خبردار آگے خطرہ ہے
آئی ایس آئی پر جھوٹا الزام لگانے کا مقصد اسے عالمی سطح پر بدنام کرنے کی کوشش ہے
پاکستان پر نیا سنگین الزام عائد کر دیا گیا ہے کہ اس کی آئی ایس آئی نے افغانستان میں حقانی گروپ کو دو سو ڈالر معاوضہ دے کر امریکی سی آئی اے کے کیمپ پر حملہ کروایا تھا۔ اس وقت جب کہ پاک امریکا تعلقات میں بہتری آئی ہے اور امریکا کی جانب سے پاکستان پر اعتماد بڑھنے لگا ہے، جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ بھارت کی لاکھ کوشش کے باوجود امریکا پاکستان کو ایف سولہ طیارے، جدید ہیلی کاپٹر اور دیگر فوجی سازوسامان دینے پر تیار ہے۔ چنانچہ ایسے اہم وقت پر پاک امریکا تعلقات کو خراب کرنے کی سازش ظاہر ہے کہ بھارت ہی کر سکتا ہے۔
آئی ایس آئی پر جھوٹا الزام لگانے کا مقصد اسے عالمی سطح پر بدنام کرنے کی کوشش ہے، جو شاید اس بات کا جواب ہے کہ پاکستان میں اس کے ''را'' کے ایک بڑے ایجنٹ کو رنگے ہاتھوں گرفتار کر لیا گیا جس سے بھارتی پوزیشن بہت خراب ہو چکی ہے، چنانچہ وہ آئی ایس آئی پر الزام تراشی کے لیے گڑے مردے اکھاڑ رہا ہے کیونکہ یہ واقعہ 2009ء کا بتایا جا رہا ہے۔ پاکستان نے اس جھوٹے واقعے کی تردید کر دی۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکی حکومت پر بھارت کی اس بھونڈی چال کا کوئی اثر پڑنے والا نہیں ہے وہ بھارتی حکمرانوں کی ذہنیت سے خوب واقف ہے۔
بھارت ایک زمانے سے جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن اپنے حق میں کرنے کا خواہاں ہے تا کہ پڑوسیوں پر اپنا حکم چلا سکے مگر پاکستان اس کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ حالات و واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ خود امریکی بھی بھارت کو خطے کا تھانیدار بنانا نہیں چاہتے کیونکہ وہ اسے اب بھی روس کا بغل بچہ سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک بھارت کا روس سے گٹھ جوڑ باعث تشویش ہے چونکہ روس ماضی کی طرح آج بھی امریکا کے لیے چیلنج بنا ہوا ہے۔ وہ امریکی اہداف کے راستے میں رکاوٹ ہے۔ شام میں روسی کردار نے امریکا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
عراق اور لیبیا کو تباہ کرنے کے بعد شام امریکا کی خاص ہٹ لسٹ پر تھا گو کہ اس نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر شام کو کھنڈر میں تبدیل کر دیا ہے، مگر اصل ہدف بشار الاسد کی حکومت تھی جسے وہ گرانے میں ناکام رہا ہے اور اسے ناکامی سے دوچار کرنے والا روس ہی ہے۔ شمالی کوریا کی حکومت بھی اس وقت امریکا کے لیے ایک بڑی درد سر بنی ہوئی ہے مگر وہ کم جونگ اون کی حکومت کو بھی ختم کرانے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ جس کی وجہ شمالی کوریا کو حاصل روس کی پشت پناہی ہے۔ ایک زمانے تک چین کو بھی روسی پشت پناہی حاصل رہی ہے مگر جب سے چین نے خود کو روس سے الگ کر لیا ہے، مغربی ممالک نے وہاں بے حساب سرمایہ کاری کر کے اس کی معیشت کو دنیا کی تیسری بڑی معیشت بنا دیا ہے گو کہ بھارتی معیشت میں بھی مغربی ممالک نے دلچسپی دکھائی ہے مگر چین کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ جس کی وجہ بھارت کی دوغلی خارجہ پالیسی ہے۔
اگرچہ اس وقت بھارت خود کو امریکا اور یورپی ممالک سے قریب سے قریب تر لانے کی کوشش کر رہا ہے مگر بھارت کے تئیں ان کا محتاط رویہ ماضی میں بھارت کی مغرب سے نفرت کا آئینہ دار ہے۔ بھارت کے مشرق و مغرب کے درمیان بٹے ہوئے تعلقات کا مقصد دونوں جانب سے فائدہ اٹھانا تو ہے مگر اس کے اس رویے کی وجہ سے وہ مغرب کی نظروں میں مشکوک ٹھہرا ہے۔ اس شک کی وجہ یہ بھی ہے کہ سرد جنگ کے زمانے میں بھارت امریکی مخالف روسی بلاک میں شامل تھا پھر افغانستان پر روسی قبضے کی اس نے نہ صرف مکمل حمایت کی تھی بلکہ روس کو افغانستان سے نکالنے کی امریکی کوشش کی مزاحمت بھی کی تھی۔
سوویت روس کے ٹوٹنے کے بعد بھارت نے امریکا سے اپنی راہ و رسم بڑھانا شروع کر دی پھر جب سے مودی نے اقتدار سنبھالا وہ بھارت کو امریکا کے زیادہ سے زیادہ قریب لانے کا ڈراما رچا رہے ہیں۔ انھوں نے اوباما کے بھارت کے دورے کے دوران انھیں شیشے میں اتارنے کی پوری کوشش کی تھی اور وہ اپنی اس چال میں کامیاب بھی رہے تھے کیونکہ اوباما نے اس کے بعد بھارت کو کافی فائدے پہنچائے، بھارت کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اسے ایٹمی طاقت کے طور پر تسلیم کر لیا گیا اور ساتھ ہی اس کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن بننے کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے امریکی حمایت کا اعلان بھی کر دیا گیا۔ مگر یہ صرف اعلان ہے کوئی وعدہ نہیں ہے۔
ان امریکی اقدامات کے بعد نریندر مودی کو پورا بھروسہ تھا کہ آیندہ اوباما حکومت کوئی بھی کام بھارت کی مرضی کے خلاف نہیں کرے گی مگر جب پاکستان کو آٹھ ایف سولہ طیارے دینے کا اعلان کیا گیا بھارت نے اس امریکی فیصلے کے خلاف اپنی پوری طاقت جھونک دی حتیٰ کہ اپنے حامی امریکی سینیٹرز کے ذریعے بھی اس معاملے کو کھٹائی میں ڈالنے کی لاکھ کوشش کی گئی مگر فیصلہ پاکستان کے حق میں ہی رہا۔
اب تازہ حالات یہ ہیں کہ ایف سولہ طیارے اور دیگر فوجی سامان آج نہیں تو کل پاکستان کے حوالے کر دیا جائے گا مگر اس سے یہ ضرور ثابت ہو گیا ہے کہ امریکا اپنی خارجہ پالیسی کو صرف اپنے مفاد کے تحت چلاتا ہے اور وہ اس معاملے میں کسی دوسرے ملک کی مداخلت برداشت نہیں کرتا۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے پاک امریکا تعلقات سدا بہار ہیں پاکستان امریکا کے لیے ایک غیر معمولی اسٹریٹیجک حیثیت رکھتا ہے اور امریکا اس کے تحت ہی پاکستان کو اہمیت دیتا ہے۔ بھارتی حکمران شاید اس لیے امریکا کی زیادہ توجہ چاہتے ہیں کیونکہ بھارت سوا ارب انسانوں کی منڈی ہے اور چونکہ وہ امریکا کے دشمن چین کا دشمن بھی ہے مگر کیا بھارتیوں کو معلوم نہیں کہ پاکستان امریکا کے لیے شروع سے کتنی قربانیاں دیتا چلا آ رہا ہے۔
اس نے امریکی مفاد کے لیے افغانستان میں روس سے ٹکر لی اور اس جنگ میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔ ابھی طالبان کے خلاف پاکستان امریکی مرضی کے مطابق ہی کردار ادا کر رہا ہے حالانکہ محض اس کی وجہ سے وہ خوفناک دہشتگردی کا شکار ہو گیا ہے۔ تاہم اس دہشتگردی کو بڑھانے میں بھارت کا اہم کردار ہے، اسی کے ایما پر بلوچستان میں چند عاقبت نااندیش لوگ علیحدگی کی تحریک چلاتے رہے ہیں اب پاک فوج نے صوبے کو تخریب کاروں سے پاک کر دیا ہے۔ تاہم کلبھوشن جیسے بھارتی ایجنٹ اب بھی صوبے میں موجود ہو سکتے ہیں۔ ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں غیر ملکی ایجنسیوں کو ملک میں داخل ہونے سے روکنے کا کوئی خاص انتظام نہیں ہے اسی وجہ سے یہاں پوری دنیا کی خفیہ ایجنسیاں موجود ہیں۔
اس سلسلے میں قومی اسمبلی کو مطلع کیا جا چکا ہے اور حال ہی میں آرمی چیف نے بھی اس جانب اشارہ کیا ہے۔ بھارت افغان خانہ جنگی کو مزید طول دینے کا خواہاں ہے کاش کہ مغربی ممالک بھارت کے مذموم مقاصد کا ادراک کر کے اسے وہاں سے باہر کریں تو اس میں ان کا اپنا بھی فائدہ ہے کہ اس طرح وہ افغان بے مقصد جنگ سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔
ممبئی حملے کے سلسلے میں پروفل کر کرے اور اب پٹھانکوٹ حملے کے سلسلے میں تنزیل احمد کی ہلاکتیں اس کا واضح ثبوت ہیں۔ پاکستان جس طرح ممبئی حملے کے سلسلے میں امریکی دباؤ کی وجہ سے اسے زبردستی اپنے لوگوں کی کارروائی تسلیم کر کے پھنس گیا تھا اب پٹھان کوٹ کے بھارتی ڈرامے کے ضمن میں محتاط رویہ اختیار کرے۔ بھارت کی پاکستان سے ملحق سرحدیں اتنی کمزور نہیں ہیں کہ ہر کوئی بھارت میں داخل ہو کر تخریب کاری کر کے آرام سے گھر واپس آ جائے۔ خاص طور پر پنجاب کے بارڈر پر ڈبل خار دار باڑ لگائی گئی ہے جس میں ہر وقت بجلی کا کرنٹ دوڑتا رہتا ہے پھر ہر وقت فوجی پٹرولنگ کرتے رہتے ہیں۔ اصل واقعہ یہ ہے کہ یہ ناراض سکھوں کا حملہ ہو سکتا ہے جسے پاکستان کے کھاتے میں ڈالنے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے۔