سندس فاؤنڈیشن
میں نے ٹیلیفون کر کے خیریت دریافت کی اور کہا کہ ملاقات کو وقفہ ہو گیا ہے
ISLAMABAD:
میں نے ٹیلیفون کر کے خیریت دریافت کی اور کہا کہ ملاقات کو وقفہ ہو گیا ہے تو منو بھائی نے جواب دیا کہ اس وقت سندس فاؤنڈیشن کے ''آفس کم اسپتال'' میں ہوں ابھی اور یہیں آ جاؤ۔ مجھے وہاں پہنچنے میں پندرہ منٹ لگے۔ اسپتال کے باہر پنڈال لگا تھا۔ لوگوں کا ہجوم تھا لیکن ان ڈیڑھ دو سو لوگوں میں پانچ سے دس سال عمر کے بچوں کی اکثریت تھی جو کھیل کود کرتے ہوئے اودھم مچا رہے تھے۔ سب بچوں کے پاس چھوٹے چھوٹے کھلونے تھے۔ سامنے صوفے پر کچھ لوگوں میں گھرے ہوئے منو بھائی بیٹھے تھے۔ ان کے پچھلی جانب ایک بینر پر تحریر تھا۔
''World Haemophilia Day 17 April 2016'' سندس فاؤنڈیشن کے یہ مہمان بچے جنھیں اس سالانہ تقریب کے موقع پر مدعو کیا گیا تھا ہیموفلیا کے مریض تھے جن کا علاج وہاں ہوتا ہے لیکن 17 اپریل کو انھیں کھلونوں کے تحائف دینے، کھانا کھلانے کے علاوہ پتلی تماشہ اور میجک شو دکھانے کے لیے اکٹھا کیا گیا تھا۔
ہیموفلیا موروثی بیماری ہے جو ماں سے بچے میں منتقل ہوتی ہے۔ یہ شدید، درمیانی اور معمولی ہوتی ہے۔ اس کے مریض کا چوٹ یا کروٹ کے دباؤ سے خون رس رس کر جسم کے باہر یا اندر بہتا ہے اور نارمل طریقے سے رکنے کا نام نہیں لیتا۔ اب اس مرض کا علاج تو موجود ہے لیکن اکثر غریب لوگوں کو علم اور علاج نہ ہونے کی وجہ سے نقصان ہوتا ہے۔ سندس فاؤنڈیشن کے اسپتال میں پلازمہ فیکٹر کے چار پانچ مریض بچوں کو خون اور پلازمہ دے کر قریباً روزانہ علاج کیا جاتا ہے۔ اس روز یہی مریض بچے تھے جو ہیموفلیا کی سالانہ تقریب میں مدعو کھیل تماشے میں مصروف تھے۔
بہت پرانی بات ہے میرے اسکول کے دنوں میں ایک عزیز اسپتال میں تھے ہم ان سے ملنے گئے تو ڈاکٹر نے بتایا کہ مریض کو فوری خون کی بوتل لگے گی۔ مریض کے ایک دوست نے بتایا کہ خون کا بندوبست ہو گیا ہے وہ مریض کے بھائی کو لے کر اسپتال کے گیٹ پر پہنچا جہاں دس پندرہ مرد کھڑے تھے اور پیسے لے کر خون دینے کو تیار تھے۔
وہیں ایک ڈاکٹر نے گزرتے ہوئے ان لوگوں کو دیکھ لیا اور ڈانٹا کہ ''تم نشہ باز پھر خون فروخت کرنے آ گئے ہو'' یوں بچپن میں مجھے معلوم ہو گیا کہ کہ پیشہ ور، آوارہ اور نشئی لوگ اپنا خون ضرورتمندوں کو فروخت کرنے کا کاروبار کرتے ہیں اور اکثر کا خون صحت کے بجائے نقصان اور بیماری دینے کا سبب بنتا ہے، وقت گزرنے، آگاہی ہونے، والنٹری خون کے ڈونرز اور بلڈ بینک آ جانے کے باوجود پیشہ ور ڈونرز اب بھی سرکاری اسپتالوں کے اردگرد دستیاب ہیں۔
سندس فاؤنڈیشن ایک مکمل طور پر رفاہی NGO ہے جس کی ابتدا سن 1998ء میں گوجرانوالہ میں وہاں کی کاروباری اور مخیر شخصیت حاجی سرفراز صاحب کی دختر سندس کے تھیلیسیمیا علاج سے ہوئی۔ انھوں نے اس NGO کے قیام کے سلسلہ میں ذاتی دلچسپی لی۔ گزشتہ سترہ سال سے یہ NGO جس کی ایک گورننگ باڈی ہے لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد، گجرات، سیالکوٹ اور میر پور میں اپنے اسپتالوں کے ذریعے تھیلیسیمیا اور ہیموفلیا کے مریضوں کے علاج کر رہی ہے۔
تھیلیسیمیا ایک موروثی بیماری ہے جب بچے کے جسم کو خون یعنی ہوموگلوبین اور سرخ سیل مہیا نہیں ہو پاتے تو اس کی وجہ سے وہ پروٹین جسے آکسیجن کو پھیپھڑوں کے ذریعے جسم میں دوڑا کر سانس لینے کے قابل بنانا ہوتا ہے ناکام ہو جاتا ہے اور مریض بچہ نقاہت کا شکار ہو کر پیلا ہو جاتا ہے۔ ایسے میں مریض کو فوری خون نہ لگایا جائے تو زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔
اس بیماری میں Alpha اور Beta تھیلیسیمیا کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ ان دونوں اقسام کی میڈیکل الفاظ میں وضاحت کرنے کے ساتھ مریض میں جن علامات کے پیدا ہونے کا ذکر ہے ان میں گینٹھیا، تھکاوٹ، جلد میں پیلاہٹ، ہاتھ پاؤں کا سرد ہو جانا، سانس میں کمی اور دقت، کم خوراکی، جسمانی نشوونما میں کمی، جسمانی ڈھانچے کی بدشکلی، جسم میں آئرن کی زیادتی اور قوت مدافعت میں کمی ہو جاتی ہے۔
تھیلیسمیا اور ہیموفلیا کی وجہ سے مریض کو درپیش مشکلات کا مزید ذکر کرنے کے بجائے سندس فاؤنڈیشن کے ملک کے چھ شہروں میں اسپتالوں، ان میں جدید لیبارٹریز کے ذریعے امراض کی اقسام کی تشخیص اور خدمت انسانی کے اعلیٰ ترین جذبے کے تحت علاج کے بارے میں ان اسپتالوں کی وزٹ، ان میں اپنا اپنا حصہ ڈالنے کی تحریک اس تحریر کا بنیادی مقصد ہے۔
سندس فاؤنڈیشن ملک کے ان بچوں کی صحت اور حیات کا مشن لے کر کام کر رہی ہے۔ اس کے پاس علاج کے لیے آنے والوں کا ہفتہ وار پندرہ روزہ شیڈول ہے۔ اس وقت 6000 کے قریب مریض یہاں اپنے پروگرام کے مطابق خون کی بوتلیں اور پروٹین انجکشن لگوانے آتے ہیں۔ کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ اس کے بلڈ ڈونر ہیں۔ یہاں صرف لاہور میں تین ڈاکٹر، ایک پی ایچ ڈی ڈاکٹر، ایک ریسرچ سائنٹسٹ اور کئی اسٹاف ممبر ڈیوٹی پر ہیں۔ ہر روز تقریباً 40/50 مریضوں کو خون دیا جاتا ہے۔
گزشتہ سترہ سال میں 262584 یونٹ صحتمند خون مریضوں کو لگایا گیا ہے۔ یاسین خاں نامی ایک بے لوث سوشل ورکر نے اس NGO کی ابتدا کی اب بھی وہی اس کے روح رواں ہیں اور ہمارے منیر احمد منو بھائی اپنی کمزور صحت کے باوجود فاؤنڈیشن کے اعزازی چیئرمین ہیں۔ میرا سندس فاؤنڈیشن لاہور سترہ اور اٹھارہ اپریل 2016ء کو جانا ہوا تو دونوں دن وہاں منو بھائی اور یاسین خاں کو موجود پایا۔
یہ دونوں حضرات بلاشبہ اسی دنیا میں جنت کما رہے ہیں کہ جن دو موذی امراض میں مبتلا بچوں کے علاج کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں کوئی معمولی کام نہیں۔ یہ علاج بے حد مہنگا اور توجہ طلب ہے۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے بلڈ ڈونر طلباء اور وہ مخیر حضرات جو سندس فاؤنڈیشن کی دامے، درمے، قدمے، سخنے مدد کر رہے ہیں۔ بخوبی جانتے ہیں کہ ان کا تعاون خدا کی سب سے قیمتی عطا کردہ نعمت صحت اور زندگی بچانے کے کام آ رہا ہے۔