تیرھویں اسلامی سربراہی کانفرنس میں کیا ہوا

طویل عرصہ بعد محکوم مسلم علاقوں پر گھسے پٹے بیانات کے بجائے حقیقت پسندی پر مبنی جارحانہ رویہ اختیار کیا گیا


طویل عرصہ بعد محکوم مسلم علاقوں پر گھسے پٹے بیانات کے بجائے حقیقت پسندی پر مبنی جارحانہ رویہ اختیار کیا گیا فوٹو : فائل

اگرچہ تیرھویں اسلامی سربراہی کانفرنس میں بھی مسلمان حکمرانوں نے تقاریر کیں اور آخرمیں ایک اعلامیہ جاری کیا اور اپنے وطن واپس روانہ ہوگئے۔ یہ اس کانفرنس کی روایت ہے۔ مسلمان اقوام اس عالمی اسلامی اتحاد کو اقوام متحدہ کے نعم البدل کے طورپر دیکھناچاہتے ہیں، اس سے جرات مندانہ اقدامات کا مطالبہ کرتے ہیں بالخصوص کشمیریوں اور فلسطینیوں جیسی مظلوم اقوام اسی آس پر جی رہی ہیں کہ شاید انھیں ظالموں اور قابضوں سے چھٹکارہ دلانے میں آرگنائزیشن آف اسلامک کواپریشن( او آئی سی) کچھ کردار ادا کرے۔ تاہم اس بار او آئی سی کی کانفرنس میں کچھ غیرروایتی باتیں بھی ہوئی ہیں۔

کانفرنس میں پہلی بار کشمیر اور فلسطین کے مسائل پرگھسے پٹے جملوں کے بجائے زورداربات کی گئی ہے۔ مثلا جموں کشمیر کے عوام اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ان کے حق خود ارادیت کے لیے اصولی حمایت کا اظہار کیا گیا۔ ساتھ ہی بھارت کی جانب سے پرتشدد کارروائیوں اور انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزیوں پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ بھارت مزاحمت اور دہشت گردی میں فرق کرے۔ کانفرنس میں جلد از جلد ایک بین الاقوامی امن کانفرنس منعقد کرنے پر زور دیا گیا تاکہ فلسطینی عوام کے تحفظ کو یقینی بنانے اور1967 سے فلسطینی اراضی پر اسرائیلی قبضے کے خاتمے کے لیے میکانزم وضع کیا جاسکے۔

کانفرنس میں مشرق وسطیٰ کے عرب حکمران نمایاں رہے، انھوں نے ایران کے ساتھ اپنی حالیہ کشیدگی پر کانفرنس کے اعلامیہ میں ایران کو تنبیہہ کرائی۔ اعلامیہ میں کہاگیاکہ ایران کے پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات اچھی ہمسائیگی، داخلی امور میں عدم مداخلت، پڑوسی ممالک کی سیادت اور خودمختاری کے احترام اور اختلافات کو پرامن طریقے سے حل کرنے کی بنیاد پر ہوں گے۔ کانفرنس میں تہران اور مشہد میں سعودی سفارتی مشنوں پر حملوں کی مذمت کی گئی اور ایران کے ان اشتعال انگیز بیانات کو یکسر مسترد کردیا گیا جو اس نے سعودی عرب میں دہشت گردی کے مجرموں کے خلاف عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد سے متعلق دیے تھے۔

اسی طرح کانفرنس میں خطے کے ممالک اور دیگر رکن ممالک (بحرین، یمن، شام، صومالیہ) کے داخلی امور میں ایران کی مداخلت اور اس کی جانب سے دہشت گردی کی بدستور سپورٹ کی مذمت کی گئی۔ شام کی وحدت (یکجہتی)، خودمختاری، سیادت اور علاقائی سلامتی برقرار رکھنے اور شامیوں کے زیرقیادت اقتدار کی سیاسی منتقلی پر عمل درآمد کے لیے جنیوا اعلامیے کی بنیاد پر تصفیے کے لیے کانفرنس کی سپورٹ کی ضرورت پر زور دیاگیا۔ شام کے حوالے سے سلامتی کونسل کی قرارداد 2254 کا خیرمقدم کیاگیاجس میں شام میں امن عمل کے سلسلے میں بین الاقوامی روڈ میپ کی حمایت کی گئی ہے۔ یادرہے کہ ایرانی صدر حسن روحانی نے کانفرنس کے اختتامی سیشن کا بائیکاٹ کیاتھا۔

کانفرنس میں لیبیا کے حوالے سے سلامتی کونسل کی قرارداد 2259 کا خیرمقدم کیا گیا جس میں لیبیائی حکام کی عبوری ذمہ داریوں کا تعین کیا گیا۔ کانفرنس میں الصخیرات میں لیبیا کے سیاسی معاہدے پر دستخط، صدارتی کونسل اور وفاق کی قومی حکومت کی تشکیل کا خیرمقدم کیا گیا اور تمام ممالک پر لیبیا کے داخلی امور میں عدم مداخلت کے حوالے سے زور دیا گیا۔ مسلح جماعتوں کے لیے ہتھیاروں کی فراہمی، اشتعال انگیزی اور تشدد کے لیے میڈیا کا استعمال اور سیاسی عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں کو ممنوع قراردیاگیا۔

کانفرنس میں عراقی حکومت کے لیے مکمل حمایت کا عزم ظاہرکیاگیا تاکہ وہ دہشت گرد جماعتوں اور داعش کے وجود کا خاتمہ کر سکے۔ یمن میں آئینی طریقہ کار کے جاری رہنے اور سیاسی حل تک پہنچنے کے لیے سیاسی عمل کے دوبارہ شروع کیے جانے کی حمایت کا اعلان کیاگیا اور ایسے حل کی ضرورت پر زور دیاگیا جو خلیج تعاون کونسل کے منصوبے اور یمنی قومی مکالمہ کانفرنس کے نتائج کی بنیاد پر قائم ہو۔ کانفرنس میں یمن سے متعلق سلامتی کونسل کی قراردادوں بالخصوص 2201 کی پاسداری پر زوردیاگیا۔ اس قرارداد میں یمن میں آئینی حکومت کی حمایت اور سیاسی عمل میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والوں کی مذمت کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ سلامتی کونسل کی قرارداد 2216 کی حمایت بھی کی گئی جس میں حوثیوں سے تمام مقبوضہ علاقوں سے انخلاء کا مطالبہ اور ان کو اسلحے کی فراہمی پر پابندی کافیصلہ کیا گیاتھا۔

کانفرنس میں دہشت گردی کے خاتمے کے سلسلے میں سعودی عرب اور او آئی سی کے رکن ممالک کی کوششوں کی تائید کی گئی اور دہشت گردی کے خلاف اسلامی فوجی اتحاد کے لیے حمایت ظاہر کرتے ہوئے تمام رکن ممالک کو اس میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی۔ کانفرنس میں اس بات پربھی زور دیا گیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ تمام رکن ممالک کے لیے سب سے بڑی ترجیح ہے۔

کانفرنس میں لبنان میں سیاسی فریقوں کے درمیان بات چیت کا خیرمقدم کیا گیا اور رکن ممالک پر زور دیا گیا کہ وہ لبنانی فوج اور سیکورٹی فورسز کی صلاحیتوں میں اضافے کے لیے مکمل حمایت کریں تاکہ وہ دہشت گرد تنظیموں کے خلاف برسر پیکار رہتے ہوئے اپنی مطلوبہ ذمہ داریاں سرانجام دے سکیں اور لبنان میں قومی امن اور استحکام کو یقینی بنا سکیں۔

کانفرنس میں آذربائیجان کے خلاف جمہوریہ آرمینیا کی جارحیت کی مذمت کی گئی اور آرمینیا پر زور دیا گیا کہ وہ نگورنا کاراباخ سے اپنی فوجوں کو فوری طور پر نکالے۔ کانفرنس میں افغانستان میں ایک قومی حکومت کے قیام کی حمایت کی گئی اور افغانستان میں جاری امن اور مصالحت کی کوششوں کا خیرمقدم کیا گیا۔

میزبان صدر طیب اردگان اسلامی کانفرنس کے اختتام پر تمام مہمانوں کو استنبول میں واقع 'دولما باغیچہ محل' نامی تاریخی شاہی محل میں ضیافت دی۔ یہ محل1853ء سے 1922ء تک سلطنت عثمانیہ کا انتظامی مرکز تھا۔دولما باغچہ استنبول کا پہلا یورپی طرز کا محل تھا جس کی تعمیر کا حکم سلطان عبد المجید اول نے دیا تھا۔ جدید ترکی کے بانی اور پہلے صدر مصطفی کمال اتاترک نے اپنی زندگی کے آخری ایام اسی محل میں گزارے اور 10 نومبر 1938ء کو اسی محل کے ایک کمرے میں انتقال کر گئے۔

شام میں مداخلت کے بعد ایران کے لئے مسائل میں اضافہ ہواہے۔ اس سے قبل اس کی سعودی عرب کے ساتھ قربتوں میں اضافہ ہورہاتھا تاہم بشارالاسد کی حمایت میں ایرانی فورسز کے شام میں اترنے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان یک لخت شدید کشیدگی کا دور شروع ہوگیا۔ لبنان کی تنظیم حزب اللہ بھی شام پہنچ گئی۔ ایران ہرقیمت پر بشارالاسد کو بچانے کی کوششیں کرتارہا جبکہ سعودی عرب کا موقف تھا کہ شام کے مستقبل کا فیصلہ شامی عوام ہی کو کرنا ہوگا۔ ترکی بھی سعودی عرب کے موقف کا حامی ہے۔ سعودی عرب نے نہ صرف اپنے ساتھ خلیجی تعاون کونسل کے رکن ممالک کو ملایا بلکہ 34 رکنی اسلامی اتحاد بھی تشکیل دیدیا۔ اسے سعودی عرب کی ایک غیرمعمولی کامیابی قراردیاجاسکتاہے۔ اب اسلامی سربراہی کانفرنس میں بھی مسلمان ممالک کی اکثریت نے مشرق وسطیٰ کے بعض ممالک میں مداخلت پر ایران کو خبردار کیاہے۔

اگرچہ شام میں ایران کو جرنیلوں، افسران سمیت بڑی تعداد میں اہلکاروںکی ہلاکت کاسامناہے تاہم وہ بشارالاسد کے دفاع سے پیچھے ہٹنے کو ہرگزتیارنہیں۔ ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای کے مشیر برائے عالمی امور علی اکبر ولایتی نے کہا ہے کہ بشار الاسد شام کے آئینی صدر ہیں اور صدر اسد کی مدت صدارت کے اختتام تک تہران ان کی حمایت اور مدد جاری رکھے گا۔ ان کا دفاع ایران کی ذمہ داری ہے۔ ایران کی اعلیٰ سطحی شخصیت کا یہ بیان ایسے وقت میں آیا جب شام میں حکومت اور اپوزیشن گروپوں کے درمیان عارضی جنگ بندی قائم ہوئی اور مسلمان ممالک کی سربراہی کانفرنس ترکی میں ہونے والی تھی۔ ایران کو اندازہ تھا کہ اسلامی دنیا کے سربراہان شام کے مسئلے پر کیا مشترکہ موقف اختیارکرنے والے ہیں، اس کے باوجود اس کا بشارالاسد کی حمایت پر کمربستہ رہنا خاصا اہم ہے۔

بظاہرمحسوس ہورہاہے کہ شام کے میدان میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان خونریز تصادم ہوگا لیکن ترکی اس تصادم کو روکنے کے لئے اپنا کردار اداکررہاہے۔ تین ماہ قبل ترک صدر طیب اردگان کا سعودی عرب کا دورہ اور اب سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی ترکی آمد خصوصی اہمیت کی حامل رہی ہے۔حالیہ دورہ میں شاہ سلمان کی ترک صدر طیب اردگان کے ساتھ ایک طویل ملاقات ہوئی۔ ترک سربراہ نے باور کرایا کہ سعودی عرب کے ساتھ ان کے ملک کے تعلقات انتہائی مضبوط ہیں۔ انہوں نے شاہ سلمان کو 'خطے کے امن کا دریچہ' قرار دیا۔خادم حرمین الشریفین نے واضح کیا کہ ترکی کے صدر کے ساتھ ان کی بات چیت کے نتائج سے ہمارے 'سٹریٹجک تعلقات' مضبوط ہوں گے اور ہمارے سیاسی، اقتصادی، تجارتی، فوجی اور سکیورٹی روابط کو پنپنے کے لیے وسیع میدان میسر آئے گا''۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ خطے کی سب سے بڑی فوجی مشق ''شمال کی گرج''، اسلامی اتحاد کی قیادت کی جانب سے ان تمام عناصر کے لیے ایک پیغام ہے جو ان ممالک کے امن و استحکام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں۔

حالیہ برسوں میں ترکی اور سعودی عرب کے درمیان دوطرفہ تعلقات مضبوط ہوئے ہیں اور دونوں ملک شام ،یمن اور عراق میں جاری تنازعات کے حوالے سے یکساں مؤقف کے حامل ہیں۔ دونوں ملک شام میں حزب اختلاف کے زبردست مؤید اور حامی ہیں، وہ صدر بشارالاسد کو شامی تنازعے کے حل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ دونوں کے درمیان مضبوط فوجی تعلقات استوار ہوچکے ہیں۔ ترکی نے اس سال سعودی عرب میں منعقدہ فوجی مشقوں میں حصہ لیا تھا اور داعش کے خلاف فضائی مہم میں شریک سعودی طیارے ترکی کے ہوائی اڈے سے اڑکر ہی شام میں جنگجوؤں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ سعودی ترک اتحاد مشرق وسطیٰ میں نمایاں حیثیت اختیار کرچکاہے۔ مشرق وسطیٰ کی سیاست اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ اس سے متاثر ہوگی۔ مغربی حکمران اس اتحاد سے خوش نہیں ہیں۔ ان کی ناراضی مغربی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس سے ظاہر ہوتی ہے جن میں ترک صدر طیب اردگان کے خلاف ایک تسلسل کے ساتھ کچھ نہ کچھ پیش کیاجاتا رہتاہے۔

کانفرنس کے اختتام پر ترک صدر طیب اردگان اور ایرانی صدر حسن روحانی کے مابین اہم ملاقات ہوئی۔ دونوں رہنماؤں نے دونوں ملکوں کے درمیان معاشی تعلقات مزید مضبوط کرنے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون پر اتفاق کیا۔ انھوں نے ترکی اور ایران کے درمیان اختلافات کو کم کرنے کی کوششوں پر زور دیا۔ ترکی ایران سے بڑی مقدار میں گیس درآمد کرتاہے جبکہ وہ اب ایران کے ساتھ بنکنگ اور تجارت کے میدانوں میں بھی تعلقات وسیع کرنا چاہتاہے۔ روحانی نے کہا کہ بین الاقوامی اقتصادی پابندیوں کے خاتمے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کے امکانات غیرمعمولی طورپر بڑھ گئے ہیں۔ اب ترک بنک ایران میں اپنی شاخیں کھول سکیں گے۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ ایران کو بھی ادراک ہوچکاہے کہ شام بشارالاسد کا نہیں رہے گا، اس لئے وہ مالی مفادات پر توجہ دے رہاہے۔ اس خطے میں اسے ترکی سے زیادہ کسی سے قرب حاصل نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں