بہترین مشورہ

پانامہ پیپرز پر جب کوئی بات کرتا ہے اور لوٹی ہوئی دولت کا تعلق حکمران خاندان سے جوڑتا ہے


نجمہ عالم April 21, 2016
[email protected]

وطن عزیزکی موجودہ صورتحال کو عام فہم الفاظ میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ پورا ملک ایک پھوہڑ، بدسلیقہ عورت کے گھر کا منظر پیش کر رہا ہے، جہاں نہ کوئی چیز ٹھکانے پر ہے نہ کوئی کام وقت پر ہوتا ہے۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ جیسے جاہل خواتین ذرا ذرا سی بات پر خاندان کی دیگر عورتوں اور پڑوسنوں کو طعنے دیتی ہیں ''میرے بیٹے نے تیرے گھر صرف دو روٹیاں کھائی تھیں مگر تیرا سپوت میرے گھر چار روٹیاں کھا گیا اور ڈکار بھی نہ لی'' کچھ یہی انداز ہمارے وفاقی وزرا کا ہے۔

پانامہ پیپرز پر جب کوئی بات کرتا ہے اور لوٹی ہوئی دولت کا تعلق حکمران خاندان سے جوڑتا ہے تو ''شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار'' فوراً فرماتے ہیں کہ اگر بات ہمارے بچوں تک پہنچی تو آپ کے دو نہیں تین بچوں کے بارے میں سوالات ہوں گے۔ پی ٹی آئی لیڈرکے کینسر اسپتال کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جس کو ہر دانش مند پسند نہیں کرے گا کہ وزیر اعظم کی دولت کا حساب مانگنے سے پہلے عمران خان بتائیں کہ انھوں نے اسپتال کے نام پر زکوٰۃ کے 30 کروڑ کہاں ڈبوئے؟ یہ بھی کہ عمران خان کو اسپتال کے لیے زمین وزیراعظم نے مفت دی تھی ، بہرحال نیک کام میں حصہ ڈالنے کو بطور احسان بار بار جتایا جائے تو اس کو پسند نہیں کیا جائے گا۔

ایک وزیر موصوف نے فرمایا کہ عمران خان نے بھی آف شورکمپنی بنائی تھی اور 30 کروڑ اس میں ڈبوئے اگر ایسا ہوا تو عمران خان کا نام پانامہ پیپرز میں کیوں نہیں آیا؟ بات دراصل یہ ہے کہ حکومتی بدعنوانیوں، لوٹ کھسوٹ اور انتخابی دھاندلی کے خلاف غیض و غضب کا اظہار کرنے پر خان صاحب کو حکمران طبقے کی جانب سے ہر وقت تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اور آپ تو شاہ کے نو رتن اس سارے منظر نامے کا ذمے دار ہی انھیں قرار دے رہے ہیں۔

بات گھوم پھر کر وہی آجاتی ہے کہ ملک کا وہ طبقہ جو ہر صورت ہر حال میں ہر وقت اقتدار پر قابض رہنا چاہتا ہے وہ مسند اقتدار پر اپنے وفاداروں کو کھلی چھٹی لوٹ مار کی دے کر اس شرط پر براجمان فرماتے ہیں کہ جتنا چاہے لوٹو، مگر ہمیں ہمارا حصہ دینا مت بھولو اور ہماری جاگیروں کی طرف نہ کسی کی آنکھ اٹھنے دو اور نہ زرعی اصلاحات کے نام پر ہم پر کوئی ٹیکس عائد کرو، البتہ زرعی مراعات جو ہاری کسان کے نہیں ہمارے حق میں ہوں وہ تمہیں دنیا دکھاوے کے لیے کرنے کی اجازت ہے تو سوائے جاگیرداری نظام کے باقی دوسری اقسام کی بدعنوانیوں کے لیے خان صاحب آواز اٹھاتے ہیں تو حکمرانوں کی آنکھ میں کھٹکتے ہیں، ویسے بطور سیاستدان عمران خان کے نابالغ ہونے کے ہم بھی قائل ہیں۔

ان کے دھرنے کے زمانے میں ہم انھیں (تحریری طور پر) یہ مشورہ خلوص دل سے دے چکے ہیں کہ ہر بات پر احتجاج وہ بھی سڑکوں اور چوراہوں پر اتنا موثر نہیں ہوتا اور نہ آپ کی نیک نیتی نظر آتی ہے (ایسے احتجاج سے ملکی املاک، معیشت، پارٹی بجٹ اور دیہاڑی کمانے والوں کا نہ صرف نقصان ہوتا ہے بلکہ لوگ جلد بیزار بھی ہوجاتے ہیں) البتہ بطور رکن اسمبلی آپ اپنا فرض ادا کریں اور ایوان میں احتجاج بھی کریں غلط بات کی نشاندہی کریں یا قرارداد پیش کریں تاکہ بلا کسی نقصان کے سہولت کے ساتھ جمہوری طریقے سے بہترین حزب مخالف کا کردار بھی واضح ہو اور جو کچھ بھی انتخابی اصلاحات اور ملکی استحکام کے لیے اور سیاسی بازی گری کے خلاف کیا جائے اس کا اخلاقی و سیاسی جواز بھی ہو، آئین محفوظ اور ایوان کا حقیقی تقدس بحال ہو۔

بات ہو رہی تھی طنز اور پرخلوص مشوروں کی، حیرت ہوتی ہے کہ کیسے کیسے نو رتنحکومت کے گرد جمع ہیں ایک سے بڑھ کر ایک سوائے اپنے شعبہ (قلم دان) کے ہر معاملے میں بے حد فعال۔ پانامہ پیپرز کے انکشافات پر اپنے مربی کا دفاع قانونی و اخلاقی بنیادوں پر کرنے کی بجائے ہر سیاسی جماعت اور ہر مخالف سیاستداں کو مورد الزام ٹھہرا کر وہ سمجھ رہے ہیں کہ معاملہ یوں ٹل کر دوسروں کے سر پر پڑ جائے گا ۔

مطلب یہ کہ ''ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے'' مگر کیا یہ مسئلے کا حل ہے؟ جس ملک میں ڈاکوؤں کے ہاتھوں سات پولیس اہلکار شہید اور تقریباً پچیس اغوا ہوجاتے ہوں (وجہ چاہے کچھ بھی ہو یعنی غلط منصوبہ بندی، حکومتی کمزوری، پولیس کی نااہلی، سیاسی وڈیروں اور ان کے نمایندگان ایوان کا اثر و رسوخ) جہاں مبینہ ملزم جعلی پولیس مقابلوں میں ہلاک کردیے جاتے ہوں، حالانکہ انھیں زندہ پکڑنا اصل کارکردگی ہے مگر مارنا اس لیے ضروری ہوتا ہے کہ زندہ رہ کر تو ان کے انکشافات خود ان کے خلاف ثبوت فراہم کردیں گے یعنی ہر جرم میں حصہ داری اور معاونت لہٰذا مار دینا ہی بہتر ہے۔

جس ملک میں کثیر لاگت منصوبے تو زور و شور سے مکمل کیے جا رہے ہوں مگر تعلیم، صحت اور روزگارکے مسائل حل کرنے پر کسی کی نظر نہ ہو۔ جہاں مخالفین سے نجات کا ذریعہ انھیں ذلیل، مجرم و گنہگار ثابت کرنا، انھیں دیوار سے لگانا بلکہ ہر مخالف پارٹی کوکالعدم قرار دینے کی خواہش سیاست کہلاتی ہو، وہاں کے حالات کتنے بھی بگڑیں ان کی اصلاح کی کوئی کوشش کبھی بارآور محض اس لیے نہیں ہوسکتی کہ ہمارے پورے نظام مملکت پر مافیا کا قبضہ ہے (چلیے اس بار ہم جاگیرداروں، وڈیروں کو کچھ نہیں کہتے) جس کی دلی تمنا ہے کہ عوام کو کبھی سکھ چین نصیب نہ ہوتا کہ ان کا کاروبار چلتا رہے۔

ویسے کپتان کا یہ دعویٰ بھی درست ثابت ہوتا نظر آرہا ہے کہ:پیپلزپارٹی اور (ن)لیگ اصل میں دونوں ایک ہیں۔ عمران خان کے بغیر ملک و قوم ان سے نجات پائے کیوں؟حکومت کو یوں تو بہت سے پرخلوص مشورے ہر طرف سے مل رہے ہیں مگر ہمارے ایک اسکالر مقبول ٹی وی اینکر نے جو مشورہ دیا ہے وہ سب سے بہتر، مناسب کے علاوہ حقیقت احوال پر اچھا تبصرہ بھی ہے کہ حکمران مقدمات اور الزامات سے نجات حاصل کرنے اور پاک و صاف ہونے کے لیے پاک سرزمین پارٹی میں شامل ہوجائیں۔ کہیے کیسا مشورہ ہے؟ مشورے کا مشورہ اور حالات حاضرہ پر تبصرے کا تبصرہ جو لوگوں کی آنکھیں کھول دے اور حقیقت حال کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ یا اللہ اس ملک کی خیر۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔