مرد مجاہد

اس لیے جن جن لوگوں کے نام اس اسکینڈل میں آئے ہیں ان کی تعداد ایک کروڑ سے بھی زیادہ ہے۔


Syed Mohsin Kazmi April 26, 2016
[email protected]

پانامہ لیکس نے دنیا کے بہت سے چہرے بے نقاب کردیئے جنھوں نے اپنے کاروبار کو چھپانے کے لیے آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری کی۔ اس آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری کا فائدہ یہ ہوتا ہے اس میں جو سرمایہ لگایا جاتا ہے اس کی پوچھ گچھ نہیں ہوتی کہ کہاں سے آیا اور نہ ہی اس پر کسی قسم کی کٹوتی ہوتی ہے، نہ انکم ٹیکس، نہ سیلز ٹیکس۔ اس لیے اس میں زیادہ تر سرمایہ ان لوگوں کا ہوتا ہے جن کے پاس دولت کی بھرمار تو ہوتی ہے مگر یہ ثابت کرنا مشکل ہوتا ہے کہ یہ جائز ذرائع سے حاصل آمدنی ہے۔

اس لیے جن جن لوگوں کے نام اس اسکینڈل میں آئے ہیں ان کی تعداد ایک کروڑ سے بھی زیادہ ہے۔ 1200 افراد کے نام تو پاکستان سے ہیں، جن میں شریف فیملی سرفہرست ہے۔ اب یہ معاملہ پوری دنیا میں عیاں ہوچکا ہے۔ بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے ۔ کم سے کم اخلاقی پہلو یہ ہے کہ شریف خاندان کے لیے اپنی اس آمدنی، اس سرمایہ کاری کی مقدار اور اس کے جائز طریقہ کو ثابت کرنا بہت ضروری ہے، جبکہ وہ اپنے خطاب میں خود بیاں کرچکے ہیں کہ ان کی اتفاق فاؤنڈری جو کہ ایک لاہور میں، ایک ڈھاکہ میں تھی، 1974 میں لاہور والی قومیا لی گئی تھی، صرف ان کی فاؤنڈری نہیں بلکہ تمام صنعتوں کو قومیایا گیا تھا، مگر آج تک کسی نے یہ سوال نہیں پوچھا کہ ضیا الحق کے زمانے میں صرف آپ کی ہی انڈسٹری کو کیوں واپس کیا اور کس قانون سے واپس کیا؟ اگر کوئی ڈی نیشلائزیشن پالیسی تھی تو سب کی ہی انڈسٹری واپس ہوتی۔

یہ مہربانی اس وقت کے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نے آپ پر ہی کیوں کی؟ 1994 میں جو آپ نے ٹیکس گوشوارے دیئے تھے، اس حساب سے آپ کے سرمائے کا انداز 1994 سے لگایا جاسکتا ہے، جبکہ لندن کے خریدے گئے فلیٹس اور آف شور کمپنیوں کی سرمایہ کاری کا ذکر 1990 سے آرہا ہے۔ حسین نواز کے بیان اور مریم نواز کے بیان میں بہت بڑا تضاد سامنے آیا ہے، لہٰذا وقت کا تقاضا بھی ہے اور قوم یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ آپ کے تمام سرمائے کی سلسلہ وار فرانزک آڈٹنگ ہونی چاہیے تاکہ قوم مطمئن ہوسکے کہ جن کو پاکستان کے عوام نے خاص طور پر اہل پنجاب نے اتنی اکثریت سے ووٹ دے کر پاکستان کا تیسری بار وزیراعظم بنایا، وہ آپ کو آصف زرداری، عمران خان سے بہتر سمجھتے تھے، وہ آپ کو مالی بدعنوانی سے پاک سمجھتے تھے، لیکن جو راز پانامہ لیکس کے ذریعے بر سرعام ہوئے، اس نے آپ کے چاہنے والوں اور پاکستان کے 20 کروڑ عوام کو حیرت میں ڈال دیا۔ آخر آپ ایسا کون سا بزنس معجزہ دکھا رہے تھے کہ انھوں نے ایک لاکھ 19 ہزار ڈالر آپ کو بھی دیے۔

آپ کے اس معاملے پرعموماً شبہ یہ ہے جس طرح آف شور کمپنیوں میں ناجائز آمدنی اور کک بیک کی رقم جمع ہوتی ہے، شاید یہ معاملہ آپ کے ساتھ بھی ہو۔ آپ 1974 میں ایک متوسط خاندان سے تعلق رکھتے تھے، لاہور کے درمیانی علاقہ میں رہتے تھے۔ مگر جوں جوں آپ سیاست میں اگے بڑھتے گئے آپ کا لائف اسٹائل، آپ کی فیملی کا لائف اسٹائل رائل ہوتا چلا گیا۔ آپ نے اپنی مختصر عرصہ میں بنائی ہوئی سعودی عریبیہ کی مل، وہ بھی قرضہ کی بنیاد پر وجود میں لائی گئی، وہ اتنی قیمتی کیسے فروخت ہوگئی، جبکہ پاکستان میں 45 سال سے دنیا کی سب سے بڑی اسٹیل مل جس میں ہزاروں لوگ شفٹ میں کام کرتے ہیں، وہ دن بدن خسارہ میں چلتی گئی، جبکہ اسٹیل مل کا آپ کے پاس خاندانی تجربہ تھا۔ آپ جب اقتدار میں آئے تو قومی اثاثوں کو فروخت کرنے لگے اور ریکار ڈ یہ بھی ہے سب سے زیادہ بیرونی کھربوں قرضہ کا تناسب بھی اپنے موجودہ چند سال میں دگنا ہوگیا۔ 20 کروڑ عوام اس قرضہ میں گروی ہوگئے۔ آنے والی حکومت اس ملک کو کیسے ترقی پر لے کر جائے گی؟

آج پاکستان کے عوام اور خواص پریشان ہیں کہ آپ نے، آپ کے بچوں نے اتنے مختصر عرصہ میں اتنی دولت کہاں سے کمالی؟ اگر مناسب سمجھیں اور عزت اور وقار کا خیال ہو تو کم سے کم وقتی طور پر وزیراعظم کے منصب سے علیحدہ ہوکر ایک آزادانہ احتسابی ادارہ قیام میں لائیں، جس پر پوری پارلیمنٹ متفق ہوجائے اور یہ ثابت کریں کہ آپ کی جتنی دولت ہے وہ جائز آمدنی کا نتیجہ ہے۔

کوئی محب وطن جس کے دل میں قائداعظم کے پاکستان کا حقیقی تصور ہو وہ کوئی انتہائی قدم اس وطن، اس قوم کے مفاد میں اٹھائے اور اس وطن میں جابجا پھیلی ہوئی کرپشن جس کے تانے بانے دہشت گردوں، قتل وغارت کرنے والوں، اغوا برائے تاوان والوں، مذہبی اور لسانیت فرقہ واریت کا پرچار کرنے والوں تک جا ملتے ہیں جس کے تمام شواہد اور ثبوت ہمارے حساس اداروں کے پاس موجود ہیں، وہ کوئی ایسا قدم اٹھائیں اور کوئی ایسا جز وقتی لائحہ عمل سامنے لائیں جس میں ان تمام گندے انڈوں کو یکجا کر کے ان کے کالے کرتوت عوام کے سامنے رکھیں اور آئندہ ہونے والے عام انتخابات میں تمام امیدواروں کے لیے کم سے کم یہ شرط ہوکہ وہ اس وقت امیدواری کے مستحق ہوں گے جب ان کی رپورٹ پاکستان کے تمام حساس اداروں اور جے آئی ٹی جیسی ٹیم سے کلیئر ہوگی۔ جن کی دہری شہریت نہ ہوگی اور جن کا اکاؤنٹ اور سرمایہ بیرون ملک نہ ہوگا۔ کاش کوئی مرد مجاہد اٹھ کر یہ قدم ملک اور قوم کے لیے اٹھائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں