پانامہ لیکس یا قدرت کا سوموٹو ایکشن

کون نہیں جانتا، کسے نہیں معلوم کہ (Leaks) کا اردو لغوی مطلب ہلکا پھلکا شگاف یا رسنے کا عمل ہے


شاہد سردار April 24, 2016

ISLAMABAD: کون نہیں جانتا، کسے نہیں معلوم کہ (Leaks) کا اردو لغوی مطلب ہلکا پھلکا شگاف یا رسنے کا عمل ہے اور یہ الگ بات ہے کہ اس حوالے سے بعض سنسنی خیز دستاویزات کا ظاہر ہوجانا پوری دنیا خصوصاً پاکستان میں لیکس سے زیادہ تیز سیلابی بہاؤ بن چکا ہے، تقریباً بارہ سو پاکستانیوں کی جانب سے اربوں ڈالر کی قانونی یا غیر قانونی سرمایہ کاری کا معاملہ ملکی سیاست میں تلاطم اور عوام کے ذہنوں میں ہیجان پیدا کررہا ہے۔

ناواقف حضرات کی معلومات میں اضافے کے لیے یہ بتانا مقصود ہے کہ پانامہ جنوبی امریکا کا ایک چھوٹا سا ملک ہے، جس کی آبادی تقریباً 40 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ پانامہ کو ٹیکس ہیون اور آف شور (ٹیکس چوروں کے لیے جنت تصورکیا جاتا ہے) دنیا بھر کے امیر ترین افراد اور سیاست دانوں کے لیے 3 اپریل 2016 کا دن انتہائی بدترین ثابت ہوا، جب پانامہ کی لا فرم ''موساک فونسیکا'' نے آف شور کمپنیوں کے بارے میں انکشاف کرکے دنیا بھر کے سیاستدانوں، حکمرانوں، امیر طبقے اور شوبز شخصیات کی بددیانتی کو بے نقاب کردیا۔ لیکس خفیہ دستاویزات کی اب تک سب سے بڑی لیکس تصورکی جارہی ہے، جس میں پانامہ کی لا فرم موساک فونسیکا سے تقریباً 11.5 ملین دستاویزات لیکس (افشا) ہوئیں جن میں دنیا کی 143 اہم عالمی شخصیات کے نام بھی شامل ہیں۔

کالے دھن (بلیک منی) پر نظر رکھنے والی ''ٹیکس جسٹس نیٹ ورک'' کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھرکے سیاستدانوں اور امرا طبقے نے ان کمپنیوں میں تقریباً 30 کھرب ڈالر چھپا رکھے ہیں، لیکن قابل افسوس بات یہ ہے کہ یہ کمپنی کے حقیقی مالک اور اس کی دولت کا اندازہ لگانا ممکن نہیں، شاید انھی وجوہات کے باعث دنیا میں امیر اور غریب کے درمیان فرق میں حد درجہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے، امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔

دلچسپ بات اس حوالے سے یہ ہے کہ ابھی تک کسی شخصیت نے مصدقہ شواہد کے ساتھ منکشف کی جانے والی ان معلومات کو کسی سطح پر چیلنج نہیں کیا ہے، اگر کیا ہے تو محض ذرایع ابلاغ میں بیانات کی حد تک۔ بیشتر شخصیات نے آف شور کمپنیوں کے قیام اور اس کے ذریعے خطیر رقوم کی ٹرانزکشن کا اعتراف بھی کیا ہے لیکن اپنے اس عمل کو غیر قانونی اور ٹیکس چوری تسلیم نہیں کیا بلکہ اس اقدام کی مختلف توجیہات پیش کی ہیں، جو بظاہر تضادات پر مشتمل بھی دکھائی پڑتی ہیں۔ تاریخ کی اس سب سے بڑی لیکس کے منظر عام پر آنے سے اس کا پہلا شکار آئس لینڈ کے وزیراعظم بنے، یوکرین کے وزیر اعظم دوسرے جب کہ برطانیہ کے وزیراعظم اور ہمارے وزیراعظم پر مستعفی ہونے کے لیے دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔

روسی صدر کو آیندہ عام انتخابات میں سخت مقابلے کا چیلنج درپیش ہے اور جرمن وزیر خزانہ نے تجویز دی ہے کہ ٹیکس تفصیلات کا تبادلہ نہ کرنے والے ملکوں کو بلیک لسٹ کردیا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ آف شور کمپنیوں کی باقاعدہ رجسٹریشن کی جائے، جس میں ان کے مالکان کے نام بھی درج کیے جائیں تاکہ ان کمپنیوں کی آڑ میں منی لانڈرنگ، ٹیکس چوری اور لوٹ کھسوٹ کا پیسہ لگانے والے سیاستدانوں اور دیگر کرپٹ افراد کی نشاندہی ہوسکے۔

ملکی منظرنامے کے حوالے سے یہ افسوسناک بات ہے کہ پانامہ انکشافات میں پاکستان کے بارہ سو سے زائد افراد کے نام مشکوک مالیاتی سرگرمیوں کی فہرست میں شامل ہیں لیکن مختلف سیاسی پارٹیوں نے سب کو چھوڑ کر صرف وزیراعظم نواز شریف کے خاندان کو اپنی تنقید کا نشانہ بنا رکھا ہے، وزیراعظم نواز شریف نے جمعہ کی شب ٹی وی پر قوم سے ایک اور خطاب میں کہا کہ قصور وار ٹھہرا تو خاموشی سے گھر چلا جاؤنگا۔

یہ امر بھی خاصا دلچسپ ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں اس مسئلے پر حکومت کو ٹف ٹائم دینے پر تو متفق ہیں مگر اس کے حل پر عدم اتفاق کا شکار ہیں، حکمراں پارٹی کے وزرا اور مرکزی لیڈر اپوزیشن کے الزامات کی دھجیاں اڑا رہے ہیں اور جوابی حملے کررہے ہیں۔ شور شرابے کے اس ماحول میں ایک عام آدمی کے لیے یہ فیصلہ کرنا آسان نہیں کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا۔ کتنا اچھا ہو کہ ایک دوسرے کے خلاف الزامات لگانے کے بجائے ہمارے سیاستدان اس ملک کو احتساب کا ایک ایسا سسٹم دے دیں جس میں کوئی کرپٹ، کوئی بدعنوان، کوئی بدکردار اہم حکومتی عہدوں تک رسائی حاصل نہ کرسکے۔

جو کچھ یہ سیاستدان ایک دوسرے کے متعلق آج کہہ سن رہے ہیں اس پر اگر اعتبار کرلیا جائے یا اگر اس سب کو درست مان لیا جائے تو پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔ اس لیے بہتر یہ ہوگا کہ الزامات کو بار بار دہرانے کے بجائے زور اس بات پر دیا جائے کہ ایسے الزامات کو ثابت کیا جائے یا پھر متعلقہ فرد کو کلین چٹ دے دی جائے اور یہ کام شفاف طریقے سے انصاف کے ساتھ ہونا چاہیے۔ اس کے لیے مک مکا، مٹی پاؤ اور جعلی احتساب کے موجودہ نظام جو اربوں روپے ہڑپ کرنے والوں کو باعزت بری کرنے کے لیے بنایا گیا ہے، کا خاتمہ ضروری ہے۔

پانامہ لیکس نے ہمیں یہ بھی بتایا ہے کہ پاکستانی اشرافیہ کتنی کرپٹ ہے اور کیسے، کہاں کرپشن کو تحفظ دیا جاتا ہے اور طویل عرصے کے لیے اس کو عوام سے کیسے چھپایا جاسکتا ہے۔ پاکستان کی اشرافیہ اس ملک کو لوٹ کر کھا چکی ہے اور پاکستان کی کوئی بھی سیاسی جماعت جوڈیشل کمیشن کو ماننے کو تیار نہیں ہے۔

کوئی مانے یا نہ مانے، پانامہ لیکس قدرت کا سوموٹو ہے اور نورا کشتی کے ماہرین اس میں پھنس گئے ہیں اور یہ بہت برمحل بھی ہے، کیونکہ پانامہ لیکس کے پیچھے پاکستان کے کروڑوں شہریوں میں سے کسی کا ہاتھ نہیں ہے، یہ بہرطور آسمان سے اترنے والا ناگہانی سوموٹو ایکشن یا نوٹس ہے اور دنیا کا آفاقی اصول ہمیشہ سے یہ کہتا آیا ہے کہ جنھیں آسمانی طاقتیں تباہ کرنے یا سبق سکھانے کا ارادہ کرلیں، ان سے پہلے غلطیاں کرواتی ہیں، لہٰذا اس حوالے سے بنیادی حقائق سبھی کو تسلیم کرلینے چاہئیں کہ ان سے مفر ممکن نہیں۔

اس اسکینڈل کا علامتی حجم اتنا وسیع ہے کہ ہمارے طاقتور یا بااختیار پریشان ہوگئے ہیں۔ اگر آئس لینڈ کے وزیراعظم کو گھر جانا پڑسکتا ہے، اگر آسٹریا کے بینک کا سربراہ اپنے منصب سے ہٹ سکتا ہے، اگر برطانیہ کے وزیراعظم اس کی تمازت محسوس کر رہے ہیں تو ہمارے ملک کے بااثر خاندانوں کے لیے اسے باآسانی ٹال دینا ممکن نہیں ہوگا۔ پانامہ لیکس کی افتاد کو سہنا مشکل رہے گا۔

آج کا انسان چاہے وہ معاملہ فہم ہو یا عام سا سرسری بندہ سب کے سب اپنے معاشی مسائل میں اس طرح الجھ کر رہ گئے ہیں کہ انھیں کسی دوسرے کے مسئلے یا دوسرے انسان کے بارے میں سوچنے کی فرصت ہی نہیں رہی ہے۔ اس صورتحال میں تمام رشتے ناتے بھی اپنی قدر کھوچکے ہیں۔ مشرق ہو یا مغرب امریکا ہو یا پاکستان کمی وبیشی کے ساتھ ہر طرف یہی ماجرا ہے۔ ایسے میں چار دن بعد ہی سہی لوگ اپنی اپنی مستی میں مست ہوجائیں گے یا اپنے مصائب ومسائل میں پھر سے گھر جائیں گے لیکن حقیقی فہم وفراست شفافیت، انصاف اور حقائق کی طلب گار رہے گی۔

یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ پانامہ لیکس کے معاملے کی تحقیقات میں جتنی تاخیر کی جائے گی معاملہ اسی قدر بگڑتا جائے گا اور یہ بھی وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ اس معاملے کی تحقیقات سے معاملات درست ہوجائیں گے کیونکہ بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے ملکی اور بین الاقوامی عوامل بھی اثر انداز ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ امید بلکہ یقیناً ہے کہ ہمارے ارباب اختیار ناخن اتارنے کی کوشش میں اپنی انگلیاں کاٹنے کی حماقت نہیں کریں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں