تجھ کو معلوم نہیں تجھ کو بھلا کیا معلوم
یہ اس زمانے کی بات ہے جب میں کالج کا طالب علم ہوا کرتا تھا۔
یہ اس زمانے کی بات ہے جب میں کالج کا طالب علم ہوا کرتا تھا۔ اس زمانے میں ہرکالج میں جہاں انٹر کالجیٹ موسیقی کے مقابلے ہوا کرتے تھے وہاں ہرکالج میں بڑی پابندی کے ساتھ سالانہ مشاعروں کا بھی بڑا رواج تھا اور ہر مشاعرے میں طالب علم شاعروں کے علاوہ ملک کے نامور شاعروں کو بھی مدعوکیا جاتا تھا اوراس دور میں قتیل شفائی اورحمایت علی شاعرکی شرکت مشاعرے کے حسن کو دوبالا کردیتی تھی اورجب حمایت علی شاعر اپنے خوبصورت ترنم کے ساتھ کلام سناتے تھے تو مشاعرہ لوٹ لیا کرتے تھے اور یہی حال قتیل شفائی کا ہوتا تھا کہ نوجوان ان کے بڑے گرویدہ ہوتے تھے۔ ان دنوں حمایت علی شاعر کی ایک نظم ''ان کہی'' مشاعروں میں بڑی مشہور تھی، اس کے چند ابتدائی اشعار قارئین کی نذرکرتا ہوں۔
تجھ کو معلوم نہیں تجھ کو بھلا کیا معلوم
تیری زلفیں ترے عارض ترے ہونٹ
کیسی انجان سی معصوم خطا کرتے ہیں
تجھ کو معلوم نہیں تجھ کو بھلا کیا معلوم
اور ہر مشاعرے میں یہ عظیم پسندیدگی کی سند بن جاتی تھی اور نوجوانوں کے دل موہ لیتی تھی۔ اسی زمانے میں ان کی ایک غزل کی بھی بڑی دھوم تھی۔ جس کا مطلع تھا:
دیکھتے ہی دیکھتے کتنے بدل جاتے ہیں لوگ
ہر قدم پر نت نئے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں لوگ
ان دنوں حمایت علی شاعر حیدرآباد میں رہائش پذیر ہوتے تھے اور میری ان سے ایک بھرپور ملاقات حیدرآباد ہی کے سلطان ہوٹل میں ہوئی تھی۔ جو حیدرآباد میں ادیبوں اور شاعروں کا اس طرح مرکز تھا جس طرح کراچی میں کافی ہاؤس اور لاہور میں پاک ٹی ہاؤس مشہور تھا۔ میں ایک دن اپنے ادیب شاعر دوستوں کی دعوت پر کراچی سے خاص طور پر حیدرآباد گیا تھا وہاں پہلے ہی سے میرے انتظار میں حیدر آباد کے چند نوجوان ادیب وشاعر جن میں قدیر غوثی، قاصد نوری وغیرہ شامل تھے موجود تھے اور جہاں میں نے پہلی بار اپنی ایک غزل سنائی تھی جس کے دو اشعار قارئین کی نذر ہیں:
کوئی تو پیار کی محفل سجائے میرے لیے
کوئی تو راہ میں آنکھیں بچھائے میرے لیے
نہ لوں وہ دیپ جو احساس کو جلا ڈالے
ہزار بار اگر جھلملائے میرے لیے
اسی دوران حیدرآباد کے نوجوان افسانہ نگار رضوان صدیقی اور کامل احمد سے بھی ملاقات رہی تھی، جب حمایت علی شاعر سلطان ہوٹل میں آئے تو انھیں دیکھ کر ہم سب نوجوانوں کے چہرے کھل اٹھے تھے۔ حمایت علی شاعر ہم سب سے بہت محبت سے ملے اور پھر رات گئے تک شعر و ادب کی باتیں ہوتی رہیں۔ اسی دوران پتہ چلا کہ اسی سلطان ہوٹل میں مشہور شاعر قابل اجمیری اور اختر انصاری اکبر آبادی کی ادبی بیٹھکیں ہوتی رہتی ہیں۔
حمایت علی شاعر نے ان دنوں حیدرآباد میں ''ارژنگ'' کے نام سے ایک ثقافتی ادارے کی بنیاد بھی ڈالی ہوئی تھی جس کے بینر تلے وہ حیدرآباد میں اسٹیج ڈراموں کو بھی فروغ دے رہے تھے۔ ان دنوں حیدرآباد میں اسٹیج کے ساتھ ساتھ ریڈیو میں بھی لکھنے لکھانے کا سلسلہ جاری تھا اور مصطفیٰ قریشی کے ساتھ محمد علی بھی دونوں جگہ حمایت علی شاعر کے ساتھ کاندھے سے کاندھا جوڑے رہتے تھے۔ محمدعلی اور مصطفیٰ قریشی کی یہی دوستی ان دونوں کو فلمی دنیا تک لے گئی تھی۔ پھر حمایت علی شاعر بھی کچھ عرصے بعد فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوگئے تھے۔ حمایت علی شاعر نے ادب کی دنیا میں اپنا ایک منفرد مقام بنانے میں بڑی جدوجہد کی تھی اور ابتدا میں یہ بڑے ہی سرد وگرم حالات سے گزرے تھے۔
حمایت علی شاعر نے 1926 میں ایک انتہائی مذہبی گھرانے میں آنکھ کھولی تھی۔ ان کی پیدائش حیدرآباد دکن کے علاقے اورنگ آباد میں ہوئی تھی۔ ان کے گھرانے میں صرف مذہبی تعلیم پر زور تھا اور شعر و شاعری تو شجر ممنوعہ کا سا درجہ رکھتی تھی اور نہ ہی ان کے خاندان میں دور دور تک کسی شاعر کا کہیں نام و نشان تھا۔ حمایت علی شاعرکی ابتدا ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے ہوئی تھی اور ان کا ابتدائی نام میر حمایت علی تھا اور اسی نام سے بحیثیت ادیب اور افسانہ نگار منظر عام پر آئے تھے پھر آہستہ آہستہ شعروسخن کی محفلوں میں بھی آنا جانا ہوا تو شاعری کی طرف بھی رغبت ہونے لگی تھی انھوں نے گزر اوقات کے لیے جہاں ریڈیو پر نوکری کی وہاں انھوں نے سڑکوں پر اخبار بھی بیچے۔
پھر یہ ادیبوں کی ترقی پسند تنظیم سے بھی وابستہ ہوگئے اسی دوران حیدرآباد دکن ہی کے ایک اخبار''جناح'' میں بھی لکھتے رہے پھرکچھ عرصے بعد اسی اخبارکے شعبہ ادارت میں بھی شامل ہوگئے تھے یہ وہ دور تھا جب وہ ابن مریم کے نام سے مضامین لکھ کرکافی مشہور ہوگئے تھے اور پھر اسی دوران یہ بحیثیت شاعر بھی مشاعروں کی محفلوں میں جانے لگے اور آہستہ آہستہ ایک شاعر کی حیثیت سے بھی ان کی ایک پہچان بنتی چلی گئی اسی زمانے کا ان کا ایک شعر بڑا مشہور ہوا تھا جو ان کے حسب حال بھی تھا:
فکر معاش کھا گئی دل کی ہر اک امنگ کو
جائیں تو لے کے جائیں کیا حسن کی بارگاہ میں
یہ وہ دور تھا جب ہندوستان اور پاکستان دو حصوں میں بٹ گئے تھے، بے شمار خاندان ہجرت کا درد لے کر ہندوستان سے پاکستان چلے گئے تھے اور ہندوستان میں زندگی کے ہر شعبے میں مسلمانوں کو پیچھے دھکیلا جا رہا تھا۔ اسی دوران ان کے خاندان نے بھی ہجرت کا فیصلہ کیا اور حمایت علی شاعر اپنے اہل خانہ کے ساتھ پاکستان آگئے اور پھر حیدرآباد سندھ میں سکونت اختیارکی۔ یہاں بھی وہ شعروادب سے وابستہ ہوگئے اور ادب میں ایم۔اے سندھ یونیورسٹی سے ہی کیا پھر وہ حیدرآباد ہی کے سچل سرمست کالج میں لیکچرارہوگئے اور ان کی شاعری بھی زور پکڑگئی۔ آج کے دور کی طرح وہ دور بھی سیاسی کساد بازاری کا دور تھا۔ حکمرانوں نے عوام کو اپنی کنیز بنا کے رکھا ہوا تھا۔ انھوں نے سیاسی رنگ میں بھی بڑی شاعری کی اس رنگ کا ایک قطعہ جو آج کے سیاسی حالات کی من و عن عکاسی کرتا ہے۔ حمایت علی شاعر کی اندرونی بے چینی کا مظہر ہے:
کتنے نادان ہیں مرے جمہور
زہر کو انگبیں سمجھتے ہیں
جانتے بوجھتے رموز حیات
اپنی سرکار سے الجھتے ہیں
یا پھر ایک اور خوبصورت غزل کے یہ اشعار:
وہ آدمی ہے تو کیوں مجھ سے دور اتنا ہے
وہ خاک ہے تو اسے کیوں غرور اتنا ہے
نظر میں کوئی بھی جچتا نہیں ہے اپنے سوا
کہ آگہی کے نشے میں سرور اتنا ہے
''آگ میں پھول'' حمایت علی شاعر کا پہلا شعری مجموعہ تھا جسے بڑی پذیرائی ملی تھی اور اس شعری مجموعے پر انھیں صدارتی ایوارڈز سے نوازا گیا تھا۔ انھیں ان کی ادبی خدمات پر دہلی کی اردو کانفرنس میں مخدوم محی الدین ایوارڈ بھی دیا گیا تھا اور اس کے ساتھ ہی ہندوستان میں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ لکھنو بھی ان کے نام کیا گیا تھا جب کہ ہندوستان کے نامور ادیب اور نقاد علامہ نیاز فتح پوری کے نام سے منسوب ایک ایوارڈ کا بھی انھیں حق دار قرار دیا گیا تھا۔
پاکستان میں ان کے ایک اور مجموعہ کلام ''ہارون کی آواز'' کو پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔ اور اس کتاب پر بھی حمایت علی شاعرکوعلامہ اقبال ایوارڈ سے نوازا گیا تھا ان کے کل چھ شعری مجموعے منظر عام پر آئے جن میں آگ میں پھول، مٹی کا قرض، تشنگی کا سفر، ہارون کی آواز، چاند کی دھوپ، اور تجھ کو معلوم نہیں تجھ کو بھلا کیا معلوم کو بڑی پذیرائی حاصل ہوئی حمایت علی شاعر نے ہائیکو اور ثلاثی کی صورت میں بھی بے شمار اشعار کہے ہیں۔ ثلاثی تین مصرعوں پر مشتمل مختصر ترین نظم کہلاتی ہے جیسے کہ یہ ان کی ایک مختصر نظم ہے:
مرنا ہے تو دنیا میں تماشا کوئی کر جا
جینا ہے تو اک گوشہ تنہائی میں اے دل
معنی کی طرح لفظ کے سینے میں اتر جا
حمایت علی شاعر برصغیر ہندو پاک کے چند ایسے جید شاعروں میں شامل ہیں جن کا ادب میں بھی ایک منفرد مقام رہا ہے اور جو فلمی دنیا میں بھی ممتاز اور مقبول رہے ہیں۔