ہاں! یہ 'کہنو'ہے، اسٹونیا کا ایک چھوٹا جزیرہ جو بحیرہ بالٹیک میں واقع ہے، یہ خلیج ریگا کا سب سے بڑا اور ایسٹونیا کا سترھواں سب سے بڑا جزیرہ ہے۔

اس کی لمبائی سات کلومیٹر اور چوڑائی3.3 کلومیٹر ہے۔ سن2013ء کی مردم شماری کے مطابق یہاں کے باسیوں کی تعداد محض490 ہے، اس چھوٹے سے سماج کی باگ ڈور خواتین کے ہاتھ میں ہے۔ یہ دنیا کے ان چندآخری معاشروں میں سے ایک ہے جہاں زمام کار خواتین کے پاس ہے۔ یہاں کے مرد مچھلیاں پکڑتے ہیں، وہ مہینوں تک سمندر ہی میں رہتے ہیں۔ پیچھے ان کی بیویاں ہوتی ہیں اور بچے۔ ان کی موجودگی میں پورے جزیرے کے معاملات یہ خواتین جزیرے کی مخصوص روایات کے مطابق ہی چلاتی ہیں۔اس اعتبار سے اس کلچر کو محفوظ رکھنے میں ان خواتین کا کردار کلیدی ہے۔ یہ خواتین بڑے فخر سے یہاں کا روایتی لباس پہنتی ہیں۔خواتین ماں نانی سے سیکھی ہوئی دستکاری کے فن کو آگے بڑھارہی ہیں۔

یہاں کے لوگ زیادہ تر ایک کمیونٹی سنٹر میں جمع ہوتے ہیں، یہی اس جزیرے کا عجائب گھرہے، یہاں رقص ہوتاہے اور روایتی گانے گائے جاتے ہیں۔ سن 2013ء میں 'کہنو' کے کلچر کو اقوام متحدہ کے ادارے 'یونیسکو' نے 'شاہکار' کے طورپر اپنی فہرست میں شامل کرلیا۔

اس جزیرے کی حکمران 'میری میٹس' ہیں۔ وہ اپنے چاربچوں کے ساتھ یہاں رہتی ہیں۔ ان کے شوہر بھی سمندر ہی میں رہتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ''ہم مضبوط جڑیں اور شناخت رکھنے والی قوم ہیں۔ میں نے بھی شعوری اور غیرشعوری طور پر وہ سب کچھ سیکھا جو یہاں کی ثقافت کا حصہ تھا۔ زبان، روایتی ملبوسات، فارمنگ ، کاشت کاری، دستکاری کی صلاحیت، روایتی کھانوں کی تیاری کا فن، عقائد کی تعلیم، مذہبی زندگی اور گانا بجانا۔ شادیوں کا رقص اور دیہاتی پارٹیاں۔ میں سمندر کے بارے میں بھی بہت کچھ جانتی ہوں، ماہی گیری اور سیل کے شکار کا فن بھی جانتی ہوں۔ میراعلم یہاں تک محدود نہیں ہے بلکہ میں جزیرے کے سکول میں تاریخ کی معلمہ ہوں۔ اسی طرح میں'کہنو'کے کلچرل سپیس فاؤنڈیشن میں بھی گزشتہ دس برس سے کام کررہی ہوں''۔

میری میٹس کہتی ہیں:''میں اپنے نظریات میں قدامت پسند ہوں۔ میں سمجھتی ہوں کہ ہمیں اپنے قدیم علوم کی حفاظت کرنی چاہئے۔ خدا ہی جانتاہے کہ ان کی ہمیں کب ضرورت پڑے گی۔ ہم میں سے ہرایک کوتمام علوم اور صلاحیتیں حاصل کرنی چاہئے،جن کی زندگی گزارنے میں ضرورت ہوتی ہے۔ اپنے لئے خوراک اگانا، اپنے لئے ملبوسات کے لئے تیاری حتیٰ کہ مکانات کی تعمیر بھی۔

ماحول اور اس کی علامتوں کا علم بھی اہم ہوتاہے۔ اسی طرح روایتی تعطیلات کیسے منائی جاتی ہیں، اس کا بھی ایک مخصوص علم ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ہمیں اس دن کے لئے تیار رہناچاہئے جب بجلی نہیں ہوگی، انٹرنیٹ نہیں ہوگا اور تیل جیسے ایندھن کے ذرائع بھی ختم ہوچکے ہوں گے۔ میں چاہتی ہوں کہ صرف میرے بچے ہی نہیں بلکہ ایسٹونیا کی ساری قوم بھی اس دن کے لئے تیار رہے''۔ میری میٹس اب تک درجنوں فلمیں ،فوٹو فیچرز، اخبارات اور میگزینز کے لئے مضامین لکھ کے شائع کراچکی ہیں۔

کہنو کا لائٹ ہاؤس موسم گرما میں اس جزیرے کا رخ کرنے والے سیاحوں کے لئے رہنمائی کی واحد علامت ہے۔ جب یہاںکے سمندرمیں برف جم جاتی ہے تو پھرکہیں سے بھی اس جزیرے تک رسائی ممکن نہیں ہوتی۔

اس جزیرے کے کسی ایک گھرانے کا دورہ کرنے کے 60 یورو اداکرنا پڑتے ہیں، اگر آپ وہاں ایک سے زائد گھنٹے گزاریں گے تو پہلے ایک گھنٹے کے بعد ہراضافی گھنٹے پر 30یورو اداکرنا ہوں گے۔ اگرآپ جزیرے کی سیر سائیکل پر کرناچاہیں تو آپ کو 20 یورو فی گھنٹہ کے حساب سے سائیکل دستیاب ہوگی۔ اسی طرح کار بھی 20 یورو فی گھنٹہ کے حساب سے دستیاب ہوتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں