تقریر و خطابت کا فن
تقریروخطابت کا فن زندہ معاشروں میں نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے
FAISALABAD:
تقریروخطابت کا فن زندہ معاشروں میں نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اس کے ذریعے جہاں ایک انسان کی صلاحیتوں کا پتہ چلتا ہے وہاں یہ اندازہ بھی ہو جاتا ہے کہ اس معاشرے کے نظریات و افکار کیا ہیں اور اس معاشرے کی سوچ کا رخ کیا ہے۔ تقریرو خطابت کا فن خداداد ہوتا ہے۔ ایک اچھا مقرر اپنے زمانہ طالب علمی میں ہی اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیتا ہے۔ مولانا محمد علی جوہر ہوں یا قائداعظم' یہ عظیم شخصیات زمانہ طالب علمی سے ہی تحریرو تقریر میں نمایاں رہے ہیں۔ پاکستان میں بھی یہ فن ایک عرصے تک تعلیمی اداروں کی جان اور شان رہا ہے لیکن اب صورتحال بدل چکی ہے، جس کی مختلف وجوہات ہیں جس کے بارے میں شعبہ ابلاغ عامہ کے سابق صدر اور استاد ڈاکٹر محمود غزنوی کی رائے بڑی اہم اور معتبر لگتی ہے، انھوں نے اپنی حالیہ تصنیف '' تقریر و خطابت کا فن'' میں اس کا ذکر کچھ یوں کیا ہے،
'' گزشتہ 25برسوں کے تجربات کا نتیجہ یہ نکلا کہ ''فن تقریر'' نہ صرف زوال پذیر ہے بلکہ اب یہ اپنی نچلی سطح تک پہنچ چکا ہے۔ اس کے زوال کا سبب طلبا یونین پر پابندی بنی۔ طلبہ یونین کا مرکزی پروگرام مباحثے کا انعقاد تھا۔ یونین ختم ہونے سے جامعات اور کالجوں میں مباحثے اور سالانہ میگزین کی روایت ختم ہوگئی۔ یہ دونوں پلیٹ فارم طالب علموں کے بولنے اور لکھنے کی تربیت کا ذریعہ تھے۔ رفتہ رفتہ تربیت یافتہ مقررین کم ہوتے گئے اور صرف بولنے والے رہ گئے وہ بھی زبان و اظہار کی صلاحیت سے نا آشنا۔ لکھنے والے نوجوان تو جیسے پیدا ہی ہونا بند ہوگئے۔
مباحثہ شہر اور ملکی سطح پر چند بڑے تعلیمی اداروں تک محدود ہوکر رہ گیا ہے وہ بھی جب تک ہے جب تک ان اداروں میں تقریرکے فن اور اہمیت کو سمجھنے والے اساتذہ موجود ہیں۔ تعلیمی اور غیر نصابی سرگرمیوں کے کلچر سے آشنائی رکھنے والے یہ گنے چنے افراد بھی اپنی مدت ملازمت پوری کرکے رخصت ہونے والے ہیں۔ آنے والی نسل مباحثوں، مشاعروں، محاکموں، علمی و ادبی محافل کے بارے میں صرف کتابوں میں درج تذکروں اور تبصروں پر ہی گزارا کرے گی۔ ماضی میں ہمارے تعلیمی اداروں میں تقریری معقابلے ہوتے تھے' طلبہ ان مقابلوں میں حصہ لینے کیلئے تیاری کرتے تھے۔ شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر تقریر کرتے تھے تا کہ انھیں پتہ چل سکے کہ ان کا انداز کیسا ہے۔
طلباء تقریر کرنے سے پہلے زبان و بیان کو بہتر کرنے کیلئے پریکٹس کرتے تھے۔ اگر تقریر اردو میں کرنی ہے تو لفظ کی صحیح تلفظ کے ساتھ ادائیگی انتہائی ضروری ہوتی ہے۔ اسی طرح اگر انگریزی میں تقریر کرنی ہے تو انگریزی کا لب و لہجہ ضروری ہوتا ہے۔ طلباء یونینز بھی فن تقریر کو جلا بخشنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ جب طلباء یونینز بحال تھیں تو کئی طالب علم لیڈر عملی سیاست میں آئے اور اپنی خطابت کے جوہر دکھاتے رہے لیکن اب صورتحال بہت مختلف ہو گئی ہے۔تعلیمی اداروں میں علمی زوال بھی ہے جس کی وجہ سے فن خطابت تقریباً ختم ہوتا جارہا ہے۔
گزشتہ 30برسوں میں ایک نسل پیدا ہوکر نرسری سے ماسٹر تک کی تعلیم حاصل کرکے عملی زندگی میں داخل ہوگئی لیکن اسے تعلیمی اداروں میں یونین کے کردار کے بارے میں کوئی واقفیت نہیں ہوسکی۔ اس کی بنیادی وجہ ہماری حکومتی پالیسیاں رہی ہیں۔ ہر حکومت نے طلباء یونینز کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا یا پھر ان پر پابندی عائد کئے رکھی۔ اساتذہ کی دلچسپی بھی کم ہو گئی۔
یونیورسٹیوں میں تقریری مقابلے کم ہونے لگے۔ بزم ادب کی سرگرمیاں بھی کم ہوتی چلی گئیں۔ یوں طلباء کی دلچسپی بھی کم ہو گئی اور ان کی سرپرستی کرنے والے کم پڑتے چلے گئے۔ مباحثے اور مکالمے کی روایت ختم ہونے سے ہمارے سماج پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ نوجوان نسل سے اچھے مقرر نہیں نکل رہے۔ طلباء کی دلچسپیاں بھی منفی سرگرمیوں کی طرف منتقل ہو گئیں۔
مباحثے اور مکالمے کی روایت ختم ہونے کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب جو تقریری مقابلے ہوتے ہیں ان میں تین چار گھنٹے جاری رہنے والے مقابلے میں دو تین اچھی تقریریں بھی سننے کو نہیں ملتیں 30-35تقریروں میں سے تین کم بری تقریروں پر انعام دینے کا فیصلہ سنانا پڑتا ہے۔ فیصلہ کرتے وقت مصنفوں کو یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ:
1)... کس تقریرکا مواد کم غیر معیاری تھا۔
2)... کس کا تلفظ کم خراب تھا۔
3)... کس کے انداز تکلم میں کم عامیانہ پن تھا۔
4)... کون اظہار وابلاغ میں کم بدسلیقہ تھا۔
جو اساتذہ تعلیمی اداروں میں تقریر سکھانے پر مامور ہیں۔ انہوں نے نہ تو خود کبھی تقریر کی اور نہ اچھی تقریر سنی۔ وہ اس فن سے ہی نابلد ہیں۔ تقریرکوئی ایک فن نہیں ہے بلکہ فنون کا مجموعہ ہے۔ دوست احباب نے بارہا اس موضوع پر لکھنے کا مشورہ دیا۔'' محمود غزنوی دور حاضر کے ذرائع ابلاغ کی '' حسن کارکردگی'' کے کردار کو اس طرح بیان کرتے ہیں۔''دوسرا سبب میڈیا کی یلغار بنا جس نے پڑھنے لکھنے کے کلچر کو شدید نقصان پہنچایا۔ نوجوانوں کو شارٹ کٹ اور راتوں رات شہرت حاصل کرنے کے خبط میں مبتلا کر کے بے ہنگم موسیقی اور بے معیار اداکاری کا رسیا بنایا۔ میڈیا نے تقریر و تحریر کی جگہ گانے بجانے کو فروغ دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دیکھتے ہی دیکھتے تعلیمی اداروں میں مباحثوں ، مشاعروں ، مکالموں کی جگہ 'میوزیکل کنسرٹ' نے لے لی۔''
صاحب کتاب کی باتیں آج کل کے طلبا اور والدین کے لیے نہایت اہمیت کی حامل ہیں کیونکہ یہ ایک جہاندیدہ شخصیت اور نامور مقرر بھی ہیں ایک زمانہ تھا کہ جب ریڈیو پاکستان میں بزم طلبہ پروگرام کے ذریعے ان کی بے پناہ شہرت تھی اور ان کا اس میڈیم اور تعلیمی اداروں میں طوطی بولتا تھا۔ حال ہی میں بحثیت استاد ان کی ملازمت سے سبکدوشی پر شعبہ ابلاغ عامہ جامعہ کراچی میں ایک تقریب منعقد ہوئی ، جس میں ان کے قریبی ساتھیوں کی زبانی یہ انکشاف بھی ہوا کہ وہ ایک درد مند انسان اور لوگوں کے لیے ایک ہمدرد دل رکھنے والے انسان بھی ہیں، چنانچہ اس تناظر میں ان کی مندرجہ بالا سطور میں باتوں غور کریں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے معاشرے خصوصاً نوجوانوں کی پستی کی حالت کا بالکل درست تجزیہ کیا ہے اور ذرائع ابلاغ کے کردار کا بھی دو ایک جملوں میں ایک اچھا 'پوسٹ مارٹم' کیا ہے، نیز یہ صداقتیں آج کے جوانوں اور ان کے والدین کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہونا چاہییں۔
یہ اس معاشرے کی بدقسمتی ہے کہ اب آنے والی نسل کے مشاغل بدل چکے ہیں موبائل فون، سوشل میڈیا اور ٹی وی نے ان سے صرف مطالعے کی عادت ہی نہیں چھینی بلکہ ایک عمدہ مشاہدے اور غوروفکر کی صلاحیت بھی ناپید کردی ہے جس کی بنا پر اب ایک بہت بڑی تعداد کو نہ زندگی کا مقصد معلوم ہوتا ہے نہ حقیقی منزل کا ، ان کے خالی ذہن صرف ان کاغذی ہیرو کو اپنا آئیڈل سمجھتی ہے اور ان سراب کو حقیقت سمجھتی ہے جو آج کا میڈیا انھیں پیش کر رہا ہے۔
اسی لیے اب تقریرو خطابت کا فن ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے کیونکہ یہ فن تو مطالعہ کے لیے وقت مانگتا ہے، مطالے کا شوق مانگتا ہے لیکن موبائل فون ہو سوشل میڈیا ہو یا ٹی وی، ان سے دوستی کرنے والوں کے پاس وقت نہیں ہوتا، مطالعہ تو دورکی بات اکثر اپنے عزیز رشتے داروں کے لیے بھی وقت نہیں ہوتا، پورا کلچر ہی تیزی سے تبدیل ہوررہا ہے، لمحہ فکریہ ہے کہ آج ہم اپنی اولادوں کو انہی اشیاء کا عادی بنا رہے ہیں اور یہی چیزیں بھی اپنے بچوں کو دے رہے ہیں حتیٰ کہ پرائمری اسکول میں پڑھنے والے بچوں کو بھی ان کا عادی بنا رہے ہیں اور اس پر فخر بھی کر رہے ہیں۔
ان چیزوں کو ہم نے ضرورت کے لیے استعمال کرنے کے بجائے مقصد حیات بنا لیا ہے ، یوں ظاہر ہے کہ جب بچوں کو کم عمری ہی سے ان مشاغل کی طرف دھکیل دیا جائے گا تو جس عمر میں انھیں مطالعہ کی عادت اپنا کر اپنے علم میں اضافہ کرنا ہوتا ہے، وہ عمر نکل جاتی ہے اور علم کی کمی رہ جاتی ہے اور جب علم کی کمی رہ جائے تو انسان باشعور بھی نہیں بن سکتا۔