دم توڑتی امیدیں

اول، جنگ کے باعث جو راشننگ کی گئی، اس کا اطلاق وزیر اعظم سمیت تمام عمال ریاست پر ہوتا ہے


Muqtida Mansoor April 21, 2016
[email protected]

KARACHI: سمجھ میں نہیں آرہا کہ اپنی بات کہاں سے شروع کروں اور کہاں ختم کروں۔ جو کچھ ہو رہا ہے، نہ اس کا پہلا سرا نظر آرہا ہے اور نہ آخری۔ کبھی ذہن کے گوشوں میں ماضی کی گم گشتہ داستانیں گردش کرنے لگ جاتی ہیں، تو آنکھوں میں کبھی دنیا کے ان اہل ثروت کی شکلیں گھوم جاتی ہیں، جنہوں نے اپنی دولت کا بیشتر حصہ انسانی فلاح کے لیے وقف کردیا ہے۔ پھر نظروں میں اپنے اہل حکم آجاتے ہیں، جن کی ہوس زر کے قصے عالمی سطح پر بھی طشت ازبام ہوچکے ہیں۔ مگر وہ شرمندگی کا اظہار کرنے کے بجائے ''چوری اور سینہ زوری'' کی عملی تفسیر بنے ہوئے ہیں اور صحت جرم سے مسلسل انکار کر رہے ہیں۔

آئیے! چند پرانے اور چند نئے قصوں سے اپنی بات کا آغاز کرتے ہیں۔ جنگ عظیم دوئم کے دوران جس صبح چرچل کو فوجی جرنیلوں اور اکابرین ریاست سے خطاب کرنا تھا، اس سے قبل شام کو وہ 10ڈاؤننگ اسٹریٹ کی سرکاری رہائش گاہ کے ڈرائینگ روم میں چہل قدمی کرتے ہوئے اپنے خیالات کو مجتمع کرنے کی کوشش میں مصروف تھا۔ قریب ہی صوفے پر اس کی بیگم اخبار بینی میں، جب کہ بیٹی کتاب کے مطالعے میں منہمک تھی۔ اچانک چرچل سوچوں کے سمندر سے باہر نکل کر اپنی بیگم سے مخاطب ہوکر کہتا ہے کہ کیا آپ مجھے اسپینش آملیٹ بنا کردے سکتی ہیں۔

جواباً بیگم فرماتی ہیں کہ کیا آپ کو نہیں معلوم کہ جنگ کی وجہ سے اشیائے خورونوش کی راشننگ ہے اور گھر کے ہر فرد کے لیے یومیہ ایک انڈا ملتا ہے۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ اسپینش آملیٹ تین انڈوں سے تیارکیا جاتا ہے۔اگر میں اپنے حصے کا انڈا بھی دیدوں تب بھی آملیٹ نہیں بن سکتا۔اس دوران ان کی بیٹی کہتی ہے کہ میرے حصے کا انڈا بھی ڈیڈی کو دیدیں۔ یوں بیگم چرچل کچن میں جا کر اسپینش آملیٹ تیار کرتی ہیں۔ جسے کھا کر چرچل ایک بار پھر سوچوں میںگم ہو جاتا ہے۔

گزشتہ روز وہ معرکہ آرا تقریر کرتا ہے، جو تاریخ کا ایک سنہری باب بن چکی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جنگ کب شروع کرنا ہے اور کب ختم ، یہ فیصلہ کرنا جرنیلوں کا نہیں، سیاسی حکومتوں کا کام ہوتا ہے۔ ان کی ذمے داری صرف جنگ کی حکمت عملی تیار کرکے اسے کامیابی سے ہمکنار کرنا ہوتا ہے۔ دوسرے وہ سوال کرتا ہے کہ آیا برطانیہ میں عدالتیں کام کررہی ہیں اور عوام کو انصاف مل رہا ہے۔ شرکا اثبات میں سر ہلاتے ہیں تو وہ کہتا ہے کہ اس ملک کو کوئی شکست نہیں دے سکتا ، جہاں عدالتیں احسن طور پر کام کررہی ہوں اور عوام کو انصاف مل رہا ہوں لیکن اس تقریر کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ مگر اس سے ایک رات قبل ہونے والا واقعہ بھی اپنے اندر کئی حقائق چھپائے ہوئے ہے۔

اول، جنگ کے باعث جو راشننگ کی گئی، اس کا اطلاق وزیر اعظم سمیت تمام عمال ریاست پر ہوتا ہے۔ دوئم، سرکاری باورچی اپنے اوقات کار کے بعد گھر چلا جاتا ہے اور پھر جو درکار ہو، خاتون اول کو خود کچن میں جاکر تیارکرنا پڑتا ہے۔ سوئم، یہ اس زمانے کی بات ہے جب برطانیہ کی سلطنت اس قدر وسیع تھی کہ اس پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ مگر وزیراعظم دو بیڈ روم کے ایک مکان میں رہتا تھا، جس کا دروازہ فٹ پاتھ پر کھلتا ہے۔ جس کے گھر میں ملازمین کی فوج ظفر موج نہ پہلے تھی اور نہ اب ہے۔

ایک ہم ہیں، جو دنیا کی مقروض ترین اقوام میں سے ایک ہیں، مگر ہمارے حکمرانوں کی شان شہنشاہی کا یہ عالم ہے کہ جب بھی ملک سے باہر جاتے ہیں، تو مصاحبین اور نورتنوں کی فوج ظفر موج ساتھ ہوتی ہے جس کا بوجھ قومی خزانہ برداشت کرتا ہے۔ ایوان صدر، ایوان وزیراعظم یا پھر صوبائی گورنروں اور وزرائے اعلیٰ کی رہائش گاہیں تو اپنی جگہ دور مغلیہ کی یاد دلاتی ہیں۔ یہاں تو ضلع کے ڈپٹی کمشنر اور سپرٹنڈنٹ پولیس بھی شاہانہ کروفر کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں، جن کی خدمت کے لیے خادمین کے دستے ہمہ وقت چوکس و چوکنا رہتے ہیں۔

ملک میں جب بھی راشننگ کی گئی تو صرف عوام کے لیے۔ خواص ہمیشہ اس سے مستثنیٰ رہے۔ جب کہ آج کے ابوالفضل، فیضی اور ملا دوپیازے صبح شام ہر چینل پر اپنے قائد کو فرشتہ سیرت ثابت کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کررہے۔ ان کی گفتگو سن کر ملا دوپیازہ بھی قبر میں کروٹیں بدل رہا ہوگا۔ ایک طرف عوام کے خون پسینے کی کمائی اور پھر ان پر قرضوں کا بوجھ لادھ کر خطیر دولت بیرون ملک منتقل کرتے ہیں اور پھر قومی خزانے سے تنخواہیں لینے والے وزرا و مشیران اور کارکنان اپنے آقاؤں کی صفائی پیش کرنے کے لیے اسی خزانے پرمزید بوجھ ڈال رہے ہوتے ہیں۔ کم از کم۔

جب حکمرانوں اور ان کی اولاد کی ہوس زرکا قصے طشت ازبام ہوتے ہیں۔ قومی خزانے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کے قصے منظرعام پر آتے ہیں، تو ذہن میں کئی سوالات ابھرتے ہیں۔ کیا یہ حکمران اتنے بے حس ہوچکے ہیں کہ یہ فراموش کربیٹھے ہیں ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہواہے۔ جس کی ادائیگی عوام اپنے خون پسینے کی کمائی سے کر رہے ہیں۔ کیا اس بات سے بے خبر ہیں کہ اسی شاخ کو کاٹ رہے ہیں، جس پر ان کا بسیرا ہے؟ کیا وہ اس حقیقت سے بے بہرہ ہیں کہ انھیں جو عزت و توقیر مل رہی ہے، وہ ملک کی بدولت ہے۔ کیا ملک کو نقصان پہنچنے کی صورت میں یہ عزت و تکریم قائم رہ سکے گی؟ کیا جس دولت کے وہ انبار لگا رہے ہیں، اسے قبر میں ساتھ لے کر جائیں گے؟

اس دنیا میں ایسے ان گنت دولت مند اور صاحب ثروت شخصیات موجود ہیں، جنہوں نے شبانہ روز محنت سے کمائی دولت کا ایک بڑا حصہ عام انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے مختص کردیا ہے۔ یہاں ہم صرف دوا شخاص کا تذکرہ کرنا چاہیں گے جو ماضی کی کوئی اساطیری شخصیات نہیں بلکہ اس صدی کی نامور ہستیاں ہیں۔

پہلی شخصیت مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس کی ہے۔ جن کے اثاثوں کی کل مالیت 79.2بلین امریکی ڈالر ہے اور وہ دنیا کے امیر ترین شخص ہیں۔ انھوں نے اپنی بیگم کے ساتھ مل کر بل گیٹس ، ملنڈا فاؤنڈیشن قائم کی ہے جو اسوقت دنیا کا سب سے بڑاخیراتی ادارہ ہے، جس کے اثاثوں کی کل مالیت 35 بلین ڈالرز ہے۔ یہ فاؤنڈیشن دنیا بھر سے غربت، جہالت اور بیماریوں کے خاتمے کے لیے سرگرم ہے۔ خاص طور پر ملیریا، چیچک اور پولیو کے خاتمے کے لیے دنیا بھر کے ممالک کو امداد دے رہی ہے جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔

دوسری شخصیت فیس بک کے بانی مارک زکربرگ کی ہے جس کی عمر صرف 32 برس ہے۔اس کے کل اثاثوں کی مالیت 46 بلین ڈالرز ہے۔ اس نے چھوٹی سی عمر میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے بے پناہ دولت کمائی۔ مگرنہ تو قارون کی طرح اپنی دولت تہہ خانوںمیں چھپایا اور نہ جدید دنیا کے بوالہوسوں کی طرح بینکوں میں محفوظ کیا بلکہ اپنی دولت کا بڑا حصہ دنیا بھر کے انسانوں کی فلاح کے لیے مختص کردیا۔ اپنی پہلی بیٹی کی پیدائش پر اس نے آمدنی کا 90فیصد حصہ خیرات کرنے کا اعلان کیا۔

یہ رقم دنیا بھر میں فروغ علم، بیماریوں سے نجات اور فکر وآگہی میں اضافے کے لیے استعمال کی جارہی ہے۔ مارک زکربرگ اور بل گیٹس دونوں نے جو رقوم عوامی فلاح کے لیے مختص کی ہیں ، ان کے لیے کسی عقیدے، نسل، لسان اور قومیت کی شرط نہیں ہے بلکہ یہ پوری عالم انسانیت کی فلاح کے لیے ہے۔ ان دونوں نامور شخصیات کے علاوہ دنیا کے ان گنت دولت مند اپنی دولت کا بڑا حصہ انسانیت کی فلاح کے لیے ہر قسم کے امتیازات سے بلند تر ہوکر خرچ کررہے ہیں۔

جب نظر اس کرہ ارض کا طواف کرنے کے بعد وطن عزیز پر مرکوز ہوتی ہے، تو یہاں چہار سو گدھ منڈلاتے نظر آتے ہیں، جو عوام کے جسموں کا گوشت نوچ لینے کے بعد اب باقی بچی ہڈیاں اور ان پر چمٹی کھال نوچ رہے ہیں۔

ایک ایسے ملک میں جہاں مڈل کلاس کی جسامت بیس برسوں کے دوران50فیصد سے گھٹ کر صرف 34فیصد رہ گئی ہے۔ جہاں خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی شرح 20فیصد سے بڑھ کر42فیصد ہوچکی ہے جہاں 70فیصد آبادی کو صاف پانی میسر نہیں ہے جہاں غریب گھرانوں کی بیشتر حاملہ خواتین مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث دوران زچگی اس دنیا سے چلی جاتی ہیں۔ جہاں 34فیصد بچے اپنی پہلی سالگرہ منانے سے پہلے اس لیے مرجاتے ہوں کہ ان کے والدین انھیں مناسب غذا اور دوا نہیں دے پاتے۔ عام آدمی کی اس ناگفتہ بہ صورتحال کے باوجودسیاسی رہنماؤںاور سرکاری اہلکاروںکی دولت اور اثاثوں میںمسلسل اضافہ ہو رہاہے جو اس بات کا غماز ہے کہ اس گھر کوگھر کے چراغ ہی پھونک رہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں