فاٹا میں تعلیمی سہولیات ۔۔ایک نئے سفر کا آغاز

ان علاقوں میں قائم تعلیمی اداروں میں ناکافی سہولیات کا ہونا بھی ایک حقیقت ہے


امجد عزیز ملک April 18, 2016

تعلیم زینہ ہے ترقی کا ، تعلیم وسیلہ ہے تبدیلی کا ،تعلیم ذریعہ ہے باوقار معاشرتی زندگی بسر کرنے کا،یقیناً ڈپلومے، اسناد ، ڈگریاں وغیرہ تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہونے والے طلباء و طالبات کے تعلیمی معیار کے تعین کے لیے ایک پیمانہ کے طور پر دی جاتی ہیںاور یہ ایک تاریخی تسلسل کی امین روایت بھی ہے لیکن یہ حقیقت بھی مسلمہ ہے کہ ہر وہ فرد جو کائنات میں قدرت اور انسان کی وضع کردہ تخلیقات کو جانچنے، پرکھنے اور استعمال کرنے کی صلاحیت کا حامل ہے،تعلیم یافتہ کہلانے کا مستحق ہوسکتا ہے،صوبہ خیبر پختون خوا سے متصل قبائلی علاقہ جات ، مختلف نوعیت کے قوانین کے زیر اثر رہنے اور بعض تاریخی حقائق کی بنا پر ہمیشہ سے ہی اندرون ہی نہیں بلکہ بیرون ملک بھی پرتجسس ماحول کے حامل رہے ہیں۔

ان علاقوں میں قائم تعلیمی اداروں میں ناکافی سہولیات کا ہونا بھی ایک حقیقت ہے جب کہ ترقیاتی منصوبوں پر عمل درآمد کا انداز بھی قبائلی مشران کی مرضی کے تابع تھا،یہ صورت حال یقیناً تنقید کا نشانہ بھی بنتی رہی اور بعض انتظامی کمزوریوں کے ساتھ جاری بھی رہی،وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فاٹا کے لیے مختص کیے جانے والے بجٹ میں بھی اضافہ ہوتا گیا اور قومی تعمیر نو کے محکموں کی استعداد کار کو بھی ترقی اور استحکام ملنے لگا ،موجودہ صدی کے آغاز پر گو کہ خاطر خواہ حد تک اس ضمن میں پیش رفت ہوئی ، لیکن اس کا تناسب ہر لحاظ سے، ملک کے دیگر حصوں کے مقابلے میں کافی کم تھا، وطن عزیز کو جب انتہا پسندی اور دھشت گردی کے عفریت کا سامنا ہوا تو وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات اس جنگ کے دوران صف اول میں آگئے، نتیجہ یہ نکلا کہ پچھلی چند دہائیوں کے دوران تعلیم ، صحت، غرض زندگی کے ہر میدان میں جو پیش رفت ممکن ہوئی تھی۔

اس کی رفتار نہ صرف بری طرح متاثر ہوئی بلکہ پہلے سے قائم شدہ اداروں کی ایک بڑی تعداد یا تو مکمل طور پر تباہ کر دی گئی یا اس قدر متاثر ہوئی کہ استعمال کے قابل ہی نہ رہی،اگر کہیں پر تعلیمی اداروں کو نقصان نہیں بھی پہنچا تب بھی نقل مکانی اور امن و امان کے اعتبار سے نا موافق صورت حال کی بنا پر نہ تو اساتذہ کے لیے فرائض انجام دینا ممکن رہا اور نہ ہی بچوں کے لیے حصول علم کے لیے درس گاہوں کا رخ کرنا ممکن ہوا،دل چسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ بعض علاقے ایسے بھی ہیں جو برسوں تک براہ راست جنگ کا شکار رہے، لیکن وہاں تعلیمی اداروں کی عمارات کو نقصان نہیں پہنچایا گیا۔بہ امر مجبوری بعض علاقوں میں اسکولوں کو بند بھی کیا گیا ہوگا لیکن ایسے بھی علاقے تھے۔

جہاں امن کے زمانے میںدرس و تدریس کی راہ میں یقیناً رکاوٹ بھی نہیں ڈالی گئی ہو گی،گو کہ نقل مکانی کرنے والے قبائل کے بچوں کے لیے کیمپوں میں اسکولوں کا انتظام کیا گیا تھا، لیکن اس نو ع کی صورت حال ایک تو بحیثیت مجموعی ضروریات کے تناسب سے یقیناً کم ہو گی اور دوسرے ان سے استفادہ کرنے والے طلباء وطالبات کی تعداد بھی آٹے میں نمک کے برابر تھی،چنانچہ حکومت نے خیبر پختون خوا کے ساتھ ساتھ ملک کے دیگر حصوں کے تعلیمی اداروں میں بھی قبائلی علاقہ جات سے نقل مکانی کرنے والے بچوں کے لیے داخلوں کو ممکن بنایا اور ان کوششوں کے بہت اچھے نتائج بھی برآمد ہوئے لیکن اس حقیقت میں بھی کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ بڑی تعداد میں بچے تعلیمی اداروں میں کئی برس تک داخل ہو نے سے بھی محروم رہ گئے ہوں گے۔

اب جب کہ قبائلی علاقہ جات میں حکومتی عمل داری کی بحالی کی اطلاعات ہیں، یقیناً نقل مکانی کرنے والے قبائل کی اپنے علاقوں کو مکمل واپسی کا سلسلہ بھی اپنے آخری مراحل میں داخل ہو گا،دعویٰ تو یہ کیا جا رہا ہے کہ امسال دسمبر تک اپنے آبائی علاقوں کو واپسی کے خواہش مند تمام قبائل کو ان کی تمنا پوری کرنے کے مواقع فراہم کر دیے جائیں گے۔حالات کے تناظر میں گورنر خیبر پختون خوا اقبال ظفر جھگڑا کی جانب سے تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان ایک خوش آیند پیش رفت ہے، دعویٰ تو یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ سو فی صد بچوں کا اسکولوں میں داخلہ یقینی بنایا جائے گا،تعلیمی سہولیات کو معیاری بنایا جائے گا، درسی کتب کی بروقت اور مفت فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔

ہر تعلیمی ادارے میں اسپیشلسٹ اساتذہ کی بتدریج تقرری یقینی بنائی جائے گی،تاہم اس حکمت عملی میں جو نئی بات سامنے آئی ہے، وہ تعلیمی اداروں کے بجٹ اور سہولیات کو ان میںزیر تعلیم طلباء و طالبات کی تعداد سے مشروط کرنے کے حوالے سے ہے۔یہی نہیں بلکہ عملے کی حاضری یقینی بنانے اورچیک کرنے کے لیے جدید اور مربوط نظام وضع کرنے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔یہ امر بھی شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ فاٹا تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہے، ایک جانب سماجی ، معاشی و سیاسی میدانوں میں عوام کے ذہنوں میں نئی سوچ و فکر پروان چڑھ رہی ہے تو دوسری طرف حکومت علاقے کی آئینی اور انتظامی حیثیت کے بارے میں متفکر ہے۔بہر طور چند دہائیاں قبل کے مقابلے میں آج حالات تو مختلف ہیں ہی، چند برس قبل کے مقابلے میں بھی صورت حال کافی بدل چکی ہے۔

انتظامی امور کا تسلسل تو متاثر ہو ہی چکا، سیاسی لحاظ سے بھی عوام کی سوچ و فکر میں تبدیلی کو ایک نقطے پر مرتکز تصور کرنے کی سوچ بھی یقیناً بدل چکی ہے ۔روائتی قبائلی معاشرے کے ماحول میں پروان چڑھنے والے بچوں اور ان کے بزرگوں کی طرف سے تعلیمی اداروں میں حالات کی تبدیلی کو سنجیدگی کے ساتھ محسوس کرنا ایک فطرتی عمل ہو گا۔البتہ گورنر کی براہ راست نگرانی اور سرپرستی میں اٹھائے جانے والے اقدامات کے اثرات کس حد تک سنجیدہ ثابت ہوں گے، وقت ہی بتائے گا۔مقاصد کے حصول کا ایک بنیادی قدم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اساتذہ کی استعداد کار میں اضافہ کرنے کے لیے بھی مختصر اور طویل دورانیہ کے کورسز شروع کیے جائیں، شخصیت سازی بہرطور خصوصی توجہ کی مستحق ہوگی۔ اساتذہ کے مرتبے ، شخصی احترام، نظم و ضبط کو بھی اہمیت ملنے سے نظام تعلیم بہتر سمت میں گامزن ہو گا، یہ توقع رکھنا کہ تبدیلی کے تمام مراحل سہل ثابت ہوں گے عقلی دلیل کے لیے عبث ہو گا۔لہذا آج کے زیر تعلیم بچوں کو مستقبل کا وژن ملنے کی بدولت آیندہ ایک دو دہائیوں کے دوران بہتر اثرات مرتب ہوں گے۔مشکلات سے بچنے کی بجائے ان کا سامنا کرنے اور عبور کرنے کے تسلسل کو جاری رہنے کے اچھے اثرات ہو سکتے ہیں۔

پانچویں اور آٹھویں کلاسز کے ایکسٹرنل امتحانات کے انعقاد کا وعدہ کیا گیا ہے لیکن سر دست یہ نہیں بتایا گیا کہ اس کی نوعیت کیا ہوگی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ فاٹا میں قائم بعض سرکاری تعلیمی ادارے اوران میں زیر تعلیم بچے ملک کے دیگرحصوں میں قائم اپنے ہم عصر اداروں اور ان سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبا ء وطالبات سے کم بھی نہیں رہے اور اب بھی ایسا ممکن ہو سکتا ہے۔انفرادی سطح پر تعلیمی مقابلے کی فضا کو بہتر خطوط پر استوار کرنے کے لیے اگر اساتذہ کی بھرتی کے ساتھ ساتھ، این۔ ٹی۔ ایس کا طریقہ امتحانات ،تعلیمی اداروں کی کارکردگی جانچنے کے لیے طلباء و طالبات کے لیے بھی متعارف کرایا جائے تو یہ بہت آسان لیکن بڑی تبدیلی ہو گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں