فاتح بیت المقدس حضرت عمر فاروقؓ کا دورِ خلافت

فاروقی دور خلافت میں اسلامی سلطنت 22 لاکھ مربع میل پر محیط تھی


Muhammad Irfan Ul Haq Advocate November 15, 2012
آپ نے اپنے حکام کو باریک کپڑا پہننے، چھنے ہوئے آٹے کی روٹی کھانے اور دروازے پر دربان رکھنے سے سختی سے منع فرمایا۔ فوٹو : فائل

آپ کا اسم گرامی ''عمر''، لقب ''فاروق'' اور کنیت ''ابو حفص'' ہے۔

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا نسب پشت پر سیدنا محمدﷺ سے ملتا ہے۔ آپ کی ولادت عام الفیل کے تیرہ سال بعد ہوئی اور آپ ستائیس سال کی عمر میں مشرف بہ اسلام ہوئے۔ چوں کہ نبی کریمﷺ سیدنا عمررضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے کے لیے بہت دعا فرمایا کرتے تھے اس لیے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے پر نبیﷺ بہت خوش ہوئے اور اپنی جگہ سے چند قدم آگے چل کر آپ کو گلے لگایا اور آپ کے سینہ مبارک پر دست نبوت پھیر کر دعا دی، کہ اللہ آپ کے سینہ سے کینہ و عداوت کو نکال کر ایمان سے بھر دے۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام بھی فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام پر مبارک باد دینے نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔

سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے سے اسلام کی شوکت و سطوت میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا اور مسلمانوں نے بیت اللہ شریف میں اعلانیہ نماز ادا کرنا شروع کر دی۔آپ وہ واحد صحابی ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اعلانیہ اسلام قبول کیا اور اعلانیہ ہجرت فرمائی۔ ہجرت کے موقع پر طواف کعبہ کیا اور کفار مکہ کو للکار کر کہا کہ میں ہجرت کرنے لگا ہوں یہ مت سوچنا کہ عمر چھپ کر بھاگ گیا ہے، جسے اپنے بچے یتیم اور بیوی بیوہ کرانی ہو وہ آکر مجھے روک لے۔ مگر کسی کی ہمت نہ ہوئی کے آپ کے مقابل آتا۔

ہجرت کے بعد سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ تمام غزوات میں رسول اللہﷺ کی معیت میں رہے۔ غزوۂ بدر میں اپنے حقیقی ماموں عاص بن ہشام کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا۔ غزوۂ احد میں انتشار کے با وجود اپنا مورچہ نہیں چھوڑا۔ غزوۂ خندق میں خندق کے ایک طرف کی حفاظت آپ کے سپرد تھی بعد ازاں بطور یادگار یہاں آپ کے نام پر ایک مسجد تعمیر کی گئی۔غزوۂ بنی مصطلق میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک کافر جاسوس کو گرفتار کر کے دشمن کے تمام حالات دریافت کر کے اسے قتل کردیا تھا اس وجہ سے کفار پر دہشت طاری ہو گئی۔

غزوۂ حدیبیہ میں آپ مغلوبانہ صلح پر راضی نہ ہوتے تھے مگر نبی اکرمﷺ کی وجہ سے سرِ تسلیم خَم کیا۔ اور جب سورۂ فتح نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے آپ کو یہ سورت سنائی کیوں کہ اس میں بڑی خوش خبری اور فضیلت آپؓ ہی کے لیے تھی۔ غزوۂ خیبر میں رات پہرے کے دوران ایک یہودی کو گرفتار کیا اور نبی ﷺ کی خدمت میں لے آئے۔ اس سے حاصل شدہ معلومات ہی فتح خیبر کا بہترین ذریعہ ثابت ہوئیں۔ غزوۂ حنین میں مہاجرین صحابہؓ کی سرداری حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو مرحمت کی گئی۔ فتح مکہ کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضور ﷺ سے کعبہ میں عمرہ یا اعتکاف کی اجازت طلب کی تو نبی علیہ السلام نے اجازت کے ساتھ فرمایا ''اے میرے بھائی! اپنی دعا میں ہمیں بھی شریک رکھنا اور ہمیں بھول نہ جانا''۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ نبی ﷺ کے اس مبارک جملہ کے عوض اگر مجھے ساری دنیا بھی مل جائے تو میں خوش نہ ہوں گا۔

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کفر و نفاق کے مقابلہ میں بہت جلال والے تھے اور کفار و منافقین سے شدید نفرت رکھتے تھے۔ ایک دفعہ ایک یہودی و منافق کے مابین حضور انورﷺ نے یہودی کے حق میں فیصلہ فرمایا مگر منافق نہ مانا اور آپؓ سے فیصلہ کے لیے کہا ۔ آپؓ کو جب علم ہوا کہ نبیﷺ کے فیصلہ کے بعد یہ آپ سے فیصلہ کروانے آیا ہے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس کو قتل کر کے فرمایا جو میرے نبیﷺ کا فیصلہ نہیں مانتا میرے لیے اس کا یہی فیصلہ ہے۔کئی مواقع پر حضور نبی کریمﷺ کے مشورہ مانگنے پر جو مشورہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے دیا قرآن کریم کی آیات مبارکہ اس کی تائید میں نازل ہوئیں۔

ازواج مطہراتؓ کے پردے ، اسیران بدر، مقام ابراہیم پر نماز، حرمت شراب، کسی کے گھر میں داخلہ سے پہلے اجازت،تطہیر سیدہ عائشہؓ جیسے اہم معاملات میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے، مشورہ اور سوچ کے موافق قرآن کریم کی آیات نازل ہوئیں۔ علماء و فقہاء کے مطابق تقریباً 25 آیات قرآنیہ ایسی ہیں جو فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی تائید میں نازل ہوئیں، انہیں موافقات عمر کہا جاتا ہے۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے 537 مرفوع احادیث مبارکہ مروی ہیں۔

جب آپ خلافت اسلامیہ پر متمکن ہوئے تو اعلان فرما دیا کہ میری جو بات قابل اعتراض ہو مجھے اس پر بر سرعام ٹوک دیا جائے۔ اپنے دور خلافت میں رات کو رعایا کے حالات سے آگاہی کے لیے گشت کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ معمول کے مطابق رات کو گشت کر رہے تھے کہ معلوم ہوا کہ ایک اعرابی کی بیوی کو درد زہ ہو رہا ہے مگر اس وقت اس کے پاس کوئی عورت موجود نہیں جو اس کی مدد و تیمار داری کر سکے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ وہیں سے الٹے پائوں گھر آئے اور اپنی اہلیہ سیدہ ام کلثومؓ کو ساتھ لے کر اس اعرابی کی بیوی کے ہاں لے گئے جنہوں نے کچھ دیر بعد خیمے کے اندر سے باہر کھڑے سیدنا فاروق اعظمؓ سے کہا کہ اے امیرالمؤمنین! اپنے دوست کو خوش خبری دیں کہ اس کے ہاں لڑکا تولد ہوا ہے۔ یہ سنتے ہی اعرابی کی حیرت کی انتہاء نہ رہی کہ امیرالمؤمنین اپنی اہلیہ سمیت رات کو اس کی مدد کے لیے آئے ہوئے ہیں۔ الغرض یہ کہ اس طرح کے کئی واقعات ہیں جو سیدنا عمرؓ کے احساس ذمہ داری و خشیت الہٰی پر دلالت کرتے ہیں۔

آپ نے اپنے حکام کو باریک کپڑا پہننے، چھنے ہوئے آٹے کی روٹی کھانے اور دروازے پر دربان رکھنے سے سختی سے منع فرمایا رکھاتھا۔ مختلف اوقات میں اپنے مقرر کردہ حکام کی جانچ پڑتال بھی کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ ملک شام تشریف لے گئے اس وقت حاکم شام سیدنا امیر معاویہؓ تھے جنہوں نے عمدہ لباس پہنا ہوا تھا اور دروازہ پر دربان بھی مقرر کیا ہوا تھا۔ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہؓ سے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ چوں کہ یہ سرحدی علاقہ ہے اور یہاں دشمن کے جاسوس بہت ہوتے ہیں اس لیے میں نے ایسا کیا ہے تا کہ دشمنوں پر رعب و دبدبہ رہے۔ یہ جواب سن کر سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ مطمئن ہو گئے۔

اپنے دور خلافت میں مصر، ایران، روم اور شام جیسے بڑے ملک فتح کیے۔ 1ہزار 36شہر مع ان کے مضافات فتح کیے۔ مفتوحہ جگہ پر فوراً مسجد تعمیر کی جاتی۔ آپ کے زمانہ میں 4ہزار مساجد عام نمازوں اور 9 سو مساجد نماز جمعہ کے لیے بنیں۔ قبلۂ اول بیت المقد س بھی دور فاروقی میں بغیر لڑائی کے فتح ہوا۔حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ فاروقی حکم سے جب بیت المقدس پہنچے تو وہاں کے یہودیوں اور عیسائیوں نے کہا کہ ہماری کتابوں کے مطابق فاتح بیت المقدس کا حلیہ آپ جیسا نہیں، لہٰذا آپ اسے فتح نہیں کر سکتے۔ چنانچہ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو خط میں صورت حال لکھ بھیجی اور پھر جناب عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی بیت المقدس آمد پر چابیاں آ پ کے حوالہ کی گئیں کیوں کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے آپ کا حلیہ مبارک اپنی کتابوں کے مطابق پا لیا تھا۔

انہی سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے فتح مصر کے بعد ایک مرتبہ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو بذریعہ خط اطلاع دی کہ دریائے نیل ہر سال خشک ہو جاتا ہے اور لوگ ہر سال ایک خوب رو دوشیزہ کی بھینٹ چڑھاتے ہیں تو دریا میں پانی اتر آتا ہے۔ تو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جواباً ایک خط تحریر فرماکر روانہ کیا کہ یہ خط دریاکی ریت میں دبا دیا جائے۔ جیسے ہی خط دبایا گیا تو دریائے نیل میں پانی چڑھ آیا بلکہ پہلے سے چھ گنا زیادہ پانی ہو گیا۔ آپ رضی اللہ عنہ کے خط کا مضمون یہ تھا کہ اے دریا! اگر تو اپنی مرضی سے بہتا ہے تو ہمیں تیری کوئی حاجت نہیں اور اگر تو اللہ کی مرضی سے بہتا ہے تو بہتا رہ۔

کئی قرآنی وعدے اور خوش خبریاں آپؓ ہی کے دور خلافت میں پوری ہوئیں۔ فاروقی دور خلافت میں اسلامی سلطنت 22 لاکھ مربع میل کے وسیع رقبہ پر محیط تھی۔ پولیس کا محکمہ بھی آپؓ ہی نے قائم فرمایا تھا۔ کئی علاقوں میں قرآن اور دینی مسائل کی تعلیمات کے لیے حضرت معاذ بن جبل، حضرت عبادہ بن صامت، حضرت ابی ابن کعب، حضرت ابوالدرداء، حضرت سعد اور حضرت ابو موسیٰ اشعری وغیرہ جیسے اجلّہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مقرر فرمایا۔ آپؓ کا دور خلافت بہت مبارک اور اشاعت و اظہار اسلام کا باعث تھا۔ 27ذی الحجہ بروز بدھ ایک ایرانی مجوسی جس کا نام ابو لؤلؤ فیروز تھا، نے نماز فجر کی ادائیگی کے دوران حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خنجر مار کر شدید زخمی کر دیا۔ اور یکم محرم الحرام بروز اتوار اسلام کا یہ بطل جلیل 63سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوا۔ آپؓ کی نماز جنازہ حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ نے پڑھائی۔روضہ نبوی میں نبی مکرمﷺ اور خلیفۂ اول سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی قبروں کے ساتھ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی قبر مبارک بنائی گئی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں